میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار ۔۔ترکی کی قابل تقلید پیشکش

روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار ۔۔ترکی کی قابل تقلید پیشکش

منتظم
منگل, ۵ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان نے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام اور جبراً نقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کے حکام سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دفترخارجہ سے جاری کردہ بیان میں ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور نقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات ہیں۔ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ میانمار کی حکومت معاملے کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب اقداماکیے جائیں۔نفیس زکریانے کہا ہے کہ پاکستان عالمی برادری بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے حقوق کے مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا۔
حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق میانمار کے شمال مغربی علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں کے دوران کم وبیش400 روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق میانمار کی ایک ریاست میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 38 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے عہدیدار نے یہ بھی بتایا ہے کہ ‘ایک اندازے کے مطابق اگست میں 38 ہزار افراد بنگلہ دیش کی سرحد پار کرچکے ہیں’۔ دوسری جانب میانمار کی فوج کا موقف ہے کہ وہ ‘دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے کیونکہ عوام کا تحفظ ان کا فرض ہے۔
میانمار کی فوج گزشتہ ماہ کے آخر میں میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے ارکان کے قریب کچھ چوکیوں پر دہشت گردوں کے حملے کی آڑ میں جس میں اہلکاروں سمیت 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، میانمارکی فوج اس مسلح تحریک کو ختم کرنے کے نام پراب روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام اور انھیں جبراً نقل مکانی پر مجبور کرنے میں مصروف ہے ،اور روہنگیا کے مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ،روہنگیا کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں ملک سے بے دخل کرنے کے لیے قتل وغارت کی مہم شروع کی گئی ہے۔میانمارکی فوج نے جھڑپوں اور کارروائیوں کے دوران 370 روہنگیا عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کااعتراف کیاہے ۔میانمار کے فوجیوں کی زیادتیوں کی وجہ سے روہنگیا کے مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنا چاہتے ہیں اور دریا کے راستے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں کشتیاں ڈوب جانے کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں،بنگلہ دیشی حکام نے گزشتہ دنوں یہ اعتراف کیاتھا کہ ایک ہفتے میں سمندر سے 53 روہنگیا افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، یہ افراد دریائی راستے سے ہجرت کرنے والے افراد میں شامل تھے، جبکہ ہزاروں افراد اب بھی دریائے ناف کے راستے قریبی پڑوسی ملک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں، لیکن بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا کے مسلمانوں کو پناہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کونسل کشی کی اس صورت حال کاسامنا نیا نہیں ہے بلکہ وہ گزشتہ نصف صدی سے مشکلات کا سامنا ہیں، 1970 سے اب تک 10 لاکھ روہنگیا مسلمان شدید مشکلات اٹھانے کے بعد دنیا کے کئی ممالک ہجرت کر چکے ہیں۔
میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، روہنگیا کے مسلمان کئی دہائیاں قبل ہجرت کرکے بنگلہ دیش سے میانمار پہنچے تھے، میانمار کے لوگ ان کو بنگالی تسلیم کرتے ہیں۔روہنگیا لوگوں کی بہت بڑی تعداد میانمار کی مغربی ریاست راکھائن (ارکان) میں رہائش پزیر ہے، 10 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش کے لوگ برمی قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ برطانیا اور اقوام متحدہ نے بھی روہنگیا کے مسلمانوں کو درپیش اس صورت حال پر تشویش کااظہار کیاہے لیکن کسی بھی ملک اور بین الاقوامی ادارے نے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنے اور ان کی مدد کرنے کااعلان نہیں کیا ۔اس صورت حال میںترکی نے اسلامی جذبے کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کی مذمت کی ہے بلکہ بنگلہ دیش کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے اپنی سرحد کھولے، جو بھی اخراجات ہوں گے وہ ترکی ادا کرے گا۔ترکی کی نیوز ویب سائٹ ٹی آر ٹی ورلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے صوبہ انطالیہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘ہم نے اسلامی تعاون تنظیم کو بھی متحرک کیا ہے اور اس معاملے پر رواں برس ایک سمٹ کا انعقاد کیا جائے گا، ہمیں اس معاملے کا کوئی فیصلہ کن حل نکالنا ہے۔ ترکی کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کی حمایت اور بنگلہ دیش کو ان کی پناہ پر آنے والے اخراجات ادا کرنے کی پیشکش دنیا کے دیگر مسلمان ملکوں کے لیے قابل تقلید فیصلہ ہے اور دیگر مسلمان ممالک خاص طورپر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
میانمارکے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن ان کے لیے آواز عالمی سطح پر اس طرح نہیں اٹھائی جارہی جس طرح اٹھائی جانی چاہیے۔ روہنگیا مسلمانوں کا سرکاری طور پر قتل عام کیا جارہا ہے لیکن عالمی برادری کو تو چھوڑیں مسلم امہ بھی اپنے اپنے مسائل میں اتنی پھنسی ہوئی ہے کہ وہ ان مظلوموں کے لیے صحیح طرح صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرپا رہی۔پچھلے کئی سال سے آتش پرستوں نے روہنگیا کے مسلمانوں کی جس طرح نسل کشی کی ہے اس جیسی مثال نہیں ملتی پر نہ تو اقوام متحدہ کا کوئی زور ہے اور نہ مسلمانوں کا جذبہ۔
میانمار میں حالیہ دنوں میں سرکاری فوج نے ظلم و درندگی کی انتہا کردی ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اب تک موصولہ میڈیا رپورٹس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے اکثریتی علاقے اراکان میں ڈھائی ہزارسے زائد مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں، جب کہ ہزاروں زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ ظلم و زیادتی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے درجنوں مکان اور دیگر املاک کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میانمار کے حکم رانوں اور وہاں رہنے والی دیگر قومیتوں نے روہنگیا مسلمانوں کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان سے نفرت کا اظہار مختلف مواقع پر مظالم کرکے کیا جاتا ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمان اراکان میں 16 ویں صدی سے آباد ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں لیکن تاحال ان کو حقوق ملے نہ شناخت دی گئی اور نہ ہی انہیں اپنایا گیا۔ اسی ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے کہ آج روہنگیا مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے اور پورا میانمار اس طرح چپ ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس ساری صورت حال میں سب سے قابل مذمت کردار آنگ سان سوچی کا رہا ہے۔ جب وہ خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی تھیں تو ہر انٹرویو میں اور اپنے ہر خطاب میں وہ انسانی حقوق کی پاس داری، ظلم و ستم کے خاتمے، مظلوموں کو ان کے حقوق دلانے کی بڑی بڑی باتیں کرتی تھیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بہیمانہ ظلم و ستم پر آنگ سان سوچی نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ انسانی حقوق کی پاس داری اور مظلوموں سے انصاف کا سبق بھول گئی ہیں یا دُہرانا نہیں چاہتیں۔ میانمار کی حکومتوں نے جبرو تشدد کے ذریعے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی اور سیکڑوں روہنگیا مسلمان مختلف اوقات میں ہلاک کردیے گئے، سیکڑوں زخمی کیے گئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیوں کہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ملکوں کو شاید روہنگیا مسلمانوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر بالآخر امریکا اور اقوام متحدہ تک کو ہوش آ گیاہے لیکن مسلمان ممالک ابھی تک اس خالص انسانی مسئلے پر چپ سادھے ہوئے ہیںاس صورت حال میںضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک اپنی تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کرروہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار کا بھرپور اور فوری نوٹس لیںاور میانمار میں حکومتی مظالم کے شکار لوگوںکی روہنگیا کے مسلمانوں کوجو صرف مسلمان ہونے کے ’’جرم‘‘ میں حکومتی مظالم کا شکار ہیں دادرسی کے لیے مشترکہ کارروائی کااعلان کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر اقدامات کریں تو میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم اور زیادتیوں کا سلسلہ روک سکتی ہے ورنہ روہنگیا مسلمانوں کا ارزاں خون بہتا ہی رہے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں