جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کا پیغام
شیئر کریں
ہمسایہ ملک چین کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے سی پیک معاہدے کے بعدنشانہ بنانے کا سلسلہ مزید دراز ہو گیا ہے کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے حکومتی رَٹ نہ ہونے کے برابرہے اسی لیے وطن دشمن عناصرایک بار پھر منظم ہوکرتخریبی سرگرمیوں کو تیزکرچکے ہیں مگرجب مقتدر حلقوں کو بخوبی معلوم ہے کہ بھارت اور امریکا سی پیک معاہدے کو پسندنہیں کرتے کیونکہ اِس طرح ہونے والی بھاری سرمایہ کاری سے نہ صرف پاکستان اور چین مزید قریب آئے ہیںبلکہ خطے میں چینی رسوخ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر چین دشمن ممالک خفا اورسی پیک کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ آزما سکتے ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ اِن حالات میں چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جاتے نیز جو اِس کام کے لیے نئے اِدارے تشکیل دیے گئے ہیں نہ صرف اُن کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی بلکہ استعدادکار میں اضافہ کیا جاتا وائے افسوس کہ ایسا نہیں ہواجس کی بنا پر دشمن کو دونوں ممالک کے تعلقات پر کاری وار کرنے کا موقع ملنے لگاہے پاکستان کی کمزور معیشت کی بحالی کے لیے چینی سرمایہ کاری کا تسلسل اشد ضروری ہے اِس لیے مقتدر اِداروں کو چاہیے کہ دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور چین کے تعاون سے جاری منصوبوں پر کام کرنے والے ہُنر مندوں کی حفاظت کویقینی بنایا جائے وگرنہ سی پیک کو نقصان کے ساتھ دونوں ممالک کے قریبی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
26اپریل منگل کی سہ پہر کراچی یونیورسٹی کیمپس کے اندر کیے جانے والے خود کش حملے کو ہمہ گیر پہلوئوں سے دیکھنا اور پھراپنی خامیوں اوردشمن کی سازشوں پر پوری سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد تدارک کرنے میں ہی ملک کا مفاد ہے اگر اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو قومی سلامتی کے ساتھ ہموارترقی کی منزل متاثر ہو سکتی ہے یونیورسٹی کے اندرتربت سے تعلق رکھنے والی ایم فل کی طالبہ شاری حیات بلوچ نے اسی یونیورسٹی میں2013 میں چین کی سی چوان یونیورسٹی کے تعاون سے قائم ہونے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبران کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایایہ شعبہ چینی زبان کے مختلف کورس کراتا ہے اِس شعبے کے قیام میں ڈاکٹرہونگ گیو پنگ کا کلیدی کردار ہے دہشت گردانہ حملے کے دوران ڈاکٹر ہونگ اپنے ملک کے دیگر دو شہریوں اور مقامی ڈرائیور کے ساتھ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جس کی زمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے زیلی ونگ مجید بریگیڈ نے سوشل میڈیا کو جاری ایک خط کے زریعے قبول کرلی ہے اِس میں شائبہ نہیں رہا کہ حملے کا ہدف سولہ نشستوں والی گاڑی ہی تھی جس کا خاتون نے انتظار کیا اور پھر مناسب موقع دیکھ کر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا لیکن یہاں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ گاڑی کے ساتھ رینجرزکے جو حفاظتی اہلکار تھے وہ کِن مصروفیات میں گم تھے کہ خطرے کابروقت ادراک اور توڑ کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے؟ پاکستان کو جن نازک حالات کا سامنا ہے اِن میں ایسی کوتاہی کسی صورت نظر انداز کرنے اور معافی کی گنجائش نہیں امید ہے کہ خاتون خود کش بمبار کے بارے جاری تحقیقات میں کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
جون2020میں کالعدم تنظیم بی ایل اے نے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا یہی تنظیم جامعہ کراچی پر ہونے والے حملے کی بھی ذمہ دارہے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں چینی قونصلیٹ پر بھی نومبر 2018میں حملہ کیا گیا اگر تینوں حملوں پر غور کیا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیم کا مقصد مطالبات کی منظوری نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے شہریوں کو نشانہ بناناہے ایسے ہی اہداف امریکہ اور بھارت کے ہیں اِس لیے تحقیقاتی اِداروں کو محض دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ہرپہلوزہن میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ دہشت گردانہ حملوں کے پسِ پردہ اصل مقاصد کیا ہے ؟اگر اِس سوال کا جواب حاصل کر لیا گیا تو نہ صرف دہشت گردانہ حملوں کوروکا جا سکتا ہے بلکہ سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی بے نقاب کرناآسان ہوجائے گا بھارتی وزیرِ اعظم مودی بلوچستان میں دہشت گردی اور دخل اندازی کی سرپرستی کا اعتراف کر چکے پاکستان نے ڈوزئیر کی صورت میںبھارتی تخریبی سرگرمیوں کے ثبوت اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اِداروں کوفراہم کیے مگراب تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی اِس لیے اب یہ سیکورٹی اِداروں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اُن کی تخریبی سرگرمیوں کا دندان شکن جواب دیں ۔
یہ عیاں حقیقت ہے کہ چینی شہری دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں گوادر سے لیکر ڈیم بنانے میں مصروف انجینئروں تک پر حملے کیے جاچکے اسی لیے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ حملوں کی زمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کے مقاصد میںحقوق وغیرہ نہیں کچھ اورہیں یہ تنظیمیں دشمن طاقتوں کی ایماپر ملک کو معاشی ترقی سے روکنا چاہتی ہیں ظاہر ہے اسی لیے فہمیدہ حلقے اِس جانب اِشارہ کرتے ہیں کہ ملک میں جاری بدامنی کی حالیہ لہر کے پسِ پردہ اندرونی سے زیادہ بیرونی ہاتھ ہے کیونکہ اگرمسئلہ حقوق یا لاپتہ افراد کی بازیابی تک محدود ہوتا تو گزشتہ چند برسوں میں اِس حوالے سے کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے قابلِ قدر منصوبوں پر کام جاری ہے نیز اعلٰی ملازمتوں میںبھی عام بلوچوں کا حصہ بڑھایا جاچکا ہے حالانکہ چند ایک بلوچ سرداراب بھی ملازمتوں کی تقسیم میں شفافیت کی بجائے کوٹہ کی صورت بھرتی پرمُصر ہیں لیکن قومی قیادت کو میرٹ کی پاسداری پر مصلحت پر رضامند نہیں کیا جاسکامگر آغا حسن بلوچ جیسے رزیل وزارت کا حلف اُٹھاتے ہوئے سینے پر آزاد بلوچستان کا جھنڈالگا کر قومی قیادت کی حُب الوطنی کا مزاق اُڑاتے ہیںایسے لوگوں سے نرمی سے تخریبی کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے حالانکہ اصل مسلہ لاپتہ افراد کی بڑی تعداد منظرِ عام پر آنے سے حل ہوگیا ہے اب وہی لاپتہ ہیں جویاتو ملک سے فرار ہو چکے ہیں یا پھر پیاڑوں کی طرف چلے گئے ہیں اسی لیے آجا کر اسی نُکتے کی طرف دھیان جاتا ہے کہ حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی نہیں کالعدم تنظیم کا ہدف ملک کی معیشت ہے اوروہ سرمایہ کاری کرنے والے دوست ملک کو سرمایہ کاری سے بازرکھناچاہتی ہے جسے آغاحسن بلوچ جیسے لوگ شہ دے رہے ہیںایسے لوگوں سے اب نرمی کی گنجائش نہیں۔
جامعہ کراچی پر حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے کے آرزومند ہیں تاکہ چین کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں سی پیک کے منصوبوں کی رفتار بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے اِس لیے اِس امکان کو رَد کرنا مشکل ہے کہ حملے کا مقصد اقتدار کی تبدیلی کے بعد پاک چین دوستی میں مزید قربت اور گرم جوشی کے امکانات کم کرنا ہے ملکی اِداروں کا اولیں فرض ہے کہ شرپسند عناصر اوراُن کے سرپرستوںاور سہولت کار وں کے عزائم بے نقاب کرنے کے ساتھ جامع اور نتیجہ خیزکاروائی کریں اگر اِس سمت پیش رفت ہوتی ہے تو مستقبل میں بیرونی طاقتوں کو قومی وجود میں نقب لگانے کے راستے مسدود کیے جا سکتے ہیں حالیہ حملے پر چینی سفارتخانے کے ساتھ حکومت نے بھی اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کو سنجیدہ لیکر فول پروف حفاظت کا مطالبہ کیا ہے اب یہ اِداروں پر منحصر ہے کہ وہ فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی یا سُستی کا شکار ہوکردہشت گردانہ حملوں کے جواب میںخاموش رہتے ہیں یا سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کی مزموم چالیں ناکام بناتے ہیں اگرسرعت سے جوابی کاروائی کرنے کی بجائے خاموش رہتے ہیں تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بھی غیرہموارہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔