اﷲ کے راستے میں خرچ کریں
شیئر کریں
مولانا ندیم الرشید
جولوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کورات میں اوردن میں پوشیدہ طورپر اوراعلانیہ طورپر، سوان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اوران پر کوئی خوف نہیں اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ (القرآن)
قابل صداحترام برادرانِ اسلام!
سورة بقرہ کی اس آیت میں رات دن اﷲ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کا تذکرہ ہے۔ یعنی جولوگ پوشیدہ یا اعلانیہ اﷲ کے راستے میں خرچ کریں گے قیامت کے دن ان کا خرچ کیا ہوا مال انہیں اجروثواب کی صور ت میں مل جائے گا، جسے دیکھ کروہ خوش ہوں گے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اپنے مال کواﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے گناہوں میں خرچ کیا ہوگا جب وہ اپنے اس برے عمل کا نتیجہ دیکھیں گے توغمگین ہوجائیں گے۔
چونکہ اس آیت میں پوشیدہ یا اعلانیہ دونوں صورتوں میں مال خرچ کرنے کا ذکر ہے تواس پرعلماءفرماتے ہیں کہ خیر کے کام میں اگرلوگوں کے سامنے بھی مال خرچ کرے تو یہ عمل ریاکاری میں شامل نہیں اگرچہ خفیہ یا پوشیدہ طورپر مال خرچ کرنے کی فضلیت زیادہ ہے۔
صحیح بخاری میں ہے(189)رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک کھجور کے برابر حلال مال سے صدقہ کرے (اوراﷲ تعالیٰ صرف حلال ہی کوقبول فرماتا ہے)تواﷲ تعالیٰ اسے قبول فرمالیتا ہے اورپھرا س کی تربیت فرماتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کی تربیت کرتاہے اس طرح وہ تھوڑا سا صدقہ بڑھتا رہتاہے یہاں تک کہ پہاڑ کے برابر ہوجاتاہے۔
ایکروایت کے مطابق اﷲ کے نبی نے اس بات پر قسم اٹھائی ہے کہ صدقے کی وجہ سے کسی کا مال کم نہیں ہوگا۔حضرت عدی بن حاتم ؓ فرماتے ہیں اﷲ کے نبیﷺ نے فرمایا آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور دے دو۔
اکابرعلمائے امت کا ارشاد ہے کہ جان اورجسم کی عبادات جنت میں لے جانے کا ذریعہ ہیں اورمالی عبادات انسان کودوزخ سے بچاتی ہیں ،رسول اﷲﷺ نے فرمایا” اگرمیرے پاس احدپہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتومجھے خوشی ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے ہی اسے اس طرح خرچ کروں کہ اس میں سے کچھ بھی میرے پاس نہ رہے، ہاں قرض کی ادائیگی کے لیے اس میں سے کچھ روک لوں تویہ دوسری بات ہے۔“
مومن بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جوکچھ ہوسکے، اﷲ کی رضا کے لیے اس کی مخلوق پرخرچ کرتے رہتے ہیں۔ زکوٰة ،صدقات ،تبرکات اورخیرات اس کی تجارت ہے، جس میں نقصان کا احتمال ہی نہیں اورمالکے ضائع ہونے کا بھی کوئی خطرہ نہیں جوبھی دیا اﷲ کے یہاں محفوظ ہوگیا اور وہاں اس کا بدلہ بہت زیادہ بڑھ چڑھ کرہے۔
قارئینِ مکرم!
خرچ کرنے کے حوالے سے فضیلت کی بات یہ ہے کہ آدمی اﷲ کے راستے میں وہ چیز خرچ کرے جواسے سب سے زیادہ محبوب ہو۔ سورہ¿ آل عمران میں خدا ئے بزرگ وبرتر فرماتے ہیں۔” ہرگز نہ پاﺅ گے تم بھلائی کو،یہاں تک کہ خرچ کرو اس چیز میں سے جس سے تم محبت کرتے ہو اورجوبھی کوئی چیز خرچ کروگے تواﷲ اس کوجاننے والا ہے۔“
جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابہ نے اپنی اپنی پسندیدہ چیزوں پرنظرڈالی اوراپنی محبوب چیزوں کوراہ خدا میں خرچ کردیا۔ شیطان کاکام یہ ہے کہ انسان کوخیر کے کام سے روکے، لہٰذا شیطان کے بارے میں قرآن نے فرمایا۔” شیطان تم کوڈراتا ہے تنگ دستی سے اورحکم دیتا ہے تمہیں فحش کاموں کا اوراﷲ وعدہ کرتا ہے تم سے اپنی مغفرت کا اورفضل کا۔“ رب ذوالجلال نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ جب ہم راہ ِﷲ خرچ کرنے کا سوچیں گے توشیطان ہمارے دل میں وسوسے ڈالے گا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔
قارئین کرام!
اس وقت پوری امت مسلمہ پریشانیوں اورمسائل کا شکار ہے، اندرونِ ملک اورعالم اسلام کے دیگرممالک جیسے شام، افغانستان، عراق ،صومالیہ وغیرہ میں مسلمان حالات کی خرابی اورغذائی قلت کا شکار ہیں کپڑے ،جوتے ،کمبل، بچوں کی ضروریات ،ادویات خواتین کے لباس وملبوسات، خوراک،اجناس کی سخت قلت ہے۔ ایسے میں امت کے وہ افراد جنہیں خدا نے اپنے خصوصی فضل سے نوازا ہے ان کا یہ فرض بنتاہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرکے دنیا اورآخرت کی سرخروئی حاصل کریں یہ کوئی چندے کی اپیل نہیں ہے ، پوری امت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہوکر آپﷺ کے سامنے قیامت کے دن شرمندگی سے بچ سکیں۔
اﷲ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔