عدالت ریاست کی جانب سے اختیارات کاغلط استعمال دیکھ رہی ہے، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ یقینی بنائیں کہ غیر ضروری طور پر کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔پی ٹی آئی لانگ مارچ کو روکنے کے خلاف رہنما عامر کیانی کی دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جلسوں اور دھرنوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات واضح ہیں اور یہ عدالت بھی اسی پر عمل کرے گی۔علاوہ ازیںچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کورٹ ریاست کی جانب سے اختیارات کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے، اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے، تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف ان کی بیٹی ایمان مزاری کی درخواست پر کیس کی سماعت کی۔سماعت کیلئے عدالت میں شیریں مزاری، درخواست گزار ایمان مزاری، فواد چوہدری سمیت دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کیلئے وقت دیا جائے، شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ رات کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھر پر گئے، اس عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا ہے، علی وزیر کئی ماہ سے قید میں ہیں، یہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ کا کام ہے، پہلے یہ سارے کام نہیں کرتے اور پھر اپوزیشن میں آتے ہیں تو کیس عدالت لے آتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے، تمام ادارے کام کریں تو ایسی درخواستیں عدالتوں میں نہ آئیں، سیاسی لڑائیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے حلقے کے عوام کو جوابدہ ہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی تو عدالت کیا کرے؟ یہ حکومت کا کام ہے، یہ بھی سوشل میڈیا پر طعنے ہی دیتے ہیں، ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طور پر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے، اب دیکھیں نا کہ شیریں مزاری کو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، یہ کورٹ یہی فیصلہ دے سکتی ہے نا کہ ان کو غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، پہلے حکومتی عہدیدار بھی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے، شیریں مزاری واحد رکن قومی اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ گزشتہ حکومت 20، 20 کلو ہیروئن ڈال کر کیس بناتی رہی ہے۔