میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈی این اے کی ٹیکنالوجی کاکمال ....سابق پولیس افسر میخائل پوپ کوف کا81خواتین کے قتل کااعتراف

ڈی این اے کی ٹیکنالوجی کاکمال ....سابق پولیس افسر میخائل پوپ کوف کا81خواتین کے قتل کااعتراف

ویب ڈیسک
پیر, ۶ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

”میں جس صدی میں پیداہوا، اس دور میں یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی،اگر مجھے جینٹک ٹیسٹ سے نہ گزاراجاتاتو میں اب بھی نہ پکڑا جاتا“ملزم کا بیان
ایڈمنڈو بر
سائبیریا کے عادی قاتل میخائل پوپ کوف نے گزشتہ روزمزید 47 خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کااعتراف کرلیا، اس طرح جنسی زیادتی کانشانہ بنائے جانے کے بعداس کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی مجموعی تعداد 81 ہوگئی ہے۔اس طرح اب اسے سابق سوویت یونین کا بدترین قاتل قرار دیاجارہاہے۔بڑی تعداد میں خواتین کوقتل کرنے والے اس ملزم کی گرفتاری ڈی این اے کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہے ورنہ پولیس کاسابق افسر شاید کبھی گرفت میں نہ آسکتا۔
پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے بتایا کہ وہ پولیس میں سپاہی تھا اور نوجوان خواتین کے ساتھ زیادتی کارسیا تھا ،لیکن خواتین کے ساتھ زیادتی کا بھانڈا پھوٹ جانے کے خوف سے ان کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انھیں قتل کردیا کرتاتھا تاکہ جرم کا کوئی ثبوت اور کوئی گواہ باقی نہ رہے۔پولیس اہلکاروں کاکہنا ہے کہ ملزم نے زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی خواتین کی لاشوں کوٹھکانے لگانے کے بعض مقامات کی نشاندہی کردی ہے جہاں سے اب ان خواتین کی باقیات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پولیس کا خیال ہے کہ ملزم نے ابھی تک تمام قتل کا اعتراف نہیں کیاہے اور مزید پوچھ گچھ کے دوران وہ مزید درجنوں خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کرنے کے ساتھ ہی ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے مقامات کی نشاندہی بھی کردے گا، پولیس کے مطابق ملزم سے پوچھ گچھ کیلئے روایتی تشدد کے حربے اختیار کرنے کے بجائے نفسیاتی حربے اختیار کیے جارہے ہیں اور ان میں کامیابی حاصل ہورہی ہے اور ان نفسیاتی حربوں کی وجہ سے ہی ملزم نے جو جنوری 2015 سے 22 خواتین کے قتل کے الزام میں جیل میں ہے مزید خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے مقامات کی نشاندہی بھی کردی ہے۔
سائیبرین ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے روس کی تحقیقاتی کمیٹی جو روس کی ایف بی آئی کے مساوی تصور کی جاتی ہے نے بتایا کہ ملزم عام طورپر 17سال سے 38 سال کی خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بناتاتھا۔اس نے اپنا فرضی نام ”ویئر وولف “ رکھاہواتھا۔
ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ خواتین کو زیادتی کے بعد خنجر اور اسکریو ڈرائیور مارکر قتل کرتاتھا اور کلہاڑی سے ان کے ٹکڑے کردیتا تھا ۔ ملزم نے خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ سوویت یونین کے خاتمے کے فوری بعد شروع کیاتھا اور 18 سال تک بلا روک ٹوک خواتین کو نشانہ بناتا رہا ۔ تحقیقاتی کمیٹی کی ترجمان خاتون کیرینا گولاواچیفا نے بتایا کہ مزید پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے مزید59 خواتین کو قتل کرنے کااعتراف کیاہے جبکہ اس سے قبل اس نے 22خواتین کے قتل کااعتراف کیاتھا جس کی بنیاد پر وہ جیل میں سزا کاٹ رہاہے،اس طرح ملزم کانشانہ بننے والی بدقسمت خواتین کی مجموعی تعداد 81 ہوگئی ہے تاہم پوچھ گچھ کرنے والی ٹیم کے ارکان کاخیال ہے کہ ابھی ملزم مزید قتل کا بھی اعتراف کرے گا۔کیرینا نے بتایا کہ ملزم نے جن مزید 59 خواتین کو قتل کرنے کااعتراف کیاہے ان میں سے 47 کے بارے میں تمام شواہد جمع کرکے ملزم کے خلاف قتل کے مزید47 مقدمات درج کرلئے گئے ہیں جبکہ بقیہ قتل کے شواہد جمع کرنے کے بعد مزید مقدمات درج کئے جائیں گے ۔ کیرینا نے بتایا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ زیر تفتیش مزیدقتل کی 12 وارداتوں کے بارے میں بھی شواہد ہم بہت جلد جمع کرلیں گے اور ان12قتل کے مقدمات بھی ملزم جن کااعتراف کرچکاہے جلد درج کرلئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ قتل کی وارداتوں کے مزید اعترافات کے بعد پوپ کوف سوویت یونین کا سب سے زیادہ قتل کرنے والا مجرم بن چکاہے جبکہ اس سے قبل روستوف کے علاقے کے رہائشی آندرے چیکاتیلو کو روستوف کا قصائی اور سوویت یونین میں سب سے زیادہ قتل کرنے والا مجرم تصور کیاجاتاتھا جس نے 53 قتل کئے تھے، جبکہ حال ہی میں ماسکو سے گرفتار کئے گئے ایک ملزم الیگزنڈر پیش شسکن نے 49 قتل کااعتراف کیاتھا ۔ پوپ کوف قتل کی مزید وارداتوں کے بعد یوکرائن کے بدنام زمانہ قاتل انتولی اونوپرینکو سے بھی بڑا قاتل بن گیاہے جسے مجموعی طورپر 52 قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
پوپ کوف کے 81 خواتین کے قتل کے اعتراف کے بعد اب وہ دنیا کے صرف 2 بدنام ترین قاتلوں لوئس گیراویٹو اور پیڈرو لوپیز سے پیچھے رہ گیا ہے ان دونوں کاتعلق جنوبی امریکہ سے ہے اور وہ پوپ کوف سے بھی زیادہ قتل کرنے کااعتراف کرچکے ہیں۔
تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم نے قتل کی یہ تمام وارداتیں 1992 سے 2010 کے دوران کیں ،اور2000 میں اگرچہ وارداتوں کے تواتر میں کمی آگئی تھی اور پولیس یہ تصور کرنے لگی تھی کہ وہ قتل کی وارداتیں روکنے میں کامیاب ہوچکی ہے لیکن ملزم وارداتیں پھر بھی کررہاتھا تاہم ان وارداتوں میں کمی کاسبب یہ تھا کہ ملزم ان وارداتوں کے دوران خود جنسی امراض کاشکار ہوگیاتھا اور وہ اس کاعلاج کرارہاتھا۔
ارکتس سک کے علاقے میںجب اسے ایک عدالت کے سامنے پیش کیاگیاتو جج نے اس سے سوال کیاکہ تم نے کتنی خواتین کوقتل کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں ہے میں ان کے نام لکھ کر کوئی ریکارڈ تھوڑی رکھتاتھا۔تاہم ملزم نے عدالت کو بتایا کہ میں اپناجرم پوری طرح قبول کرتاہوں میںنے قتل کئے ہیں،اور کوئی مجھے اندر سے قتل پر اکساتاتھا جس کی وجہ سے میں قتل کردیتاتھا۔جب 2012 میں اسے گرفتار کیاگیاتھا تو اس نے پولیس کوبتایاتھا کہ میں اپنی سڑکوں کو طوائفوں سے پاک کرنا چاہتاتھا۔ملزم عام طورپر خواتین کو رات کے وقت اپنی پولیس کی گاڑی میں لفٹ دے کر ویرانے میں لے جاتاتھا جہاں وہ ان کو زیادتی کانشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے ان کی لاش سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں چھپا دیا کرتا تھا ۔
سینئر تفتیش کار آندرے بوناییف نے گزشتہ سال بتایاتھا کہ یہ تفتیش بہت لمبی چلے گی کیونکہ ملزم نے قتل کی بیشمار وارداتیں کی ہیں اوراب وہ ان مقامات کی بھی نشاندہی کررہاہے جہاں اس نے قتل کے بعد لاشیں چھپائی تھیں۔بہت سی وارداتوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ بہت سی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔انھوں نے بتایا کہ بعض واقعات میںملزم نے بایولوجیکل نشانات چھوڑے ہیں جن کاپہلے جائزہ نہیں لیاگیاتھا لیکن اب ان کابھی جائزہ لیاجارہاہے جبکہ بعض مقامات پر لاشیں نکالنے کیلئے ہمیں ملزم کی نشاندہی پر لاش برآمد کرنے کیلئے کھدائی بھی کرنا پڑتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ملزم ہمارے ساتھ مکمل تعاون کررہاہے وہ جو بھی بتارہاہے اس کی تصدیق ہورہی ہے وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ہمیں جائے وقوعہ پر لے کر جاتاہے لاش کی جگہ کی نشاندہی کرتاہے اور بتاتا ہے کہ اس نے اس قتل میں کیاطریقہ کار اختیار کیاتھااور مقتولہ کو کس چیز سے قتل کیاتھا۔
پولیس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد ملزم پوپ کوف اپنے آبائی شہر انگارسک واپس آگیاتھا جہاں اس نے بیشتر جرائم کئے جبکہ قتل کی کچھ وارداتیں ولاڈی واسٹک میں بھی کیں جوکہ انگارسک سے کم و بیش3ہزار900 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔تفتیش کار لیفٹنٹ گولوواچچیفا کا کہناہے کہ تفتیش سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے علاقے کے باہر کی رہنے والی خواتین کونشانہ بناتاتھا ۔سب سے پہلے ملزم نے 29 اکتوبر 1998 میں 20سالہ تانیا اور 19 سالہ یولیا کپری کوفا کو انگارسک کے نواح میں نشانہ بنایاتھا۔
پوپ کوف کی اہلیہ 51 سالہ ایلینا اور 29 سالہ بیٹی ایکاترینا جو اب ایک اسکول میں ٹیچر ہے ابتدا میں ملزم کے دفاع میں کھڑی ہوئی تھیں اور وہ اسے بڑی تعداد میں خواتین کوقتل کرنے والا قاتل تسلیم کرنے کوتیار نہیں تھیں لیکن حقائق سامنے آنے کے بعد وہ خاموشی سے علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئیں۔ایک خیال یہ ہے کہ ملزم نے خواتین کوقتل کی وارداتیں اپنے گھر کے قریب کچرے میں 2 استعمال شدہ کنڈوم دیکھ کر پنی اہلیہ پر کسی اور کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے شبہے کے بعد خواتین سے بدلہ یا انتقام لینے کے جذبے کے تحت شروع کی تھیں ۔ملزم نے اعتراف کیا کہ اس کاشبہ درست نہیں تھا لیکن مجھے یہ شک تھا کہ میری بیوی نے کسی اور مردکے ساتھ شب باشی کی ہے،جس سے میرے ذہن میں خواتین کے بارے میں ایک منفی تاثر پیداہوگیاتھا اور جو خواتین اپنے شوہروں یا بوائے فرینڈز کے ساتھ رات کو شراب نوشی کیلئے نکلتی تھیں ان کے بارے میں بھی میرے خیالات منفی تھے۔
وہ کئی سال تک گرفتاری سے بچارہا کیونکہ پولیس اہلکار اور افسران یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کاہی ایک ساتھی قاتل ہے اور بڑی تعداد میں خواتین کوقتل کرچکاہے۔پوپ کوف نے ایک موقع پر صحافیوں کوبتایاکہ وہ صرف ڈی این اے کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گرفت میں آگیاہے ،میں جس صدی میں پیداہواتھا اس دور میں یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی۔اگر مجھے اس طرح جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے جینٹک ٹیسٹ سے نہ گزاراجاتاتو آج میں آپ کے سامنے نہ بیٹھا ہوتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں