میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کیاکرنا چاہتے ہیں؟

نواز شریف کیاکرنا چاہتے ہیں؟

ویب ڈیسک
پیر, ۶ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نااہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ میں نظریہ ضرورت ایجاد کرنے والی عدلیہ کا حامی نہیں اور ملک کا عدالتی نظام درست ہونا چاہیے۔ احتساب عدالت کے باہرمیڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مقدمات کیا ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہاکہ ہمارے خلاف کون سے مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور کیا یہ کرپشن، کک بیکس یا رشوت لینے کے مقدمات ہیں؟یا ہمیں اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی ختم ہو رہی ہے، یا اس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ سی پیک سے ملک میں سرمایہ کاری آ رہی ہے اور کراچی میں امن اور معیشت مضبوط ہورہی ہے، کیا جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے؟نواز شریف نے کہا کہ اس سے پہلے اسٹاک مارکیٹ تاریخ میں کبھی اتنی بلند سطح پر نہیں گئی، ہمارے دور میں ملک میں ریکارڈ ترقی ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، ہم نے پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کیا۔ نوازشریف نے کہا کہ کسی کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہورہی اور نہ کوئی این آر او ہورہا ہے، 17 سال سے ٹیکنوکریٹ حکومت کا سن رہا ہوں، عدالتوں میں ہزاروں کیسز زیر التوا ہیں، کبھی نہیں سنا کہ کوئی سپر جج نگرانی کر رہا ہو، توہین عدالت باہر سے نہیں اندر سے بھی ہوتی ہے جب کہ عدالتی نظام درست ہونا چاہیے۔
احتساب عدالت کے باہر نواز شریف اس طرح کی بات چیت کے ذریعے غالباً عام آدمی کو یہ تاثردینا چاہتے ہیں کہ وہ بالکل بے قصور ہیں اورانھیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انھیں عدالت میںپیشی کے لیے بلایاکیوںجارہاہے، اس کے ساتھ ہی وہ اپنے 4سال دور کو جسے اس قوم کو قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبانے کا دور قرار دیاجاسکتاہے عوام کے لیے ایک نعمت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ غالباً یہ بھول رہے ہیں کہ اس ملک کے غریب عوام گزشتہ 4سالہ دور میں وقفے وقفے سے نازل کیے جانے والے مہنگائی اور گرانی کا عذاب اب بھی بھگت رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ میڈیا کی آزادی اور انٹرنیٹ کی فراوانی کی وجہ سے اب تو اس ملک کے عوام کو یہ بھی معلوم ہوگیاہے کہ نواز شریف اس ملک پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے لندن میں کیاکھچڑی پکانے کی کوشش کررہے ہیں ،اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کو یہ معلوم ہوچکاہے کہ نوازشریف نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ایک نیا لندن پلان تشکیل دیا ہے جس پر باقی سب سے انگوٹھے لگوا لیے گئے ہیں،اور سب انگوٹھا لگانے والے خرد مند، مدبر اور تجربے سے مالا مال سیاستدان ا ور حکمران ہیں۔ اس پلان پر بلاچوں وچرا انگوٹھا لگانے والے یہ خرد مند اب آپس میں یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ آخر نواز شریف کو اپنی بالا دستی مسلط کرنے کی ضرورت کیا تھی، کیاان کی بالا دستی کو کوئی چیلنج در پیش تھا، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نواز شریف کی بالادستی کو ان کی پارٹی کے کسی بھی لیڈر کوچیلنج کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی اوراگر کبھی کسی نے چیلینج کرنے کی کوشش بھی کی اورانھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ذرا احتیاط سے کام لیں تو نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ نہ جھکیں گے، نہ بکیں گے، نہ کسی سے ڈکٹیشن لیں گے ۔
عام طورپر یہ تاثر عام ہے کہ نوازشریف اداروں پر دبائو بڑھانے کے لیے دائو پیچ آزما رہے ہیں،جبکہ نواز شریف کے ہم خیال
رہنمااس تاثر کوغلط قرار دیتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ فی الوقت تو دبائو میں نوازشریف ہیں ادارے نہیں۔ حکومت سے نواز شریف کو نکالا گیا ہے نواز شریف نے کسی ادارے میں سے کسی کو نہیں نکالا ہے۔ مقدمے نواز شریف پر ہیں، ریفرنس نواز شریف پر ہیں۔مچلکے نواز شریف سے طلب کیے جا رہے ہیں، قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ نوازشریف کے جاری ہو رہے ہیں، اور اکیلے نواز شریف پر یہ سارا دبائو نہیں، ان کے بیٹوں، بیٹی، بھائی، سمدھی، کزنز ، غرض پورا خاندان دبائو کا شکار ہے اور قبر میں سوئے ہوئے ان کے والد گرامی کی روح بھی،لیکن اس ملک کے عوام یہ دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ان کا کہناہے کہ اگر نواز شریف دبائو میں ہوتے تو احتساب عدالت میں پیشی کے وقت ان کے پروٹوکول کے لیے درجن بھر سے زیادہ سرکاری گاڑیاں ان کے آگے پیچھے نہ چل رہی ہوتیں اوروزرا اورمشیر اس طرح دوڑ دوڑ کر ان کے قدموںکو اپنے ہاتھوں بلکہ سر پر رکھنے کی کوشش کرتے نظر نہ آتے ،لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف اداروں پر دبائو ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں،اور اداروں کواداروں سے لڑا کر اپنے بچ نکلنے کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف کی اہلیہ بیمار ہیں، اور لندن میں زیر علاج ہیں لیکن اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن میں نواز شریف کی موجودگی کا پھر بھی کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ ان کے دو کمائو پوت اوران کی بیگمات لندن میں مستقل موجود ہیں، جو اپنی ماں اورساس کی نواز شریف کے مقابلے میں زیادہ بہتر طورپر تیمارداری کرسکتی ہیں ، اس کے لیے لندن کے بینکوں میں ان کے لاکھوں پونڈ جمع ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی اہلیہ کے لیے تربیت یافتہ خدمت گاروں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، تیمارداری تو محض ایک بہانا ہے ،دراصل میاں نواز شریف ایوان وزیراعظم سے باہر اگر سکون سے رہ سکتے ہیں تو وہ لندن کے فلیٹ ہی ہیں ورنہ پاکستان میںوہ جہاں بھی رہیں گے ایوان وزیراعظم کی یاد انھیں چین سے سونے نہیں دے گی ۔
نواز شریف حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے، ان کی ساری عمر کی سیاست دائو پر لگی ہوئی ہے۔لندن پلان کا ایک اہم فیصلہ یہ سامنے آیا ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارات عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ ن میں ان سے زیادہ مناسب امیدوار کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ وسیع سیاسی، حکومتی اور انتظامی تجربے سے مالا مال ہیں،لندن پلان کے تحت یہ فیصلہ بھی ہوگیاہے کہ سیاسی رہنما ئی کا حق نواز شریف کو ہی بلا شرکت غیرے حاصل ہے۔ سارے فیصلوں کا آخری اختیار انہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس فیصلے پر کسی کو چیں بجبیں نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر سیاسی پارٹی شخصیات کے ارد گرد ہی گھومتی ہے اور جب تک جمہوریت کی جڑیں گہری، مضبوط، مستحکم اور پائیدار نہیں ہو جاتیں تب تک پاکستان کی سیاست معدودے چند افراد کے ہاتھوں میں ہی رہے گی۔ اس صورت حال کاتقاضا ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام نواز شریف کے فیصلوں اور لندن پلان پر اعتراض کرنے کے بجائے اگلے الیکشن کی تیاری کریں اور یہ عہد کرلیں کہ کسی بھی داغدار شخص کو خواہ اس کاتعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو ووٹ نہیں دیں گے اگر ہمارے ملک کے عوام ووٹ دینے سے قبل تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ لیں کہ کسی جھوٹے مکار ،فریبی، اورخائن کوووٹ دے کر وہ خود اپنے لیے ہی اپنے وطن عزیز کے لیے بھی مشکلات پیداکریں گے اور انھیں اپنی اس غلطی کاحساب روز حشر بھی دینا ہوگا تو شاید ایک ہی انتخاب میں اس ملک کی کایا پلٹ جائے اور عوام کو سبز باغ دکھانے والے مداریوں کی دُکانیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں، لیکن کیا ہمارے ملک کے عوام ایسا کرنے کو تیار ہوں گے یہ ایسا سوال ہے جس کے مثبت یامنفی جواب میں ہی اس ملک اور اس ملک کے عوام کی قسمت وابستہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں