مشیرخزانہ نے گیس بحران کاذمہ دارحکومت کوٹہرادیا
شیئر کریں
مشیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے اگر وقت پر مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کارگوز خرید لیے ہوتے تو گیس کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا’آئی ایم ایف کے معاہدے کی شرائط پہلے کی طرح کڑی نہیں ہیں، لکی مروت اور دوسرے مقامات پر گیس کی دریافت ہوئی ہے، مقامی کمپنیاں کچھ نہیں کر رہی ہیں ،دسمبر اور جنوری کے درمیان قیمتیں کم ہوں گی،منی بجٹ کا اعلان آئندہ ہفتے تک کردیا جائے گا۔انٹرویو میں شوکت ترین نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے ملک میں گیس مہنگی ہے۔ملک میں گیس کے شدید بحران کے حوالے سے سوال پر شوکت ترین نے کہا کہ گزشتہ دنوں میں ہمیں جو کارگوز لے لینے چاہیے تھے وہ ہم نے نہیں لیے، لیکن اگر کارگوز وقت پر خرید لیے جاتے تو بھی صرف 2 سے 3 ماہ کا ہی فائدہ ہوتا، ابھی حالات یہ ہیں کہ پیٹرول اور گیس کی درآمدات 7 سے 8 ڈالرز بڑھ گئی ہیں۔انہوںنے کہاکہ دسمبر اور جنوری کے درمیان قیمتیں کم ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ لکی مروت اور دوسرے مقامات پر گیس کی دریافت ہوئی ہے، مقامی کمپنیاں کچھ نہیں کر رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس کیش نہیں ہے، ان کے اوپر گردشی قرضہ اتنا ہے کہ وہ ڈویڈنٹ نہیں دے سکتیں، تو جیسے ہی وہ ڈیویڈنٹ دیں گے اس کی قیمت بڑھ جائے گی۔آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے حوالے سے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم سے دوسرے معاہدے کی شرائط گزشتہ معاہدے کے مقابلے اتنی مشکل نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے معاہدے میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے تھے اور بجلی کے فی یونٹ پر 4 روپے کا ٹیرف بڑھانا تھا اور مرکزی بینک کو آزاد بنانا تھا۔انہوںنے کہاکہ میں نے اپریل میں عہدہ سنبھالا اور حکومت آئی ایم ایف سے پہلے ہی معاہدہ کر چکی تھی، میں نے حکومت کو ٹیکس دینے والوں پر بوجھ کم کر کے مزید ٹیکس کنندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا مشورہ دیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت سے کہا کہ گردشی قرضہ بڑھنے کا سبب بے شمار بجلی گھر ہیں، آج آپ ٹیرف میں اضافہ کریں تو اس کا نقصان عام شہری کو بھرنا پڑے گا لہٰذا اس کا کوئی دوسرا حل نکالا جائے۔پیشگی اقدامات کے حوالے سے شوکت ترین نے کہاکہ آئی ایم ایف کو ایک موقع ملا ہے جب میں 2008 میں آئی ایم ایف گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح 18 فیصد ہے اور ڈسکاؤنٹ کی شرح 13 فیصد ہے اور اسے مزید 5 فیصد بڑھائیں۔انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف نے کہا کہ یہ آپ کا پہلا پیشگی اقدام ہوگا جس پر میں نے اس عمل سے انکار کردیا تھا، میں نے کہا یہ تیل کی مہنگائی ہے جب تیل کی قیمت نیچے آجائے گی تو ہم کیا کریں گے ہم اپنا بزنس خراب نہیں کر سکتے، میں نے صرف ڈھائی فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھایا، یہ اس وقت کی صورتحال تھی۔