میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
” جنسی بے راہ روی“ اور” ایڈز “کا عذاب

” جنسی بے راہ روی“ اور” ایڈز “کا عذاب

منتظم
هفته, ۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mufti-waqas-rafi

مفتی محمد وقاص رفیع
اس وقت عالم انسانیت جن مہلک امراض اور جن نت نئی بیماریوں سے دو چار ہے وہ محتاج بیاں نہیں ۔بلڈ پریشر ، شوگر، کینسر ، اور ایڈز وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا نام تک پچھلی صدیوں میں کسی نے نہیں سنا ہوگا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے، نبی پاک ا نے ارشاد فرمایا : ”جب بھی کسی قوم میں فحاشی و عریانی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے پر تل جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون اور اس جیسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔“ (سنن ابن ماجہ)
ان بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری ”ایڈز“ کی بھی ہے۔ ”ایڈز“ نے سب سے پہلے ۱۸۹۱ءمیں امریکا میں جنم لیا تھا اور اس بیماری کو سوائے ”زنا اور جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں جنم لینے والے عذاب سماوی“ کے کسی اور عنوان سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔
امریکا کے علاوہ بر اعظم افریقہ میں بھی یہ بیماری کافی تیزی سے پھیل رہی ہے اور افریقہ میں بیس لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک کی انسانوں کی تعداد ”ایڈز“ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ امریکا کے” محکمہ صحت و انسانی خدمات“ کے سیکٹری اولٹس باون کا کہنا ہے کہ ”اگر ہم اس بیماری کی روک تھام میں کوئی مو¿ثر پیش رفت نہ کرسکے تویوں سمجھ لیں کہ آئندہ دس سال کے اندر دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے ایک عالمگیر موت کے پیغام کا خوفناک اندیشہ پیدا ہوگیا ہے“ اور جان پاپ کنس یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض بی فرینک پاک نے کہا ہے کہ : ”بعض ملک اپنی آبادی کا ۵۲فیصد حصہ اس وبائی مرض میں گنوا بیٹھیں گے۔“
اور موجودہ دور میں ابھی ابھی ایک حالیہ رپوٹ کے مطابق تو ہندوستان میں بھی یہ فحاشی و عریانی اور جسم فروشی ”ایڈز“ پھیلنے کا سبب بننے لگ گئی ہے ۔ چنانچہ ہندوستان میں گزشتہ ۷۱ ماہ میں ہسپتالوں میں انتقالِ خون کی وجہ سے کم از کم ۴۳۲,۲ افرادمہلک (ایچ آئی وی) وائرس کا شکار ہوگئے ہیں ۔ یہ تفصیلات” نیشنل ایڈزکنٹرول آر گنائزیشن “ کے ایک بیان سے سامنے آئی ہیں جو انہوں نے عدالت میں ایک پٹشین کے جواب میں جمع کرائی ہیں ۔ در اصل عدالت میں درخواست ایک سماجی کارکن چیتن چوٹاری نے دائر کرائی تھی اور ”ایڈز“ سے متاثر ہونے والے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی استدعاءکی تھی ۔
تفصیلات کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ۹۲ لاکھ افراد ”ایڈز“ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دائر کردہ درخواست کے ردّ عمل میں جو معلومات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق اترپردیش میں خون کے انتقال کی وجہ سے ”ایڈز“ میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد سب سے زیاد ہ ہے ۔ اتر پردیش میں ۱۶۳ افراد انتقالِ خون کے بعد اس مرض کا شکار ہوئے ہیں ۔ اترپردیش کے علاوہ گجرات میں ایسے افراد کی تعداد ۲۹۲ ہے جب کہ مہارا شٹر کے ۶۷۲ افراد اس موذی مرض (ایچ آئی وی) کا شکار ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بھی ایسے ۴۶۲ افراد سامنے آئے ہیں جن میں انتقالِ خون کی وجہ سے (ایچ آئی وی) وائرس منتقل ہوا ہے۔چیتن چوٹاری نے مزید اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی اصل تعداد اس اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے ۔
ہندوستان میں قانون کے تحت ہسپتالوں اور طبی مراکز کے لیے یہ بات لازمی قرار دی گئی ہے کہ وہ خون لینے سے پہلے خون عطیہ کرنے والوں کا معائنہ کریں کہ کہیں انہیں ایچ آئی وی ، یرقان اور ملیریا تو نہیں ہے ۔ بالکل اسی طرح عطیہ کیے جانے والے خون کا بھی ٹیسٹ کیا جانا قانوناً لازمی قرار دیا گیا ہے۔اس طرح کے ہر ٹیسٹ پر بارہ سو روپے کا خرچ آتا ہے اور ہندوستان کی تمام ہسپتالوں میں یہ ٹیسٹ کرانے کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔چیتن چوٹاری کے بقول بڑے بڑے ہسپتالوں میں بھی ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کرانے کی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے، چوٹاری نے مزید کہا کہ : ”یہ بڑی تشویش ناک صورتِ حال ہے اور اس کا فوری طور پر نوٹس لیا جانا چاہیے“۔
یہ صورت حال تو غیر مسلموں کی تھی جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔لیکن الحمد للہ! ہمارا مسلمان معاشرہ ابھی پستی کی اس انتہاءکو نہیں پہنچا جو پیچھے ذکر ہوئی ،لیکن نہ جانے کتنے اسباب و عوامل ایسے ہیں جو اسے نہایت برق رفتاری کے ساتھ اسی انتہاءکی طرف گھسیٹ کر لے جانا چاہ رہے ہیں ۔ عفت و عصمت اور شرافت و اخلاق کی قدریں بہت تیز رفتاری سے مٹ رہی ہیں ، بے پردگی ، مرد و زن کا آزادانہ میل جول ، سینما گھر ، انٹر نیٹ ، کیبل ،ڈش ، مخلوط نظام تعلیم ، گانے بجانے ،رقص و ناچ اور ہرشعبہ¿ زندگی میں عورتوں کا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا وغیرہ یہ ایسے عوامل ہیں جو ہمیں اسی تباہی کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ تمام تر سہولیات ہم نے اپنے گھروں، اپنے مکانوں اور اپنے دفتروں میں بہم پہنچارکھی ہیں تاکہ ہم اس متعفن یورپی تہذیب کے فحش ا و ربے ہودہ قسم کے مناظر گھر بیٹھے بآسانی دیکھ سکیں اور اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی کی صورت میں جنم لینے والی یہ ”ایڈز“کی بیماری ہمارے فرد در فرد اور نسل در نسل پھیل سکے۔بقول شاعر:
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں