دھرنے کے بعد وزیر اعظم کی اتھارٹی سوالیہ نشان بن گئی
شیئر کریں
وفاقی دارالحکومت میں فیض آباد کے مقام پر 22روز سے جاری مذہبی جماعت تحریک لبیک کا دھرنا حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان ہونیوالے معاہدے کی روشنی میں ختم ہوگیا۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔میجر جنرل فیض حمید کے ذریعے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے طے پانے والے معاہدے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا جبکہ مذہبی جماعت کی طرف سے علامہ خادم حسین رضوی‘ پیر افضل قادری اور علامہ محمد وحید نور کے دستخط ہیں جبکہ معاہدے پر میجر جنرل فیض حمیدکے دستخط بھی ہیں۔ معاہدے کے مسودے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ جو کہ ایک پرامن جماعت ہے اورکسی قسم کے تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ جماعت ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت قانون میں ردوبدل کیخلاف اپنا نکتہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ اس مقصد کا صحیح جواب دینے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور انکی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس کے لیے ہم انکے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحہ سے بچالیا۔انتخابی اصلاحات بل میں حلف نامے میں بھی تبدیلی کا انکشاف ہوا تو اس پر پورے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس تبدیلی کو واپس لینے کا مطالبہ ہر کسی کی زبان پر تھا حتٰی کہ جن لوگوں نے اس ترمیم کی منظوری دی۔ وہ بھی واپسی کا مطالبہ کررہے تھے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے ابتدا میںالیکشن ایکٹ 2017 میں 7B اور 7C کو مکمل متن مع اردو حلف شامل کرنے کے اقدام کی ستائش کی تھی مگر پھران کا مطالبہ یہ سامنے آیا کہ زاہد حامد اس لیے استعفیٰ دیں کہ وزارت قانون کے انچارج وزیر کے طور پر حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔ اس مطالبے کے ساتھ تحریک لبیک لانگ مارچ کرتے ہوئے فیض آباد انٹرچینج پر براجمان ہو گئی۔ دو شہروں کو ملانے والے اس چوک میں دھرنے سے دونوں شہروں کا رابطہ ختم ہوگیا۔ راستے بند ہونے سے شہری عذاب میں مبتلا ہوگئے‘ ایمبولینسیں رش میں پھنستی رہیں اور کئی مریض ہسپتال کے راستوں میں موت سے ہمکنار ہوگئے۔حکومت نے مذاکرات کا ڈول ڈالا مگر دھرنا قیادت وزیر قانون کے استعفیٰ سے کم پر مطمئن نہ ہوئی۔ معاملہ ابتدائی دنوں میں طے ہو جانا چاہیے تھا‘ طول پکڑنے پر دھرنا قیادت کا موقف جہاں تک پہنچنا ممکن تھا‘ پہنچ گیا۔ دھرنا کے حامیوں میں بے چینی واضح نظر آرہی تھی‘ حکومت نے کچھ گرفتاریاں کیں تو بے چینی میں مزید اضافہ ہوا اور پھر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے ہرصورت دھرنا ہٹانے کا حکم دیا تو حکومت نے عدلیہ کے حکم پر عمل تو کیا مگر بغیر کسی تیاری اور حکمت عملی سے صبح پونے آٹھ بجے آپریشن کا آغاز کردیا۔ پولیس اور دھرنا کے شرکاکے مابین جھڑپیں ہوئیں‘ آنسو گیس کا استعمال ہوا‘ کبھی پولیس آگے بڑھتی اور کبھی دھرنا کے شرکا اسے پسپائی پر مجبور کردیتے۔ حکومت دھرنا کو حتمی انجام تک پہنچانا چاہتی تھی‘ اس کے لیے فوج کو طلب کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملے۔ دونوں میں مظاہرین کیخلاف طاقت نہ استعمال کرنے اور مذاکرات پر اتفاق ہوا۔ اسکے تحت معاہدہ طے پایا۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔
اگرچہ پاک فوج کی حکمت عملی کے تحت دھرنا دینے والوں کو دھرنا ختم کرکے پرامن طورپر جگہ خالی کرنے پر رضامند کرلیاگیا اور اس طرح صرف اسلام آباد اور راوپنڈی ہی کے شہریوں نے نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام کو اس اذیت سے نجات ملی مسلسل کم وبیش 3ہفتے تک وہ جس سے دوچار رہے تھے لیکن دھرنا اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ،پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگرحکومتکو آپریشن کرنا تھا تو ابتدائی دنوں میں کامیابی سے ہوسکتا تھا بشرطیکہ اداروں کے مابین ہم آہنگی ہوتی اس میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟۔ مذہبی رنگ اختیار کرتی تحریک سے حکمت و دانش سے نمٹنا ہوتا ہے۔ پی این اے نے 1977 کی تحریک میں اسلام کا نام استعمال کرکے لوگوں کے جذبات ابھارے تھے اور تحریک بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ معاملہ افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی گئی، حکومت کے سامنے تمام مثالیں موجود تھیں پھر حکومت نے اس تجربے کومدنظر کیوں نہیں رکھااور حالات کو خراب سے خراب کیوں ہونے دیاگیا۔
اگرچپ دھرنادینے والوں اور حکومت کے مابین فوج کی وساطت سے معاملات کا طے پانا بہت زیادہ پسندیدہ بات نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس وقت جبکہ اس ملک کے عوام بالخصوص دھرنا دینے والوں کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہورہاہے ،فوج کی مداخلت اور ضمانت کے بغیر دھرنا دینے والوں کو حکومت کے کسی وعدے پر اعتبار کرنے پر رضامند کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مظاہرین کا ابتدائی مطالبہ تسلیم ہی کرنا تھا تو اس معاملے کو ابتدائی مرحلے ہی میں طے کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی، حکومت کو عوامی جذبات کا ادراک ہونا چاہیے تھا۔لیکن حکومت عوامی جذبات کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ اب معاملہ طے تو پاگیا ہے مگر حکومت کی سبکی کے ساتھ‘ اس معاہدے سے اگرچہ بظاہر حکومت محفوظ ہوگئی ہے لیکن معاہدے کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کی وجہ سے ‘ اسے عدلیہ کی طرف سے برہمی کا سامنا بھی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے اس دھرنے اوراسے ختم کرانے کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار کے سبب حکومت کمزور ہوئی اور اسکی پسپائی کا پہلو نمایاں ہے۔ دھرنا ختم ہوگیا مگر دھرنے اورآپریشن کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ہی نہیں معاشرے کے لیے بھی درس ہے کہ تشدد اس طرح کے مسئلے کا حل نہیں‘ ایسے معاملات میں حل بروقت اقدامات اور افہام و تفہیم ہے جس کے لیے بصیرت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔
اس معاہدے کے بعد اب ملک میں ایک حلقے کاخیال ہے کہ زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنانا قطعی ناانصافی ہے۔ جس قانون نے فسادِ خلق کو بھڑکایا وہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں نے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے کئی اجلاس کے بعد منظور کیا تھا۔ ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز ہرگز موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ فلاں موقع پر فلاں جماعت کے فلاں نمائندے نے اس قانون کے چند الفاظ تبدیل کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ اس طرح اصولی طورپراس قانون کو تشکیل دینے میں بقول مولانا فضل الرحمن ہماری پارلیمان نے ’’اجتماعی خطا‘‘ کا ارتکاب کیا تھا۔ اور حکومت ہی نہیں پارلیمان کی ’’اجتماعی خطا‘‘ کا فقط زاہد حامد کو ذمہ دار ٹھہرا کر قربان کردینا بہت بڑی ناانصافی ہے۔
سابق وزیر قانون زاہد حامد کو بے قصور قرار دینے والے حلقوں کی اپنی ایک سوچ ہے اور وہ اس کے مطابق اب تاویلات پیش کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر قانون کی حیثیت یہ بہرطور ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس قانون کو ایوان کے سامنے لانے سے قبل اس کی نوک پلک درست کرتے اور ماہرین سے اس پر نظر ثانی کرانے کے بعد ایوان میں لاتے لیکن وزیر قانون کی حیثیت سے انھوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرکے ایک طرف ختم نبوت ؐ کے قانون کی اہم شق ختم کرنے کی ناداستہ ہی سہی راہ ہموار کی بلکہ پورے ملک کو ایک ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ،اس طرح ان سے استعفیٰ لیا جانا قطعی غلط نہیں ہے ، انھوں نے اپنے فرائض سے جس طرح غلفلت کامظاہرہ کیا اس پر وزارت سے سبکدوشی کوئی بڑی سزا نہیں ہے ، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقتدار کے کھیل میں حکومتیں بچانے کے لیے وزراکی قربانی ایک عمومی واقعہ ہے۔ زاہد حامد کو جس خطا کا ذمہ دار بناکر قربان کیا گیاوہ غلط نہیں ہے لیکن ان کو بے قصور اور معصوم قرار دینے کی موجودہ کوششوں کا مقصد ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی کے جذبات ابھارنا ہے کیونکہ عمومی تاثر یہ ہے کہ وزارت سے فراغت کے بعد بھی زاہد حامد کو ہمہ وقت خوف کی فضامیں سانس لینا ہوگا۔ دْکھ کی بات یہ بھی ہے کہ بیچارے وزیر کو اس کے سیاسی مخالفین نے نہیں ’’اپنوں‘‘ ہی نے اس مقام پر پہنچایا ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھرے مجمع میں اپنے ’’قائد محترم‘‘ (نواز شریف) سے بلند آواز میں مطالبہ کیا کہ ’’کابینہ کے اس وزیر‘‘ کو فارغ کیا جائے جس نے مبینہ طورپر ایک قانون کو اس انداز میں بدلا۔ جس پر لوگوں کے جذبات مشتعل ہوگئے۔ ’’اپنے گھر‘‘ ہی سے بطور مجرم نشان دہی کے بعد زاہد حامد کا تحفظ ناممکن ہوگیا تھا۔شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ کو زاہد حامد کی قربانی کے بعدسب ٹھیک ہوگیا کی کیفیت ہرگز محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ گزشتہ 3ہفتے کے دوران اس ملک میں جو کچھ ہوا اس نے ریاستی امور کی پیچیدگیوں سے ناواقف شخص کو بھی وضاحت کے ساتھ سمجھادیا ہے کہ آئینی اعتبار سے پاکستان کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کہلانے والے وزیر اعظم کے پلے کچھ نہیں۔
شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی یہ ذمہ داری ریاستی قوت کے موثر استعمال کے ذریعے ہی ادا کرسکتے تھے اور بات عیاں ہوگئی کہ ریاستی قوت پر ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کہلانے والے شخص کا ہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ لمحہ یہ بہت کڑا مگر تاریخی ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ شاہد خاقان عباسی اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں اب انہیں اپنی خودداری کو ثابت کرنا ہوگا۔ان کے لیے ضروری ہے کہ فی الفور پاکستان مسلم لیگ (نون) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلوائیں۔ نواز شریف صاحب اس اجلاس کے لیے خصوصی طورپر مدعوکیے جائیں۔اور شاہد خاقان عباسی کواس اجلاس مین انتہائی دیانت داری کے ساتھ ٹھوس واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستی قوت کے استعمال کے ضمن میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے ۔ اس اعتراف کے بعد وہ استعفیٰ کا اعلان کریں اور یہ فیصلہ اپنی پارلیمانی پارٹی پر چھوڑ دیں کہ اسے ایک اور وزیر اعظم کا انتخاب کرنا ہے یا قبل از وقت انتخابات کی تیاری۔