سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی دعا
شیئر کریں
ملک کے سیاسی حالات اس وقت جس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں‘ اس کے پیش نظر ملک سے محبت رکھنے والے ہر فرد کی دعا یہی ہے کہ عروج پر پہنچے انتشار اور سیاسی درجہ حرارت میں کسی طرح کمی آجائے‘ لیکن فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔اور حکومت جس پر سیاسی درجہ حرارت میں کمی کرنے کی کوششیں کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اپوزیشن یعنی عمران جنھیں انتخابات کے نتیجے میں حکومت مل جانے کی پوری توقع ہے میں سے کوئی بھی سنجیدگی دکھانے کو تیار نظر نہیں آتا۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثناء بھی دوٹوک یہ کہہ چکے ہیں کہ اب عمران رہے گا یا ہم‘ ہمارے وجود کی نفی ہو گی تو ہر حد تک جائیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کسی طرح بھی حکمران جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے تیار نہیں۔ظاہر ہے اس صورت حال میں انتخابات ہوبھی گئے تو تمام جماعتوں کو اس کے نتائج قبول کرنے پر رضامند کیسے کیا جائے گا؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سیاست دانوں کے باہم لڑائی جھگڑوں سے انتخابات کی را ہ تومزید دور ہو گی ہی‘ جمہوریت کے ڈی ٹریک ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ صورتحال میں آئین اور قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آرہی۔ انتخابات سے گریز کی وجہ سیاسی اور دانشور حلقے بخوبی جانتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست سے لاکھ اختلافات سہی‘ اگر وہ آئین کے تحت 90 دن میں تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی بات کررہے ہیں تو یہ ان کا اصولی مطالبہ ہے۔بے شک ملک اس وقت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ایسے میں انتخابات کرانا معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں نہ مل بیٹھنے پر متفق ہیں اور نہ انتخابات کا کوئی درمیانی راستہ نکال رہی ہیں جبکہ سیاسی درجہ حرارت ہے جو روزافزوں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کرالی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرائے جائیں گے،اگر حکومت کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے کرانے میں کوئی قباحت نظر آتی ہے تو وہ قومی اسمبلی کو اس کی مدت سے چند ماہ قبل تحلیل کرکے ایک ساتھ انتخابات کی اپنی ضد بھی پوری کرسکتی ہے،ملکی مفاد میں تو بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی قیادتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل کر بیٹھ جائیں اور انتخاب کی کوئی قریبی تاریخ مقرر کرلیں تاکہ ملک سے انتشار اور غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کے تسلسل کے باعث انتخابات کرانا ممکن نہیں تو یہ جواز کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پاکستان گزشتہ20-22 سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ 2008کے انتخابات سے قبل امن و امان کے عمومی حالات بھی بہت خراب تھے۔18 اکتوبر 2007کو جب بے نظیر بھٹو کراچی آئیں‘تب سے 18 فروری 2008ئتک مختلف خود کش حملوں میں 517 افراد ہلاک ہو چکے تھے لیکن انتخابی عمل نہیں رکا۔2013ء اور 2018میں بھی امن و امان کے حالات تسلی بخش نہیں تھے‘ لیکن عام انتخابات کا انعقاد نہیں روکا گیا۔ ان حالات کے مقابلہ میں موجودہ صورتحال تو انتہائی پرامن ہے‘ ایسے حالات میں انتخابات نہ کرانا حکومت کے خوف کو ہی عیاں کررہا ہے کیونکہ اسے بخوبی ادراک ہے کہ عوام میں عمران کا بیانیہ خاصا مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور دو روز قبل مینار پاکستان پر ہونیوالے عمران خان کے پاور شو نے حکمرانوں کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا۔ البتہ عمران خان کا یہ بیان ضرور تشویشناک ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انکی جان کا خطرہ ہے‘ مگر اس بنیاد پر بھی انتخابات کا التواء مناسب نہیں نظر آتا۔ عمران خان کو سیکورٹی فراہم کرنا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔انہیں سیکورٹی فراہم کرکے اس رکاوٹ کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات الیکشن کمیشن‘ سیکورٹی اداروں اور دوسرے ریاستی اداروں کی کہ وہ انتخابات کیلئے سیکورٹی اور عملہ فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے سیکورٹی اہلکاروں کی کثیر تعداد اہم شخصیات کی سیکورٹی پر مامور ہے۔ ان کا یہ جواز اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کے ہی مترادف نظر آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا اور شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد کرنا ہے‘ اگر یہ ادارہ یہ سب کرنے سے ہی قاصر ہے تو پھر اس کے وجود کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہے گا۔ کسی کو تو اٹھ کر اس کے تحفظ کی بات کرنا ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ جاتی قیادت اپنی آئینی حدود و قیود میں کام کرتی نظر نہیں آرہی۔ اگر ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتے تو ایسے حالات کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب تک ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کرتے‘ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور نہ آئین کی بالادستی۔ قومی اداروں کی ان ہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ملک میں غیریقینی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ اس پر غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک کی70 فیصد سے زائد آبادی غریب اور نادار لوگوں پر مشتمل ہے اور مٹھی بھر لوگ جو صنعت کار، جاگیردار طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں ان کا رہن سہن، بود و باش خوابوں جیسی ہوتی ہے ان کی رہنمائی کے دعوے دار بن کر ان پر مسلط ہوگئے ہیں۔آج ساری دنیا میں جمہوریت کے چرچے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی رہنمائی کے دعویدار ان پوش بستیوں میں رہنے والوں کا عوام سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت جب عام آدمی کیلئے ملازمت پر جانے کیلئے بسوں کے کرائے کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوام کی نمائندگی کے یہ دعویدار اپنے والد کی عیادت کیلئے خصوصی طیاروں پر بیرون ملک اس طرح سفر کر رہے ہیں جس طرح کوئی غریب آدمی چنگچی رکشہ میں سفر کرتاہو۔ عوام پر مسلط ان جعلی عوامی نمائندگان کا رہن سہن بود و باش مغلوں کے زمانے کے نوابوں سے الگ نہیں۔ دینا میں جہاں بھی جمہوریت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو بلا تعصب عوام ذہن میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کا خون چوس کر نواب بن جانے والے یہ جاگیردار، سرمایہ دار ہی اصل عوام بن گئے ہیں اور ریاست پر ان ہی کا کنٹرول ہے۔جمہوریت جس کا نام ہمارے ملک میں کتابوں کی زینت بنی رہتاہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عوام سے5 سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کا کام لیا جاتا ہے بلکہ بعض جماعتیں تو عوام کو ووٹ ڈالنے کی بھی زحمت نہیں دیتیں بلکہ ان سے ان کے شناختی کارڈ لے لیے جاتے ہیں اور ان سے کہا جاتاہے کہ وہ گھر پر آرام کریں ان کا ووٹ ڈال دیا جائے گا اور کچھ عرصہ پہلے تک تو ایک لسانی جماعت لوگوں سے شناختی کارڈ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی بس اس کے کارندے پولنگ بوتھ میں گھس کر ٹھپے لگالیا کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام ہی حکمران ہوتے ہیں، پاکستان کو بنے ہوئے لگ بھگ پون صدی ہونے والی ہے، اس طویل دور میں بدقسمتی سے ایسی کوئی حکومت نہیں دیکھی جسے جمہوری کہا جائے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں عوام و خواص سب ایک ہی سمت میں دوڑے جا رہے ہیں اور وہ سمت ہے پیسہ کمانے کی، اب یہ بات سمجھنے کی ہے ایسے ملک میں جمہوریت کا پودا کیسے پنپ سکتا ہے؟ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ نظریات پر بھی ایلیٹ کا قبضہ ہے، اور وہی عوام کی نظریاتی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا حال یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔آج ایک عرصے سے ملک میں انتخابات کا چرچہ ہو رہا ہے، عام آدمی دل ہی دل میں خوش ہورہاتھا کہ جمہوریت آ رہی ہے لیکن حکومت پر قابض ٹولے کو یہ احساس ہوچکاہے کہ ان انتخابات میں انھیں جھرلو پھیرنے کا پہلے جیسا موقع نہیں مل سکے گا اور عوام کا مزاج کچھ اور ہی ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتیجے میں انھیں سیاست کے میدان سے باہر نکلنا پڑسکتاہے اس لیے اب وہ انتخابات ملتوی کراکے زیادہ سے زیادہ دن تک حکومت کے مزے اڑانا چاہتے ہیں اور اپنی اس کوشش میں وہ عدلیہ سمیت راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اڑاکر رکھ دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بجلی قوم کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے لیکن ارباب حکومت چونکہ اس کی ترسیل کا نظام بہتر نہیں بناسکے ہیں اس لیے ضرورت سے زیادہ یہ بجلی صرف حساب کتاب کے کھاتوں تک محدود ہے۔بات صرف بجلی کی ہی نہیں ہے بلکہ پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد محروم ہے۔دنیا میں جب سے سرمایہ دارانہ نظام آ یا ہے، انسان نہ صرف یہ کہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا ہے بلکہ لاکھوں انسان روٹی تک سے محروم ہوگئے ہیں۔ہمارے ملک میں غریبوں کو ریلیف دینے کی جو کوششیں کی جاتی ہیں اس سے غربت تو دور نہیں ہوتی بلکہ غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے ایسا کیوں؟ اس کا جواب کون دے گا؟ہمارا ملک جمہوری ہے ملک میں ساڑھے6 کروڑ مزدور رہتے ہیں۔دیہی علاقوں میں رہنے والے زندگی کی تمام ضرورتوں سے محروم ہیں، کیا مفت آٹے کے نام پر عوام کی عزت نفس سے کھیلنے اور مفت آٹے کے حصول کیلئے لگی لمبی قطاروں کی تصاویر کی اشاعت سے اس ملک کے ہر گھر میں چولہاجل سکتاہے یہ ایک ایسا سوال جس کا جواب حکمرانوں کو دینا ہے۔
٭٭٭