میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جمہوریت میں سب کی بھلائی

جمہوریت میں سب کی بھلائی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں مسلم لیگ ن کی قیادت کا لندن میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اوردیگررہنما شریک ہوئے۔تین گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں نیب ریفرنسز ،ملک کی سیاسی صورتحال،پاکستان کو درپیش چیلنجز اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا ، فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ ن تقسیم ہو گی نہ نواز شریف پارٹی صدارت سے ہٹیں گے ، ن لیگ کے پوسٹرپرصرف نوازشریف کی تصویر ہوگی، پارٹی 2018ء کے انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی ، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہامسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی باتیں کرنے والوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ،کوئی مائنس نواز فارمولا زیر غور نہیں ،اگر شفاف ٹرائل ہوتا تو مجھے اقامہ پر نااہل نہ کیا جاتا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے کہا کہ حکومت کو گرانے کی سازش کی گئی توبھر پور طاقت سے مقابلہ کیا جائے گااور اسے ناکام بنایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا نواز شریف پارٹی کے سربراہ ہیں اور رہیں گے ، مائنس نواز فارمولا زیر غور نہیں، نواز شریف کی مشاورت سے ہی تمام معاملات طے کیے جائیں گے ،پہلے بھی عدالتوں کا سامنا کیا اور اب بھی عدالتوں کا احترام کیا جائے گا، نواز شریف کا شفاف ٹرائل کا مطالبہ جائز ہے۔ جمہوریت اور جمہوری عمل میں مسائل کا جنم لینا فطری امر ہے‘ دنیا کی بہترین جمہوریتیں بھی بیشتر مسائل سے دوچار ہوتی ہیں تاہم جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ وہ اپنے اندر پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی خود ہی تلاش کرتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جمہوریت سے وابستہ افراد کا زیرک و دانش مند ہونا ضروری ہے کہ وہ مسائل کی نوعیت کا ادراک کر کے‘ ان کا حل تلاش کر سکیں۔
ہماری حرماں نصیبی یہ ہے کہ ہماری جمہوریت میں ایسی فہم و فراست کے حامل افراد کم ہی نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ وطن عزیز میں اس وقت جو سیاسی بحران دکھائی دے رہا ہے‘ وہ اپنی ساخت میں سیاسی سے زیادہ ذاتی نظر آتا ہے۔ جمہوری عمل جاری ہے اور اسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ موجودہ حالات کا بنظر عمیق جائزہ یہی حقیقت سامنے لائے گا کہ ملک کے سیاسی معاملات خرابی کی طرف تب گئے‘ جب پاناما کیس میںحکمران جماعت پے در پے غلطیاں کرتی چلی گئی۔ قبل ازیں بھی اس امر کا اعادہ کیا جا چکا ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں ہی سلجھانے کی سعی کی جاتی تو شاید حالات اتنے پیچیدہ نہ ہوتے لیکن اس معاملے میں حکومت نے اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے کو درخود اعتنا خیال نہ کیا اور اس معاملے کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کی بجائے خود یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئی۔ نتائج سب کے سامنے ہیں اور حکومتی رویہ بھی‘ جسے کوئی بھی درست قرارنہیں دے سکتا۔
پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ خاص اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ تبھی باوقار ہوتی ہے جب سب معاملات اس کے اندر طے کیے جائیں۔ بہرکیف پاناما کیس کے معاملے میں حکومتی رویے نے اسے یہ دن دکھائے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان حالات میں میڈیا سے گفتگو میں جو باتیں کی ہیں‘ قابل غور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن ذاتی مفادات پر مبنی جماعت بن چکی ہے‘ پہلے پتہ تھا کہ فیصلہ خلاف آیا تو پارٹی محاذ آرائی کرے گی اس لیے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا‘ سپریم کورٹ میں خود گئے تو سازش کیسی؟ چوہدری نثار علی خان کے یہ سوالات انتہائی اہم ہیں اور حکمران جماعت کو ان کی باتوں پر غور کرنا چاہیے۔
چوہدری نثار علی خان نے ہی سابق وزیراعظم کو خوشامدیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس لیے کہ بقول ان کے یہ لوگ نوازشریف کو محاذ آرائی پر اْکسا رہے تھے ‘یہ بات درست ہے کہ میاں نوازشریف کے گرد ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی۔اب نوازشریف کو خود سوچنا ہو گا کہ انہیں ایسے مشورے دینے والے پارٹی‘ جمہوریت اور ملک کے خیرخواہ کیونکر قرار دیئے جا سکتے ہیں ؟ لندن میں حکمران جماعت کے اکابرین کے اکٹھ میں جو فیصلے ہوئے ہیں‘ اس حوالے سے بہتر قرار دیئے جا رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی شکست و ریخت جمہوری عمل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔تاہم حکمران جماعت کو تصادم سے گریز کرتے ہوئے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے‘ ان میں سیاستدانوں کا اولین فریضہ یہ ہے کہ ملک اور ملکی استحکام کو ہر شے سے مقدم جانیں۔ اگر کوئی یہ سوچ کر محاذ آرائی پر آمادہ ہے کہ اسے اس کی مرضی کے نتائج حاصل ہو جائیں گے‘ تو اس کا خیال درست نہیں۔ ملکی معاملات یونہی چلتے رہیں تو بہتر ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے اور سب کو اپنی قسمت آزمانے کا موقع ملے۔ کوئی انتشار یا بحران پیدا کرنے کی کوشش سوائے اپنے نقصان کے اور کچھ نہ ہوگی۔ جمہوریت ہی میں سب کی بھلائی ہے‘ سب سیاسی جماعتیں صبر سے کام لیں اور آئندہ انتخابات کا انتظار کریں۔سبھی کو آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے آئین سے رہنمائی لینی چاہیے۔ ملک و قوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی نیا بحران پیدا نہ ہو تاکہ جمہوریت کا تسلسل قائم رہے۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں