چین و سعودیہ تعلقات میں اضافہ
شیئر کریں
صدرشی جن پنگ اندرونِ ملک خود کو مضبوط بنانے کے بعداپنی تمام تر توانائیاں معیشت کو بہتر بنانے اور بیرونِ ملک چینی اثرورسوخ میں اضافہ کرنے پر صرف کر رہے ہیں حیران کُن امر یہ ہے کہ ملک کے اندراور باہر انھیںمتواتر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہے رواں ماہ سات سے نو وسمبرکے دوران انھوں نے تجارتی و تزویراتی حوالے سے سعودی عرب کا کامیاب سرکاری دورہ کیا ہے جس کے دوران اُن کا گرم جوشی سے پُرتپاک استقبال ہوا سعودی ولی عہد محمدبن سلیمان نے روایات سے ہٹ کر شاندار آئوبھگت کی یہ آئو بھگت امریکی صدر جوبائیڈن کے جولائی میں ہونے والے استقبال کے برعکس اور بڑھ کرہے اِس استقبال کو اِس نظر سے دیکھناکہ چین اور سعودیہ تیل کی منڈی کے بڑے کردار ہیں کیونکہ سعودیہ اگر تیل کی پیدوار اور فروخت کے حوالے سے دنیا کا ایک اہم ملک ہے جبکہ چین تیل کا ایک بڑا خریدار ہے سعودی تیل کا چوتھا حصہ چین خریدتا ہے یہ استقبال اِس ضرورت سے بھی بڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کیونکہ پہلی بار کسی چینی صدر کو سعودی عرب نے اتنی پذیرائی دی صدر شی جن پنگ 2016 میں بھی سعودی عرب آئے مگر موجودہ وارفتگی عنقا دکھائی دی چینی صدرنہ صرف ریاض میں منعقدہ چین اورعرب ریاستوں کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے بلکہ خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی ایسی اہمیت و عزت دینا ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب کسی ایک پر تکیہ کرنے کی بجائے دیگر عالمی طاقتوں دونوں سے بھی دوطرفہ تعاون بڑھانے کی روش پر گامزن ہیں جو مشرقِ وسطٰی کے منظر نامے میں آتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔
ریاستوں کے باہمی تعلقات اخلاص نہیں مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسی لیے دوست اور دشمن بدلناعام بات ہے واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی ڈیوڈ کو 2004میں دئے گئے انٹرویو میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے ایک بڑی ہی معنی خیز بات کہی کہ امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات کیتھولک شادی نہیں بلکہ مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے اِس طرح یہ وضاحت کی کہ کسی ایک طاقت کے پابند نہیں بلکہ جو ہمارے لیے بہتر ہوگا وہ کر یں گے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اُنھوںنے مزیدکہا کہ دیگر ممالک سے تعلقات بڑھانے کا مطلب امریکہ سے طلاق ہو نانہیں مگر رواں برس کے دوران کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے اِس تاثر کو تقویت ملنے لگی ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات کا عروج نہیں رہا جس کی ایک اہم وجہ وہ فیصلہ ہے جس میں رواں برس پانچ اکتوبرکو اوپیک ممالک نے یومیہ تیل کی پیدوار میں دوملین بیرل یومیہ کمی کا علان کیا جس سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی آئی کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے اوپیک فیصلے سے روسی معیشت کو فائدہ ملے گا دوسری وجہ یہ ہے کہ سعودیہ کو امریکہ انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب قرار دیتا ہے صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کے واقعہ کو اُچھالنے اور پھر عالمی میڈیا کی زینت رکھنے پر بھی ولی عہد محمد بن سلیمان خفا ہیں روس اوریوکرین جنگ کے باوجود سعودیہ کے روس سے بڑھتے تعلقات پر بھی امریکہ کو اعتراض ہے اسی لیے دونوں ممالک کی ترجیحات کی نوعیت بدل رہی ہے حالانکہ اب ٹرمپ کی طرح یہ دھمکی دینے کازمانہ بھی نہیں رہا کہ ہمارے بغیر سعودی اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں وجہ ایک سے زائد عالمی سطح پرمتبادل کا میسرہونا ہے چین حالیہ دہائی میں مشرقِ وسطٰی کا اہم کردار بن چکا وہ نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنے کے ساتھ بااعتماد دوست بنانے کے لیے ہرقسم کے دفاعی تعاون پربھی آمادہ ہے یہ وہی پالیسی ہے جس سے روس نے شام جنگ میں صدربشار السد کا ساتھ دیکر تبدیلی کی کوششوں کو ناکام بنا یااسی بناپر اُسے عالمی تعاون مل رہا ہے۔
امریکی دھمکیاں آزادو خودمختار ممالک کوسخت ناگوار ہیں مگر امریکہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی نہیں کر رہابلکہ انسانی حقوق کی آڑ میں دفاعی سازوسامان کی خریدوفروخت پر پابندیاں لگاتا رہتا ہے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو عرب اسرائیل جنگ کے دوران تیل کوبطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ اورپھر ایسانہ کرنے کی صورت میں دھمکی سے زمانہ آشناہے سعودی شاہ نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہم اپنی پرانی بدویانہ طرزکی زندگی میں دوبارہ لوٹ جانا منظور کرلیں گے لیکن کسی کی ہدایات یا حکم قبول نہیں کر سکتے بعدازاں غیر طبعی موت مارے گئے یہ تو 1973کی بات ہے اب 2022ہے جب معاشی اور دفاعی حوالے سے چین کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے اِسی لیے بظاہر سعودی قیادت کو چین کی طرف مائل ہونے سے باز رکھنے کی کوئی فوری صورت بنتی نظر نہیں آتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سات آٹھ دہائیوں سے مشرقِ وسطٰی سے امریکہ ایک دیرینہ حلیف کے اعتمادسے محروم ہونے کے قریب ہے جس کا رسمی اعلان تو ابھی نہیں ہوامگر سفارتی حلقے چینی صدرکے سعودی دورے سے یہی پیغام لے رہے ہیں البتہ کوئی نہ سمجھے اوربددستور سب اچھاہے پرمُصررہے 2018میں جمال خاشقجی صحافی کے ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں قتل پربھی امریکہ و سعودیہ تعلقات ناہموار ہوئے بعدازاں دس ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے عوض ٹرمپ نے مملکت کو عالمی چھوت بنانے کے وعدوں پر نظرثانی کرلی لیکن چینی صدر کاحالیہ دورہ حالات کو یکسربدلنے کے ساتھ سعودیہ کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے اب شاید دھمکی دیکر کسی کو کام نکلوانے کا موقع نہ ملے ۔
چینی صدر کا حالیہ دورہ تجارتی تعلقات سے بڑھ کر ہے سعودی فرمانرواشاہ سلیمان اور ولی عہدمحمد بن سلیمان سے ہونے والی ون ٹو ون ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران تعلقات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق ہوا دونوں حکومتوں کے وفود نے بھی طویل بات چیت کے بعد اعلٰی حکام کی موجودگی میں29 بلین ڈالر کے 34معاہدوں پر دستخط کیے جن میں گرین ہائیڈروجن ،ٹرانسپورٹ،صحت،آئی ٹی،پیٹروکیمکلز سمیت چینی زبان سکھانے جیسے معاہدے شامل ہیں مہمان صدر نے دورے کے دوران ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یو آن میں تیل خریداری کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ابھی فیصلہ تو نہیں ہوا مگر یہ بھی کیاکم ہے کہ اِس حوالے سے بات چیت جاری ہے اگر ایساہوجاتاہے اوراوپیک تنظیم بھی ڈالر کی بجائے تیل کی فروخت یوآن کی منظوری دے دیتی ہے تو ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی کیا ایسا فوری طورپرہوجائے گا؟ بظاہر بہت مشکل ہے کیونکہ امریکہ ایسا کوئی فیصلہ ہونے سے روکنے کے لیے کسی حدتک بھی جا سکتا ہے چین تجارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے میں ہچکچانے کی پالیسی ایک دہائی قبل ترک کر چکا اب وہ ہر میدان میں پیش قدمی کرنے لگاہے پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا نیوم سٹی ویژن 2030کے منصوبے میں بھی سعودی ایماپروہ معاہدہ کر چکا حالانکہ قبل ازیں اِس منصوبے کی تعمیر و توسیع کاکام صرف امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس تھا بلند وبالاعمارات کی تعمیر کے معاہدے کے علاوہ سعودیہ اور چین میں آئی ٹی کے فروغ کاایک ایسا معاہدہ بھی طے پا چکا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے جس چینی کمپنی ہواوے سے معاہدہ کیا ہے اُس پر امریکہ نے جاسوسی کے الزامات لگاکر پابندیاں عائدکر رکھی ہیں خیر سعودی اور امریکی تعلقات میں موجودہ تنائو اور سردمہری حیران کُن نہیں مگر کیا ایساہمیشہ رہے گا ماہرین واضح جواب دینے میں ابھی تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ ماضی میں ایک سے زائد بارامریکہ اور سعودیہ تعلقات غیرہموار ہوئے لیکن جلدہی دونوں تعاون کی راہ میں
آنے والی رکاوٹیں ہٹاکر ایک ہو گئے اب بھی نئی عالمی صف بندی سے ترقی وخوشحالی کی راہیں کُھلیں گی یاٹکرائو کا ایک نیا جہان دیکھنے کو ملے گا اِس بارے فوری طورپر وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ امریکا پر انحصارکم کرتے ہوئے سعودیہ نے چین کو بھی اپناایک قابلِ اعتمادساتھی بنالیا ہے یہ فیصلہ عالمی صف بندی پرکتنا اثر انداز ہو گا؟درست جو اب حاصل کرنے کے لیے انتظاربہتر رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔