میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ریل کا جانکاہ حادثہ، ذمہ دار کون؟

ریل کا جانکاہ حادثہ، ذمہ دار کون؟

جرات ڈیسک
منگل, ۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

کراچی سے راولپنڈی جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی کئی بوگیاں نواب شاہ کے علاقے سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب پٹری سے اتر گئیں جس کے نتیجے میں ہسپتال اور دیگر ذرائع کے مطابق 37 افراد جاں بحق اور80 مسافر زخمی ہوئے ہیں۔حادثے کے بعد مقامی لوگوں نے سب پہلے موقع پر پہنچ کر اپنے طورپر امدادی کاموں کی ابتدا کی اور ٹرین میں پھنسے ہوئے بہت سے مسافروں کونکالا۔ بعد ازا ں مقامی پولیس اور اس کے بعد پاک فوج اور رینجرز کے جوانوں نے بھی جائے حادثہ پر امدادی کارروائیاں شروع کر دیں اورآرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ایس ایس پی سانگھڑ کا کہنا ہے کہ 10 ایس ایچ او 4 ڈی ایس پیز اور 100 سے زائد پولیس اہلکار ریسکیو کے کام میں مصروف ہیں جبکہ وہ بذات خود اس مشکل وقت میں مسافروں کی کسی طرح کی مددکرتے نظر نہیں آئے۔ریلوے حکام کے مطابق ہزارہ ایکسپریس میں 950 مسافر اکنامی کلاس اور 72 اے سی اسٹینڈر اور 17 کوچز ہوتی ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے اس تاثر کو غلط قرار دیاہے کہ حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹرین مناسب رفتار سے چل رہی تھی،سعد رفیق کا خیال ہے کہ یہ لائن کا مسئلہ ہو سکتا ہے یا کوئی تخریب کاری ہوسکتی ہے، تخریب کاری تھی یا فنی خرابی اس کا فیصلہ تفتیش کے بعد ہی ہوسکے گا۔ حادثے کی خبر سنتے ہی وزیرِ اعلیٰ سندھ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے جائے حادثے پر پہنچ گئے۔سکھر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ رہی، حادثے کے باعث اپ ٹریک پر ٹریفک معطل ہے، اورکراچی سے اندرون ملک ٹرینوں کی آمد و رفت روک دی گئی ہے، روٹ پر موجود اپ ڈاؤن کی ٹرینوں کو مختلف اسٹیشن پر روکا گیا ہے۔ ریلوے حکام نے کہا ہے کہ ٹرین آپریشن بحال ہونے میں 18 گھنٹے سے زیادہ لگ سکتے ہیں، کیونکہ بوگیوں کو ٹریک سے ہٹا کر ٹریک کی بحالی میں بھی وقت لگے گا۔ سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب ہونے والا ٹرین کا یہ جانکاہ حادثہ اپنی نوعیت کا نیا حادثہ نہیں ہے اس سے قبل بھی مختلف مقامات پر ٹرین کے حادثات سیکڑوں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی ہزاروں افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور درجنوں افراد زندگی بھر کی معذوری جھیلنے پر مجبور ہیں۔ ہر حادثے کے بعد متعلقہ وزیر کی جانب سے حادثات کی روک تھام کیلئے حکمت عملی تیار کرنے،حادثے کی تحقیقات کرانے اور ذمہ دار افراد کو سزائیں دینے کا اعلان کیاجاتاہے لیکن اب تک ہونے والے حادثات کے بعد کیے جانے والے اقدامات اور اس حوالے سے تیار کی جانے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتاہے کہ ہر حادثے کے اصل اسباب کو چھپا کر الزام نچلے درجے کے ریلوے اہلکاروں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ریلوے لائنوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے نام پر لاکھوں روپے تنخواہیں اور دیگر مراعات کی مد میں وصول کرنے والے افسران اور وزرا اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر مرنے والوں کا غم غلط کرتے رہتے ہیں،ہم سمجھتے کہ یہ طرز عمل اب تبدیل کیاجانا چاہئے اور یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ ریلوں کے حادثوں کی اصل وجہ ٹریک کی زبوں حالی اور دیکھ بھال میں غفلت ہے۔ افسران بالا کو ریلوے ٹریک کو ہمہ وقت قابل استعمال بنائے رکھنے کیلئے ٹریک کی دیکھ بھال کے کام کی سختی سے نگرانی یقینی بنائی جائے اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ریلوے کے نچلے عملے کے بجائے افسران بالا کا سخت احتساب کیاجائے تو ایسے افسوسناک جانکاہ حادثوں کو بڑی حد تک روکا جاسکتاہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں