میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محکمہ لیبر کے ماتحت سیسی میں اربوں روپے کی کرپشن

محکمہ لیبر کے ماتحت سیسی میں اربوں روپے کی کرپشن

ویب ڈیسک
جمعه, ۶ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

محکمہ لیبر کے ماتحت سیسی میںاربوں روپے کی کرپشن ، اعلیٰ افسران کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے وکلاء کو فیس کی ادائیگی میں قواعدو ضوابط کی دھجیاں اڑادیں، محنت کشوں کے لاکھوں روپے اڑا دیے گئے۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ لیبر کے ماتحت محنت کشوں کے ادارے سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن(سیسی) میں اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن میں زیر سماعت ہیں،سیسی کی موجودہ انتظامیہ اپنی کرپشن و بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے محنت کشوں کے کنٹری بیوشن کو مال مفت کی طرح اڑا رہی ہے،سیسی کی گورننگ باڈی کے اپنے فیصلہ کے مطابق ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کے زیادہ سے زیادہ3 لاکھ روپے تک کسی وکیل کو فیس ادا کی جا سکتی ہے۔جبکہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی کی موجودہ کرپٹ و بدعنوان انتظامیہ نے اپنے کرپشن و بدعنوانی کے کیسوں میں تین لاکھ کی جگہ30 لاکھ روپے تک وکلاء کو فیس کی مد میں ادائیگی کردی ہے۔ سیسی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک کیس میں پہلے ایک وکیل کو فیس ادا کی جاتی ہے اور چند پیشیوں کے بعد اس مہنگے وکیل کو ہٹا کر دوسرا وکیل اسی کیس میں کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک کیس میں دو دو وکیلوں کو فیس ادا کی جا رہی ہے، تشویش کی بات یہ ہے کہ کمشنرسیسی سلیم رضا کھوڑو اس سارے عمل کی سیسی گورننگ باڈی سے اجازت لینا بھی گوارا نہیں کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں ہائیکورٹ کے کیس نمبر 1493/23 میں پہلے فہیم رضا کو وکیل کیا گیا اور پھر ان کی جگہ ملک نعیم کو اس کیس میں سیسی کا وکیل مقرر کرلیا گیا،کیس نمبر 6350/22 میں پہلے علی اسد اللہ بلو کو وکیل کیا گیا اور بعدازاں اس کیس میں ملک نعیم کو وکیل کرلیا گیا،محنت کشوں کے فنڈ کو مال مفت کی طرح لوٹا جا رہا ہے۔ سیسی کی گورننگ باڈی سے اجازت لیے بغیر، محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے نام پر وصول ہونے  والے کنٹری بیوشن سے بھاری فیسیں ادا کی جارہی ہیں جو تحفظ یافتہ محنت کش کے آجران، سوشل سیکورٹی ایکٹ 2016کے تحت سیسی کو ادا کرتے ہیں،اس فنڈ کو سیسی انتظامیہ اپنی بدعنوانی و بدانتظامی پر پردہ ڈالنے کے لیے مقدمات میں 15 لاکھ سے 30 لاکھ روپے تک کی بھاری فیس ادا کررہی ہے۔افسر نے کہا کہ نگراں وزیر اعلی جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، سیکریٹری محنت شارق احمد اور ممبران گورننگ باڈی سیسی کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں