میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نگراں حکومت کا فیصلہ آخری لمحات میں ہونے کی توقع

نگراں حکومت کا فیصلہ آخری لمحات میں ہونے کی توقع

جرات ڈیسک
اتوار, ۶ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

موجودہ حکومت کی میعاد ختم ہونے میں ا ب چند دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک نگراں وزیراعظم کے نام پر کوئی اتفاق پیدانہیں ہوسکاہے، اخبار ی اطلاعات کے مطابق نگران وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے مختلف ناموں پر مشاورت جاری ہے، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور آصف علی زرداری کئی بار مشاورت کرچکے ہیں،لیکن اطلاعات کے مطابق ابھی دونوں کے درمیان کسی نام پراتفاق نہیں ہوسکا ہے،اطلاعات کے مطابق آصف زرداری معراج خالد جیسے کسی بظاہر غیرجانبدار سیاسی رہنما کو جو اب سیاست سے عملاً کنارہ کش ہوچکاہو اور اس کی اولاد میں بھی کوئی عملی سیاست میں موجود نہ ہو نگراں وزیراعظم بنانے کے خواہاں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اسحاق ڈار کو اس منصب پر بٹھانے پر مصر تھی اور اس سلسلے میں یہ دلیل دی جارہی تھی کہ انھوں نے چونکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے ہیں، اس لیے وہ اس کی شرائط کو اچھی طرح جانتے ہیں اور نگراں دور میں ان پر اس طرح عملدرآمد کرسکتے ہیں کہ آئی ایم ایم کو قرض کی اگلی قسط جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہو،لیکن خود اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے اس کی شدت سے مخالفت کے بعداب وزیراعظم شہباز شریف کسی ایسی شخصیت کو نگراں وزیراعظم بنانے کے خواہاں ہیں جوان کی مرضی کے مطابق حکومتی اتحادی جماعتوں کے لوگوں کو وفاقی اور صوبائی کابینہ میں نمائندگی دے اوراسحاق ڈار کو نگراں کابینہ میں بھی وزیر خزانہ کا منصب سونپ دے اور جو بنیادی طورپر عمران خاں اورپی ٹی آئی کا کٹر مخالف ہو – نیا نگران سیٹ اپ بادی النظر میں پی ٹی آئی مخالف ہو جبکہ آصف زرداری اسے عوام کے ساتھ کھلواڑ قرار دے کر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،تاہم ایک اور حلقے کا کہناہے کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اب مسلم لیگ ن یاپیپلز پارٹی کی مرضی سے نہیں ہوگا بلکہ اس کافیصلہ بھی اب مقتدر حلقے کریں گے اور نگراں وزیر اعظم کا نام سامنے آنے میں تاخیر کا اصل سبب یہی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے نگراں وزیراعظم کیلئے بھیجے جانے والے ناموں میں سے ابھی تک اوپر سے کسی نام کی منظوری نہیں مل سکی ہے،تاہم اب سرکاری حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیاجارہاہے کہ نگراں وزیراعظم کے نام کا فیصلہ چنددنوں میں کرلیا جائے گاجس کے معنی یہ ہوئے کہ نگراں وزیراعظم کا نام حکومت کے خاتمے کے آخری لمحات میں کیاجائے گا تاکہ اس پر اعتراض کا وقت ہی نہ رہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سب کواسے قبول کرنا پڑے اور اگر کوئی اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کی کوشش کرے تو اسے انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دے کر حکمرانی کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے۔فی الوقت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نگران حکومت کے لیے ناموں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب جماعتیں اپنے اپنے نام دے رہی ہیں۔ قرعہ کس کے نام نکلے گا، جلد پتہ لگ جائے گا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگرچہ ابھی تک نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان بھی نہیں ہوسکاہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے غیراعلانیہ طورپر انتخابی مہم شروع کردی ہے اور وہ دھڑادھڑ ایسے منصوبوں کا افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں جن کی تکمیل اگلی آنے والے حکومت کے دور میں بھی شاید ممکن نہ ہوسکے،وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ان کی جھولی خالی ہے،عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے مقدمات ختم کرانے کے سوا عوام کی بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے۔پی ڈی ایم کی 16ماہ کی کارکردگی کی پڑتال کی جائے تو سیاسی و معاشی خسارے اور مایوسی و بے چینی کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ 16ماہ میں موجودہ حکومت نے ملک کو کہاں پہنچادیاہے اس کا اندازہ 16ماہ پہلے کے چند بنیادی معاشی اشاریوں کے تقابلی جائزے سے ہو جاتا ہے۔ برآمدی شعبہ ملک کا سب سے مضبوط مالیاتی شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ شعبہ بھی ان 16ماہ میں بری طرح گراوٹ کا شکار رہا۔ ا روپے کی قدر میں کمی اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کے باوجود ہماری برآمدات میں اضافے کے بجائے کمی کارجحان غالب رہا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم بلکہ ختم ہو گئے اور آئی ایم ایف سے قرض اور دوست ملکوں سے ملنے والی اربوں روپے کی امداد کے باوجود ہمارے زرمبادلے کے ذخائر عمران خان کے چھوڑے ہوئے ذخائر کی حد تک نہیں پہنچ سکے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد دراصل وزیر اعظم شہباز شریف کو تمام کام چھوڑ کر ملکی معیشت اور اقتصادی بہتری کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی جو انہوں نے نہیں دی جس کے منفی اثرات سامنے آئے۔اس سے ظاہرہواہے کہ اپنے آپ کو بہت تجربہ کار اور حکومت چلانے کے گرجاننے والا ماہر قرار دینے والی مسلم لیگ ن کے پاس وسیع دانش اور جمہوری امکانات کو بروئے کار لانے کی مہارت کی حامل کوئی ایک ایسی شخصیت بھی نہیں۔ جو متحارب سیاسی جماعتوں اور قائدین کو لاکھ اختلافات کے باوجود ایک میز پر اکٹھا کر نے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کے مابین مثبت مذاکرات شروع کراسکتی ہو، جس کے نتیجے میں ملکی سیاست میں ٹھہراؤآ جاتا۔ سب کے درمیان سلجھاؤکی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ مگر اس کے برعکس حکمراں اتحاد میں رانا ثنااللہ جیسے آگ لگانے اور جلتی پر تیل چھڑکنے والے بہت ہیں۔ معاشی حالات کو نظرانداز کر کے آج ہمارا قومی مسئلہ انتخابات بن گیا ہے۔ لوگ کیسے کمائیں گے؟ کیا کھائیں گے؟ موجودہ حکمراں شاید اسے اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہماری حکومتوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اتنے قرضے لے لیے ہیں کہ شاید اس کی قیمت ہماری آنے والی نسلوں کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں لیکن ہماری عیاشیاں دیکھنے کے لائق ہیں۔ اسمبلی اراکین سمیت وزراء اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداران کو پٹرول اور بجلی مفت ملتی ہے۔ جبکہ ان کی قیمت بیچارے غریب عوام ادا کر رہے ہوتے ہیں۔حکمرانوں اور رات دن ان کے گن گانے والوں کے لیے دیگر مراعات بھی بے شمار ہیں۔ جبکہ غریب آٹے، گھی، چینی اور ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں کو ترس گیا ہے۔ ہم گلے گلے قرضے میں ڈوب چکے ہیں۔ جس سے نکلنے کی ہمیں کوئی تدبیر اور راہ نظر نہیں آتی۔ایسے میں جب پی ڈی ایم یا ن لیگ چار ماہ بعد الیکشن میں ہو گی تو عوام کو کیا جواب دے گی۔ جو مہنگائی کے ہاتھوں اعصابی طور پر ادھ موا ہو چکے ہیں۔اب ن لیگ کا سارا دارومدار نواز شریف کی واپسی پر ہے۔،ن لیگی حلقوں کاخیال ہے کہ ستمبر کے وسط میں جب نئے چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھا لیں گے تو نواز شریف کی باعزت واپسی کے راستے میں تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ وہ عوام کے پسندیدہ پاپولر لیڈر ہیں ن لیگ کا کہنا ہے نواز شریف کے آنے سے ان کی الیکشن کمپین میں جان پڑ جائے گی،تاہم موجودہ حکومت کی گزشتہ 16ماہ کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ بہت مایوس کن ہے۔ عوام نے اگر ووٹ کی طاقت سے دل کی بھڑاس نکالی تو ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
موجودہ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے کہ اس نے معیشت کوسہارا دینے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی یہ تمام کوششیں قرض حاصل کرنے تک محدودرہیں،ملک میں سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر انھیں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی بظاہر کوئی مثبت اور ٹھوس کوشش نہیں کی گئی،جبکہ ملک کی ایک مقبول سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کی وجہ سے پیداہونے سیاسی عدم استحکام نے بھی ہماری معیشت اور نیک نامی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ایٹمی ملک ہیں لیکن بھیک کے لیے دنیا کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔اس وقت ملک میں مستحکم سیاسی ماحول کی ضرورت تھی تاکہ ملک میں سرمایہ کاری ہو سکے۔ نئی صنعتیں لگائی جاسکیں کیونکہ صنعتیں لگیں گی توروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ روزگار ہوگا تو خوشحالی آئے گی۔ خوشحالی آتی ہے تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اور ہر طرح کی کامیابیاں قدم چومنے لگتی ہیں۔حکمرانی کرنے والی 13جماعتیں معاشی بحران اور مہنگائی کے خاتمے جیسے وعدے کر کے اقتدار میں آئی تھیں۔ لیکن گزشتہ 16ماہ میں مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔اتحادی حکومت کی مرکزی جماعت ن لیگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کی تیزی سے گرتی ہوئی ملکی معیشت کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کوششوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں یہی وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے حکومت انتخابی میدان میں اترنے سے خوفزدہ ہے۔اس وقت بظاہر صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تمام حلقوں سے موزوں امیدوار نہیں مل رہے ہیں،اس کے بہت سے جید رہنماؤں نے واضح شکست کے خوف سے انتخابی میدان میں اترکر اپنا جمع شدہ سرمایہ ضائع کرنے سے انکار کردیاہے جس کے بعد(ن) لیگ نے 30 فیصد نئے چہروں کے ساتھ عام انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں