سرکاری محکموں اور وزارتوں سے آڈٹ حکام کی رشوت طلبی کا انکشاف
شیئر کریں
آڈٹ حکام اور اہل کاروں کی جانب سے سرکاری محکموں اور وزارتوں سے رشوت مانگے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس پر پی اے سی نے آڈٹ حکام کی جانب سے رشوت لینے کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔بدھ کو پبلک اکانٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی صدارت میں ہوا، جس میں انہوں نے آڈٹ حکام کی جانب سے محکموں اور وزارتوں کے افسران سے رشوت مانگنے کا انکشاف کیا ہے۔پی اے سی نے آڈٹ حکام کی جانب سے رشوت لینے کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے دوران اجلاس کہا کہ کچھ وزارتوں اور محکموں کی جانب سے مجھ سے رابطہ کر کے شکایت کی گئی ہے کہ آڈٹ اہل کار وصولیوں یا دستاویزات کی تصدیق کے مرحلے میں رشوت مانگتے ہیں۔رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ جنہوں نے سب کا حساب کرنا ہے، ان کا حساب کون کرے گا۔پبلک اکانٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ آڈٹ کے لیے 20 یا 21 گریڈ کے افسر کو بھیجا جائے۔پی اے سی نے آڈٹ افسران و اہل کاروں کی شکایات ملنے کے بعد تمام وزارتوں کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سلسلے میں کمیٹی کا کہنا ہے کہ آڈٹ حکام کسی بھی وزارت یا محکمے کے افسر سے رشوت مانگیں تو فوری طور پر پبلک اکانٹس کمیٹی (پی اے سی)کو اطلاع دی جائے۔علاوہ ازیں چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ بھاشا ڈیم، داسو، مہمند، نیلم جہلم اور کے فور کراچی کا منصوبہ شامل ہے۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ رپورٹس کے جائزے میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہواجس کے مطابق 2016-17 میں 22 ارب 88 کروڑ روپے لاگت کے 3 ٹھیکے دئیے گئے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ کام شروع ہونے سے پہلے ٹھیکیداروں کو 4 ارب 58 کروڑ کی ایڈوانس رقم جاری کی گئی۔ ایڈوانس ادائیگی کے بعد 5 سال گزرنے کے باوجود کام شروع نہیں ہوسکا۔ وزارت آبی وسائل کی جانب سے اجلاس میں بتایا گیا کہ فنڈز کے اجرا کے لیے عالمی بینک کی ٹائم لائن پر عمل کیا گیا۔دوران اجلاس آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ڈیم فنڈ میں جمع پیسوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا۔چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ پرنسپل اکائونٹنگ افسر کو معلومات دینے کی ہدایت کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔ احتساب، عدالت اور آئین کی بالادستی کے لیے یہ ضروری ہے،ہمیں آگاہ کیا جائے کہ بھاشا ڈیم کے لیے کہاں سے ، کیسے اور کتنا پیسہ جمع ہوا۔ سننے میں آیا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے بھی کہا گیا ہے کہ ریکارڈ نہ دیں۔