قطر-سعودیہ تنازع‘عرب اتحاد میں پھوٹ ڈالنے میں امریکا ایک بار پھر کامیاب
شیئر کریں
سعودی عرب کی قیادت میں 6 ممالک کا قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان،فضائی راستے، تجارت بھی منقطع، قطر کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش، معاشی دھچکا لگنے کا خدشہ
عالمی برادری تنازع کے اسباب جاننے کے لیے بے چین ،اخوان المسلمون ،داعش اور ایران کی حمایت کا الزام ،حکومت قطر نے الزام مستردکردیا،کویت و ترکی کی ثالثی کوششیں
ابن عماد بن عزیز
سعودی عرب اور مصر سمیت 6 عرب ممالک نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے والے چھ عرب ممالک میں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن شامل ہیں۔اس کی وجہ سے بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے قطر سے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ان ممالک کا الزام ہے کہ قطر اخوان المسلمون ،داعش جیسی شدت پسند تنظیموں اور ایران کی حمایت کرتا ہے۔مذکورہ ممالک نے قطر سے تجارت اورزمینی سرحد و فضائی رابطے بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے قطر کو معاشی دھچکا لگنے کا خدشہ ہے ۔یہ امر قابل غور ہے کہ یہ تنازع امریکا عرب اسلامی سمٹ کے تھوڑے عرصے بعد ہی منظر عام پر آیا ہے ۔ یہ فیصلہ پیر کو اچانک سامنے آیا جسکے باعث عالمی برادری پریشان ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس کے سبب سعودی عرب اور اسکے دوست ممالک نے اپنے ہی ایک عرب دوست ملک کا ناطقہ بند کرنے کی ٹھان لی ہے ۔حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ قطر پر جو الزام لگایا گیا ہے اس پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ نہ داعش ایران کی حامی ہے ،نہ ہی اخوان کا داعش یا ایران سے گٹھ جوڑ ہے لہٰذا اس الزام پر بھی تجزیہ کاروں کو سخت تعجب ہے ۔قطر نے اس اقدام کو بلاجواز اور بلاوجہ قرار دیا ہے۔
سفارتی تعلقات کے انقطاع کو خلیجی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور امریکی وزیرِ خارجہ نے ان ممالک سے کہا ہے کہ وہ باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کریں۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور وہ ’دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر‘ قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بھی بند کر رہا ہے۔سعودی عرب نے ایک بیان میں قطر پر ’ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں‘ کے ساتھ مشرقی علاقوں قطیف اور بحرین میں تعاون کرنے کا الزام لگایا ہے۔متحدہ عرب امارات نے قطری سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے کی مہلت دی ہے۔ ابوظہبی نے دوحہ پر دہشت گرد، انتہا پسندی اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔ملک کی سرکاری فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز نے بھی دوحہ کے لیے تمام پروازیں فوری طورپر روکنے کا اعلان کیا ہے۔بحرین نیوز ایجنسی نے کہا کہ مملکت دوحہ کے ساتھ اپنے رشتے منقطع کر رہی ہے۔اس کا الزام ہے کہ دوحہ ان کے ’اندرونی معاملات‘ میں دخل اندازی کر رہا ہے اور ان کی سلامتی اور استحکام کو متزلزل کر رہا ہے۔مصر کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ مصر نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ قطری جہاز اور طیاروں کے لیے اپنی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بھی بند کر رہا ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ اپنی قومی سلامتی کے تحت کیا ہے۔سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ قطر کو سعودی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سرگرم عسکری اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایس پی اے کا کہنا ہے کہ اس اخراج کی وجہ یہ ہے کہ قطر کے اقدامات سے ’دہشت گردی مضبوط ہو رہی ہے‘ اور وہ ’القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں اور باغی ملیشیاوں کی حمایت کرتا ہے۔‘ قطر نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کے لیے اپنے طیارے فراہم کیے تھے۔الجزیرہ ٹی وی نے قطر کی وزارتِ خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’سفارتی تعلقات توڑنے کے اقدامات بلاجواز ہیں اور ایسے دعووں اور الزامات کی بنیاد پر کیے گئے ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فیصلے قطری عوام اور ملک میں مقیم دیگر افراد کی زندگیوں پر اثرانداز نہیں ہوں گے ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کا قطر کی معیشت اور وہاں کاروبار کرنے والے افراد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟دوحہ کی بلندوبالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ قطر کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔چاہے قطر ایئرویز ہو یا الجزیرہ یا پھر مشہور فٹبال کلب بارسلونا کی سپانسر شپ اور پھر 2022 ءکے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی، جزیرہ نما عرب کے شمال مشرقی ساحل پر واقع یہ چھوٹی ریاست عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔قطر کی آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور دوحہ کی بلندوبالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ ملک کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ایسے میں حالیہ پیش رفت کا مطلب ہے کہ بہت سی چیزیں داو پر ہیں۔
پروازیں
متحدہ عرب امارات میں شامل ریاست ابوظہبی کی سرکاری فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز نے منگل کی صبح سے دوحہ کے لیے تمام پروازیں معطل کردی ہیں۔ اتحاد ایئرویز کی چار پروازیں روزانہ دوحہ جاتی ہیں۔اتحاد ایئرویز کے اس اعلان کے بعد دبئی کی فضائی کمپنی امارات کے علاوہ بجٹ ایئرلائن فلائی دبئی، بحرین کی گلف ایئر اور مصر کی ایجپٹ ایئر کی جانب سے بھی ایسے ہی اعلانات کیے گئے ہیں۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے کہا ہے کہ وہ قطر سے آنے اور وہاں جانے والی پروازیں بند کر دیں گے اور قطری فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس پابندی کا قطر ایئرویز کے آپریشنز پر گہرا اثر پڑے گا جو کہ دبئی، ابوظہبی، ریاض اور قاہرہ کے لیے روزانہ درجنوں پروازیں چلاتی ہے۔لیکن اصل مشکل ان ممالک کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی پابندی ہے۔ اس سے قطری فضائی کمپنی کو اپنے فضائی راستے تبدیل کرنے پڑیں گے جس کا نتیجہ ایندھن کے زیادہ استعمال اور پرواز کے دورانیے میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوگا۔مشاورتی کمپنی کارنراسٹون گلوبل کے ڈائریکٹر غنیم نوسابہ کا کہنا ہے کہ قطر ایئرویز نے خود کو اس خطے میں ایشیا اور یورپ کو ملانے والی فضائی کمپنی کے طور پر منوایا ہے لیکن یورپ کا وہ سفر جس میں پہلے چھ گھنٹے لگتے تھے اب آٹھ سے نو گھنٹوں کا ہو جائے گا جس کا نتیجہ مسافروں کا دیگر کمپنیوں سے رجوع کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
قطر کا دارالحکومت
قطر کا دارالحکومت دوحہ ہے اس ملک کی آبادی27 لاکھ،رقبہ11 ہزار437 مربع کلومیٹر، زبان عربی اور مذہب اسلام ہے ، اس ملک میں مردوں کی اوسط عمر79اور خواتین کی اوسط عمر78سال بتائی جاتی ہے اس ملک کی کرنسی قطری ریال کہلاتی ہے۔
صحرائی ریاستیں اپنی ارضیاتی ساخت کی وجہ سے خوراک کی پیداوار کے معاملے میں ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتی ہیں۔ دیگر صحرائی ریاستوں کی طرح قطر کے لیے فوڈ سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ہی ملتی ہے۔اس سرحد پر روزانہ ہزاروں ٹرک ایک سے دوسری طرف آتے جاتے رہتے ہیں جن پر اشیائے خورونوش لدی ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قطر میں استعمال ہونے والی 40 فیصد خوراک اسی راستے سے آتی ہے۔اب سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یہ سرحد بند کر رہا ہے جس کے بعد قطر میں خوراک لانے کے لیے صرف ہوائی اور بحری راستے ہی بچیں گے۔
اس کا نتیجہ ملک میں افراطِ زر کی صورت میں نکلے گا جس کا اثر عام قطری شہری پر پڑے گا۔کیونکہ جب چیزیں مہنگی ہوںگی تو آپ دیکھیں گے کہ قطری عوام حکمران خاندان پر دباو¿ ڈالنا شروع کریں گے کہ وہ قیادت بدلےں یا پھرحکومت کی سمت۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بہت سے قطری شہری اپنی روزمرہ کی خریداری کے لیے بھی سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہاں یہ نسبتاً سستی ہیں اور اب یہ بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ 2022ءمیں قطر میں فٹبال کا عالمی کپ منعقد ہو رہا ہے جس کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے۔
تعمیرات
دوسری جانب قطر میں اس وقت ترقیاتی تعمیراتی سرگرمیاںبھی زوروں پر ہیں اور ریاست میں ایک نئی بندرگاہ، ایک طبی زون، میٹرو کا منصوبہ اور 2022 ءکے ورلڈ کپ کے حوالے سے 8 اسٹیڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ان تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والا کنکریٹ اور سٹیل جہاں بحری راستے سے آتا ہے وہیں اس کا ایک راستہ سعودی عرب سے بذریعہ خشکی بھی ہے۔اب سعودی سرحد کی بندش کے نتیجے میں جہاں سامان کی آمد میں تاخیرہوگی وہیںاس سے اخراجات میں اضافہ بھی ہو گا۔قطر کی تعمیراتی صنعت پر مال کی کمی کا جو خطرہ منڈلا رہا تھا اسے یہ بندش مزید سنگین کر دے گی۔امریکا کے بیکر انسٹیٹیوٹ میں خلیجی ممالک کے ماہر کرسٹن الرچسن کا کہنا ہے کہ ’فضائی حدود اور سرحدوں کی بندش کا اثر ورلڈ کپ کے لیے طے شدہ نظام الاوقات اور سامان کی فراہمی پر پڑے گا۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار مصری شہری قطر میں مقیم ہیں اور اب اگر مصر بھی اپنے تمام شہریوں کوقطر چھوڑ کر مصر پہنچنے کی ہدایت کردیتاہے تو قطر کے لیے تعمیراتی پروجیکٹس کے علاوہ دیگر منصوبوں اور شعبوں کے لیے افرادی قوت کی کمی پوری کرنا ایک مسئلہ بن سکتاہے۔
افرادی قوت
سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے کے بعدفی الوقت جہاں سعودی، اماراتی اور بحرینی شہریوں کو قطر کا سفر کرنے سے روکا گیا ہے وہیں سعودی حکومت نے وہاں مقیم اپنے شہریوں کو واپسی کے لیے دو ہفتے کی مدت دی ہے۔انہی 14 دنوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں مقیم قطری شہریوں کو بھی اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔اگر مصر کی جانب سے بھی ایسی پابندی لگا دی جاتی ہے تو اس کا اثر زیادہ ہوگا۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار مصری شہری قطر میں مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت انجینئرنگ، طب اور قانون کے علاوہ تعمیرات کے شعبوں سے ہی وابستہ ہے۔اس بڑی تعداد میں کارکنوں اور ملازمین کا چلے جانا قطر میں کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ایک دردِ سر ثابت ہو سکتا ہے۔
قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی کا الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے چاہئیں۔الجزیرہ ٹی وی نے قطری وزیرِ خارجہ سے اس بحران کی وجوہات کے بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا ‘ہم قطر کے خلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔’محمد بن عبدالرحمان الثانی کے مطابق اگر اس بحران کے پیچھے اصل وجوہات تھیں تو ان پر گزشتہ ہفتے جی سی سی کے ہونے والے اجلاس میں بات چیت یا بحث کی جا سکتی تھی تاہم اس اجلاس میں اس بارے میں کوئی بات چیت یا بحث نہیں کی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاض میں ہونے والے امریکی اسلامی عرب سمٹ میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ‘ان اجلاسوں میں ایسا کچھ بھی تھا تو ہمارے پاس اس بحران کے پیدا ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔’اس موقع پر قطر کے وزیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی قوم نے قطر پر اپنے فیصلے مسلط کرنے اور ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کو مسترد کردیا ہے۔شیخ محمد نے کہا کہ قطر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات غیر معمولی اور یکطرفہ ہیں۔الجزیرہ کے اس سوال پر کہ اس بحران کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم آج رات خطاب کرنے والے تھے تاہم ان کا خطاب ملتوی کیوں کر دیا گیا کے جواب میں شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر کے امیر قطر کے لوگوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں کویت کے امیر نے فون کر کے اس بحران کو ختم کو حل کرنے کے لیے اس خطاب کو ملتوی کرنے کا کہا۔خیال رہے کہ امیرِ کویت نے 2014 میں ایک بحران کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
قبل ازیں کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے کویت نے ثالثی کی پیشکش کردی جبکہ ترک صدر رجب طیب ادوگان نے عرب ممالک کے سربران پر کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے زور دیا اور فلپائن نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی عرب، روس، کویت اور قطر کے سربراہان کو فون کرکے زور دیا کہ عرب ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جائیں۔
الزام پر تعجب :اخوان ،داعش اور ایران کا کیسا جوڑ؟؟
فیصلہ پیر کو اچانک سامنے آیا جسکے باعث عالمی برادری پریشان ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس کے سبب سعودی عرب اور اسکے دوست ممالک نے اپنے ہی ایک عرب دوست ملک کا ناطقہ بند کرنے کی ٹھان لی ہے ۔حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ قطر پر جو الزام لگایا گیا ہے اس پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ نہ داعش ایران کی حامی ہے ،نہ ہی اخوان کا داعش یا ایران سے گٹھ جوڑ ہے لہٰذا اس الزام پر بھی تجزیہ کاروں کو سخت تعجب ہے ۔
ڈرامائی صورتحال اچانک پیدا کیسے ہوئی؟
عالمی برادری اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہی ہے کہ اس مقاطعے کا آخر کیا سبب تھا، جو 5 جون کو بغیر انتباہ کے سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک نے بھی قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے؟اس بحران کے پیچھے موجود اصل حقائق آنے تو ابھی باقی ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے عالمی سیاسی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر سعودی حکومت نے قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے گزشتہ ماہ دیئے گئے بیان کے رد عمل میں یہ فیصلہ کیا۔
العربیہ نے 24 مئی کو اپنی خبر میں قطر کی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے 5 عرب ممالک کے سفیروں کی بے دخلی سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔قطر کی وزارت خارجہ نے یہ بیان قطری نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے اس بیان کے بعد دیا تھا جس میں حکومت سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دوحہ نے سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین سے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے۔العربیہ کے مطابق امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے منسوب بیان میں مزید کیا گیا تھا کہ دوحہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کشیدگی ہے اور قطر ایران کو اسلامی سپر پاور کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔اس بیان میں قطری امیر نے اسرائیل سے قطر کے اچھے تعلقات سے متعلق بات کرنے سمیت حماس کو فلسطین کی نمائندہ جماعت قرار دیا تھا، جب کہ امریکی صدر کے خلاف اور بھی کئی باتیں کی تھیں۔
بعدازاں قطری حکومت نے وضاحت کی کہ اس بیان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ ہیکنگ کے بعد جاری کیا گیا۔قطری حکومت نے ان بیانات کو جعلی قرار دیا تھا اور اسے ’شرمناک سائبر جرم‘ کہا تھا۔خیال رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر منظرعام پرآیا جب ٹھیک ایک ہفتہ قبل ریاض میں عرب-امریکا-اسلامک سمٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران پر خطے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔قطر بھی اس کانفرنس میں موجود تھا کیوں کہ وہ بھی 35 رکنی اس عسکری اتحاد کا حصہ تھا، جب کہ قطر یمن جنگ میں بھی سعودی عرب کا اتحادی ہے۔یہی نہیں قطر اور سعودی عرب کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور دونوں ممالک کے لوگ روزانہ کی بنیادوں پر دونوں طرف آتے جاتے ہیں۔
عمرے پر براستہ قطر سعودی عرب جانے والے پاکستانی پھنس گئے
موجودہ تنازع سے قطر ایئرویز پر سفر کرنے والے جن مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے ان میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔پاکستان کے مختلف شہروں سے قطر ایئرویز سے سعودی عرب جانے والے مسافروں کی بڑی تعداد دوحہ کے ایئرپورٹ پر پھنس گئی ہے۔ان مسافروں میں شامل محمد شوکت نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لوگ پیر کی صبح تقریباً چار بج کر چالیس منٹ پر کراچی سے قطر ایئرویز کی فلائٹ کے ذریعے دوحہ پہنچے تھے اور اس کے بعد سے ایئر پورٹ کے اندر پھنس گئے ہیں۔
محمد شوکت نے بتایا کہ اس پرواز میں خواتین سمیت 11 افراد دوحہ پہنچے اور انھوں نے مقامی وقت کے مطابق نو بجے جدہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔انھوں نے بتایا کہ وہ زائرین ہیں اور عمرہ کرنے سعودی عرب جا رہے تھے اور احرام بھی باندھ لیا تھا لیکن تقریباً 24 گھنٹے سے ایئرپورٹ کے اندر انتظار کر رہے ہیں۔محمد شوکت کے مطابق اس وقت پاکستان کے دوسروں شہروں سے سعودی عرب جانے والے تقریباً 70 کے قریب مسافر ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔
قطر میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے کی جانب سے رابطے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ابھی تک کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا تاہم پی آئی اے کا عملہ ہمارے پاس آیا تھا اور معلومات لینے کے بعد یہ کہہ کر چلا گیا ہے کہ وہ پرواز کا بندوبست کرتے ہیں۔
محمد شوکت نے بتایا کہ روزے کی حالت میں ایئرپورٹ پر انتظار کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے اور خاص کر بچوں اور خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک اور مسافر سہیل قرار نے کہا ہے کہ وہ پیر کی صبح سے قطر ایئرویز سے درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں یہاں سے نکالا جائے یا ہمارا پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرایا جائے لیکن’ وہ ہمیں صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ آپ کے لیے کچھ کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں ماہِ رمضان میں عمرے کی ادائیگی کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد قطر اور متحدہ عرب امارات کی ایئرلائنز سے سعودی عرب جاتی ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کے سلسلے میں جانے والے شہری بھی ان ہی ممالک کی ایئر لائن کو زیادہ استعمال کرتے تھے۔
پاک قطر تعلقات برقرار،اپوزیشن کی او آئی سی اجلاس کی تجویز
ہم نہیں چاہتے کہ کسی ملک سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں، ہم سعودی عرب اور ایران سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے،ارکان اسمبلی
سعودی عرب سمیت 6 اسلامی ممالک کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر ارکان قومی اسمبلی نے حکومت سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس بلانے کی بھی تجویز دی ہے۔قبل ازیں کئی ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیا دیا تھا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خطے میں سنگین بحران جنم لے رہا ہے لیکن ہماری وزارت خارجہ کنفیوز دکھائی دے رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قطر کا 6 اسلامی ممالک نے بائیکاٹ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے کئی عمرہ زائرین قطر میں پھنس گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی ملک سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں، ہم سعودی عرب اور ایران سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ عرب-امریکا-اسلامی کانفرنس میں بھی پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے پہل کہا گیا کہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بنایا جا رہا ہے، پہلے ایران کو اتحاد سے الگ رکھا گیا اور اب قطر کو دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگا کر الگ کر دیا گیا، جبکہ دفتر خارجہ کی جانب سے تاحال پوزیشن واضح نہیں کی گئی، ہمیں اس معاملے کے تناظر میں پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ خطے کے حالات خراب ہوں گے تو پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ دشمن ہر وقت ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور مسلم امہ انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہے، کیا پاکستان او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ نہیں کر سکتا؟