میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ، حکومت کوای سی ایل پراعتراضات ختم کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

سپریم کورٹ، حکومت کوای سی ایل پراعتراضات ختم کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

ویب ڈیسک
هفته, ۴ جون ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ بینچ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ۔ دور ان سماعت ڈی جی ایف آئی اے، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر نیب عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت دی کہ حکومت ترمیم کو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے مناسب اقدامات کرے، ہم فی الوقت انتظامی اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے طریقہ کار سے متعلق استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے کون کہتا ہے، کبھی کسی سے پوچھا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ایک خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لئے نام ای سی میں ڈال دیں، بیرون ملک سفر اور آزادنہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کے تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا،اتارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور اس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتی ہے، حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ انکا اطلاق ماضی سے ہوگا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادنہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہا ہمیں معلوم ہے آپ نے ایک ایسے فرد کو بھی چھوڑ دیا ہے جسے ہم نے قید میں رکھنے کا حکم دیا تھا، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے خلاف ریفرنس 2018 کا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آرڈر 2021 کا تھا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کے حکم پر عملدرآمد کیا گیا، اس کی رہائی ریفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو آپ کو اس ادارے سے مشاورت کرکے ایسی ایل سے نام نکالنا چاہیے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کئے جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب کو ضرورت ہو تو نام دوبارہ شامل کرنے کے لیے رجوع کر سکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو نام نکالنے کا پتا ہوگا تو ہی رجوع کر سکے گا، ایسے ملزم کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا جو سپریم کورٹ نے شامل کروایا تھا۔سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایگزیکٹو کے فنکشنز میں مداخلت نہیں کررہے، ایک وزیر فنانشل معاملات پر کام کررہا ہے، ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ، ا?پ قانون کے مطابق عمل کریں، ہم آپ کو 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف ہو۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی سے ترمیم کے اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کیلئے نہیں تھا، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ترمیم کرنے والوں کے اگر رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہورہا تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ ملک سے باہر جانا ایک بنیادی حق ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے کہا ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں