منہاج قاضی سے تحقیقات کی مکمل تفصیلات ، سنسنی خیز انکشافات!
شیئر کریں
٭1997 کے عام انتخابات کے بعد مجھے نارتھ ناظم آباد سیکٹر کا جوائنٹ انچارج بنایا گیا تو وہاں ٹارگٹ کلنگ کی تین ٹیمیں تھیں
٭ 2013 میں نائن زیرو کے اطراف تین سو ٹارگٹ کلرز رہتے تھے جن میں رئیس مما، جنید بلڈوگ، جبران ، اعظم اور شہزاد بھی شامل تھے
٭ حیدر عباس رضوی نے لینڈ گریبنگ کے معاملات دیکھنے کا حکم دیا، نائن زیرو پر چھاپے کے بعد متعلقہ تمام ریکارڈ جلادیا گیا
٭ دہشت گردی میں صحافی بھی معاونت کرتے رہے اور بدلے میں بھاری رقوم اور تحائف پاتے رہے
منہاج قاضی کی جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ پہلی بار منظر عام پر
محمد وحید ملک
ایم کیوایم کے مرکز نائن زیروکے سابق سیکورٹی انچارج اورصولت مرزا کے قریبی ساتھی منہاج قاضی عرف اسدکی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ جے آئی ٹی کے کچھ حصے پہلے بھی منظرعام پر آچکے ہیں مگر اس مشترکہ تفتیش کی تفصیلی رپورٹ مکمل طور پر شائع نہیں ہو سکی۔حیرت انگیز طور پر اس جے آئی ٹی میں حساس نوعیت کی مکمل معلومات ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بڑی گرفتاری سے تاحال کوسوں دور ہے۔
ملزم منہاج قاضی نے جے آئی ٹی میں یہ اعتراف کیا تھا کہ محمد انور کے کہنے پر ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنائی گئی جبکہ ٹارگٹ کلر جعلی پاسپورٹس پر ملک سے فرار ہوتے ہیں۔ صولت مرزا کے قریبی ساتھی مہناج قاضی عرف اسد کی رپورٹ کے مطابق ملزم نے1991میں ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی ۔ مہناج قاضی عرف اسد نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 1997کے عام انتخابات کے بعد مجھے نارتھ ناظم آباد سیکٹر کا جوائنٹ سیکٹر انچارج بنایا گیا تو اس وقت نارتھ ناظم آباد سیکٹر میں ٹارگٹ کلنگ کی تین ٹیمیں موجود تھیں۔ ایک ٹیم فہیم کمانڈو کی کمان میں کام کررہی تھی جس میں صولت مرزا عرف عمر، سہیل بنگالی، بوبی، احمد، آصف، انور اور 20سے 25ٹارگٹ کلرز شامل تھے۔ دوسری ٹیم میں فاروق دادا، طارق تیمور، تقی محمد جٹ، نعیم شری اور دیگر موجود تھے۔ ملزم نے بتایا کہ صولت مرزا نارتھ ناظم آباد کا رہائشی تھا اور متحدہ کا ٹارگٹ کلر تھا۔ 1993 میں میرادوست کامران صولت مرزا کو روپوشی کے لئے میرے گھر گلشن اقبال لایا تھا اور کامران کے کہنے پر میں نے دودن صولت مرزا کو اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ اسی دوران میں صولت مرزا سے دوستی ہوگئی تھی۔
منہاج قاضی نے اعتراف کیا کہ جب میں نارتھ ناظم آباد کا جوائنٹ سیکٹر انچارج تھا تو صولت مرزا نارتھ ناظم آباد سیکٹر میں اپنی ٹارگٹ کلنگ ٹیم چلا رہا تھا۔ ملزم نے بتایا کہ 1997میں صولت مرزا نے مجھے بتایا کہ لندن رابطہ کمیٹی کے ممبر محمد انور نے اس کو لندن سے فون کرکے اپنی الگ ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ صولت مرزا کے علاوہ لندن سے رابطہ کمیٹی کے ممبر ندیم نصرت بھی سہیل بنگالی کی ٹیم کو ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ محمد انور کے کہنے پر صولت مرزا نے جب ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنائی اس میں صولت مرزا، خرم بکری، فاروق کنڈی، ضیا عباس، بوبی اور دیگر شامل تھے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ 1997 اور 1998 میں کراچی آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم مرکز کی طرف سے حکم دیا گیا کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے رات کو اپنے گھروں پر نہ سوئیں جس پر ملزم اپنے دوست سعود کے گھر فائیو اسٹار اپارٹمنٹ گلشن اقبال میں سویا کرتا تھا اور اس بات کا صولت مرزا کو بھی پتہ تھا۔ ملزم نے بتایا کہ 1997 میں صولت مرزا اپنی کار پر فائیو اسٹار اپارٹمنٹ آیا اور ملزم کو اپنے ساتھ گلشن چورنگی لے گیا۔ وہاں ملزم اور صولت مرزا نے اپنے دیگر ساتھیوں راشد اختر اور اطہر کے ہمراہ ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کو ٹارگٹ کرنے ڈیفنس کی طرف روانہ ہوئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ میں، صولت مرزا، راشد اختر الگ الگ کاروں میں کلاشنکوفوں سے لیس ہو کر ڈیفنس مین لائبریری گئے اور وہاں شاہد حامد کی گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ تقریبا 9 بج کر 30منٹ کے قریب شاہد حامد کی گاڑی ملزم اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے گزری تو صولت مرزا نے شاہد حامد کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں شاہد حامد، ان کا گن مین اور ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔ ملزم نے بتایا کہ دوران واردات میں کلاشنکوف سے مسلح بیک اپ پر تھا۔واردات کے بعد صولت مرزا نے مجھے گلشن اقبال ڈراپ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایم ڈی کے ای ایس سی کو قتل کرنے کا حکم لندن سے محمد انور نے دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ایم ڈی کے ای ایس سی کے قتل کے بعد صولت مرزا سری لنکا فرار ہو گیا تھا۔ محمد انور کے کہنے پر میرے دوستوں نے مالدیپ میں روپوشی اختیارکی۔ملزم نے بتایا کہ 2004-05 کے دوران جب میں کورنگی سیکٹر میں نگران کمیٹی کا ممبر تھا تو میرے حکم پر کورنگی سیکٹر کے ٹارگٹ کلر آصف عرف آلو، سعید کالا اور عتیق لمبا نے فائرنگ کرکے ایم کیو ایم حقیقی کے کارکن کے شبہ میں ثاقب اور اس کے دوست سابق یوسی ناظم فہیم کو قتل کیا تھا۔
٭٭٭
عامر خان نے نائن زیروکا سیکوارٹی انچارج بنایا تھا
2013 میں نائن زیرو کے اطراف 300ٹارگٹ کلرز رہتے تھے جن میں رئیس مما، جنید بلڈوگ، جبران ،اعظم اورشہزاد بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے منحرف اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی چاہتے تھے کہ ٹارگٹ کلرز نائن زیرو کے اطراف سے باہر نہ نکلیں اور 2014میں اختلافات کے باعث انیس قائم خانی پارٹی معاملات چھوڑ کر دبئی روانہ ہوگئے۔منہاج قاضی نے انکشاف کیا تھاکہ 2012میں پارٹی کو شہر اور مضافات میں لینڈ گریبننگ کے احکامات دیئے گئے جب کہ مجھے کمیٹی کا ممبر بننے کے بعد حیدرعباس رضوی نے لینڈ گریبنگ کے معاملات دیکھنے کا حکم دیا اور نائن زیرو پررینجرزکے چھاپے کے بعد دفترسے لینڈ گریبننگ کا تمام ریکارڈ غائب کرکے جلادیا گیا۔منہاج قاضی نے بتایا ہے کہ 20فروری 2015کو رہنما ایم کیوایم عامر خان نے مجھے نائن زیرو کی سیکیورٹی کی ذمہ داری دی تھی
ڈی ایس پی جاوید عباس سمیت 18لینڈ گریبرز سے تعلقات تھے
منہاج قاضی نے دوران تفتیش جے آئی ٹی رپورٹ میں ڈی ایس پی سرجانی جاوید عباس،جمال،سلطان موسی،رئیس مما ،عابد چیرمین،سمیت 18لینڈ گریبروں کے نام بتائے تھے ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا ملزمان کی گرفتاری کے لئے حساس اداروں نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی، جے آئی ٹی میں بتایا گیا تھاکہ ملزمان نے سرجانی،خدا کی بستی،نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی،گلشن،سمیت دیگر علاقوں میں اربوں روپے کی زمینیں فروخت کی ہیں جس میں سرکاری اراضی بھی شامل تھی،ڈی ایس پی جاوید عباس حال ہی میں بیرون ملک سے واپس آئے ہیں اور ڈسٹرکٹ ویسٹ میں ہی پوسٹنگ کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔
منہاج قاضی کے انکشافات پر ڈاکٹرفاروق ستار کاردعمل
ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے سیکورٹی انچارج منہاج قاضی کا ویڈیو بیان منظر عام پر آیا تھا، جس میں حکیم محمد سعید کے قتل سے متعلق انکشافات کیے گئے تھے ویڈیوبیان میں منہاج قاضی کا کہنا تھا کہ حکیم سعید کے قتل میں ،ذوالفقار حیدر،محمود صدیقی،شاکر لنگڑادیگر نے معاونت کی۔مہناج قاضی کا کہنا تھا کہ جب حکیم سعید قتل ہوئے میں ایم کیو ایم سے رابطے میں نہیں تھا، محمود صدیقی اس زمانے میں اے پی ایم ایس او کے چیئرمین تھے۔رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ حکیم سعید قتل کیس کے تمام ملزمان باعزت بری ہوچکے ہیں۔فاروق ستارکا کہنا تھاکہ نائن زیروکے سیکیورٹی انچارج منہاج قاضی کی ایک وڈیو جاری کی گئی ہے،اس ویڈیو کے پس پردہ کیا عوامل،کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟رہنماایم کیوایم کاکہناہے کہ منہاج قاضی رینجرز کی تحویل میں ہے،منہاج قاضی رینجرز کے ریمانڈ پرہیں یا جیل کسٹڈی میں، منہاج قاضی کابیان 90روزہ رینجرزکی تحویل کے دوران لیاگیا،جو الزامات لگائے گئے ان الزامات کومستردکرتے ہیں،ایم کیو ایم کو تنہا کرنے کے لیے الزام لگایا گیا،ہم اس وڈیو کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ایم کیو ایم کیخلاف مزیدکارروائیوں کاجوازبنانےکی کوشش کی جارہی ہے،زیرحراست اس طرح کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،اگر کوئی ادارہ ایسا بیان لے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے،سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سوموٹو ایکشن لے،فاروق ستارنے کہاکہ منہاج قاضی کے بیان کیساتھ خالدشمیم کی ویڈیو کابھی نوٹس لیاجائے، منہاج قاضی کے ویڈیو بیان کا مقصد ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کرنا ہے۔
دہشت گردی میں صحافی بھی معاونت کرتے تھے، بدلے میں بھاری رقوم اور تحائف دیئے جاتے تھے
کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں معاونت کرنے والے صحافیوں کے نام منظر عام پر آگئے ہیں، ان صحافیوں کا تعلق ملک کے معروف نجی نیوز چینلز سے تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایم کیوایم کے گرفتار کارکن منہاج قاضی نے جوائنٹ انٹیروگیشن کی تفتیش کے دوران ان صحافیوں کے نام بتائے ہیں جبکہ ملزم نے 80سے زائد افراد کو قتل کرنے کااعتراف کیا ہے جبکہ عاشورہ بم دھماکوں سمیت دہشت گردی کی دیگر وارداتوں بارے بھی معلومات حساس ادارے کو فراہم کردیں۔منہاج قاضی نے تفتیشی ٹیم کو بتایاتھاکہ پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والے مختلف رپورٹرز ان کیلئے کام کرتے ہیں جو کہ میڈیا کا نام استعمال کرکے ہماری مشکلات کو دور کرتے ہیں جس کے بدلے بھاری رقوم حاصل کرتے تھے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر کے بارے میں حساس اداروں کے پاس معلومات موجود تھیں جن کے مطابق مذکورہ رپورٹر کی شادی کی تقریب میں ایم کیوایم کورنگی،برنس روڈ اورناظم آباد سیکٹر کے مختلف دہشت گردوں نے شرکت کی۔ذرائع نے مزیدبتایاکہ ایک اور نجی ٹی وی کے رپورٹر کے حوالے سے لینڈ مافیا چائنہ کٹنگ میں ملوث افراد کی بھاری رقوم کے عوض معاونت کرتا تھا جس کے ثبوت موجود ہیں جبکہ دو اور رپورٹرز کے مختلف جرائم پیشہ افراد سے بھی تعلقات رہے ہیں،ایک رپورٹر کو پہلے بھی گرفتارکیا گیاتھا تاہم پیپلزپارٹی کی اہم شخصیت کی مداخلت پر اسے رہا کردیاگیاتھا۔
منہاج قاضی پی ایس پی میں شامل؟
احتساب عدالت نے منہاج قاضی کے خلاف کیس جیل میں چلانے کی منظوری دیدی تھی۔ صوبائی حکومت نے ملزم منہاج قاضی کے خلاف کیس جیل میں چلانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیاتھا۔ احتساب عدالت میں چائنا کٹنگ اور زمینوں پر قبضے کر کے قومی خزانے کو 32کروڑ روپے نقصان پہنچانے سے متعلق ملزم منہاج قاضی ،شعیب نعیم، سہیل الیاس و دیگر کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی تھی۔منہاج قاضی کے خلاف دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں جس پر عدالت نے ملزم منہاج قاضی کے خلاف کیس جیل میں چلانے کی منظوری دی تھی۔میڈیا اطلاعات کے مطابق نائن زیرو کے سابق سیکورٹی انچارج منہاج قاضی پی ایس پی میں شامل ہوگئے۔منہاج قاضی نے جیل کے اندر پی ایس پی میں شمولیت کا اعلان کیا ۔منہاج قاضی ایم ڈی کے الیکٹرک شاہدحامد قتل کیس میں گرفتار ہے، اور جیل میں انیس قائمخانی نے ان سے ملاقات کی تھی اور ان کو پی ایس پی میں شمولیت کی دعوت دی تھی جس کو منہاج نے قبول لرلیا اور جیل میں ریکارڈ کیا گیا منہاج قاضی کا ویڈیو بیان جاری کیا گیا تھا۔بیان میں منہاج قاضی کا کہنا تھا کہ پاک سرزمین پارٹی کراچی کے لئے اچھی جماعت ہے ۔ میں عمیر صدیقی اور دیگر کے ساتھ مل کر جیل میں پی ایس پی کے لئے کام کر رہے ہیں۔
گرفتاری سے بچنے کے لیئے تبلیغی دورے
ملزم منہاج قاضی کے مطابق 1998میں گرفتاری سے بچنے کے لئے مدنی مسجد عائشہ منزل گیا اور وہاں سے چار ماہ کے تبلیغی دورے پر نکل گیا۔ ملزم کے مطابق اس کی تشکیل ڈیرہ اسماعیل خان، راولپنڈی، پشاور اور سکھر کے علاقوں میں ہوئی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ جب وہ تبلیغ سے واپس آیا تو اس کے چند روز بعد چوہدری اسلم نے صولت مرزا کو تھائی لینڈ سے واپسی پر ائیر پورٹ سے ہی گرفتار کرلیا تھا جیسے ہی مجھے یہ اطلاعات ملی تو میں پھر دوبارہ چار ماہ کے لئے تبلیغی دورے پر چلا گیا۔ جب دوبارہ تبلیغی دورے سے واپس آیا تو اپنی نارتھ ناظم آباد والی رہائش گاہ تبدیل کرکے گلشن اقبال شفٹ ہو گیا اور چند ماہ بعد ہی ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد قتل کیس میں صولت مرزا کو پھانسی کی سزا سنادی گئی جب کہ دیگر ملزمان کو اس کیس میں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔
منہاج قاضی کب،کہاں،کیسے؟
منہاج قاضی عرف اسد ولد محمد ممنون قاضی نے 1991میں اے پی ایم ایس او جامعہ کراچی میں بطور کارکن شامل ہوا، پھر 1994تک اے پی ایم ایس او جامعہ کراچی کا یونٹ انچارج رہا، 1996میں نارتھ ناظم آباد سیکٹر کا کمیٹی ممبر رہا، جنوری 1997تا جولائی 1997نارتھ ناظم آباد سیکٹر کا جوائنٹ انچارج رہا، 1998میں متحدہ قومی موومنٹ ساتھ افریقہ یونٹ کا کمیٹی ممبر رہا، 2002میں نارتھ ناظم آباد سیکٹر میں الیکشن سیل کا انچارج تھا، 2003میں ایم این اے حیدرعباس رضوی کا کوارڈینیٹر اور بعد ازاں 90میڈیا سیل کا ممبر رہا، 2005میں کورنگی سیکٹر میں بطور ری آرگنائزنگ کمیٹی سیکرٹری کام کیا، 2008میں گلشن معمار سیکٹر کا الیکشن انچارج مقرر کیا گیا، 2009کے جولائی تک گلستان جوہر کا جوائنٹ سیکٹر انچارج تھا، جولائی 2014سے 11مارچ 2015تک متحدہ مرکز 90کی ایف ایف سی کمیٹی کا ممبر رہا،20فروری تا 11مارچ 2015تک نائن زیرو کا سیکورٹی انچارج تھا۔
منہاج قاضی اور صولت مرزا کو ایم ڈی کے ای ایس سی کے بیٹے اور بیوہ نے شناخت کیا تھا
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن اور موجودہ کے الیکٹرک کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی)شاہد حامد کے قتل کے انیس سال بعد ان کی بیوہ اور بیٹے نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ایک اور حملہ آور کو شناخت کیا تھا۔متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ملزم محمد منہاج قاضی عرف اسد پر 5جولائی 1997کے روز کے ای ایس سی کے اس وقت کے ایم ڈی، گارڈ اور ڈرائیور کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا گیا ۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسی واقعے میں ایم کیو ایم کے ایک اور کارکن صولت مرزا کو 1999میں سزائے موت سنائی تھی، جس پر 12مئی 2015کو بلوچستان کی مچھ جیل میں عمل درآمد کیا گیا تھا۔پولیس نے ملزم منہاج قاضی کو انتہائی سخت سیکورٹی میں سٹی کورٹ میں پیش کیا تھا جہاں ابتدائی قانونی کارروائی کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی انیس الرحمن بریرو کے سامنے ملزم کی شناخت پریڈ کروائی گئی۔سابق بیوروکریٹ شاہد حامد کی بیوہ شہناز حامداور ان کے پولیس میں عہدیدار بیٹے عمر شاہد حامد واقعے کے عینی شاہد تھے، جنھوں نے شناخت پریڈ کے دوران ملزم کو شناخت کیا۔عمرشاہد اور ان کی والدہ نے عینی شاہدین کے طور پر بتایا کہ ملزم منہاج ان چار ملزمان میں سے ایک ہے، جس نے شاہد حامد پر فائرنگ کی تھی ۔کرمنل پروسیڈنگ کوڈ کی دفعہ 164کے تحت ریکارڈ کرائے گئے بیان میں دونوں عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ 5جولائی 1997کے روز جب شاہد حامد آفس جانے کے لیے گھر سے نکلے ہی تھے کہ انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی، جب شاہد حامد کی اہلیہ اور بیٹا گھر سے باہر نکلے تو انھوں نے 4افراد کو ایک گاڑی پر کلاشن کوف سے فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔شاہد حامد کی بیوہ اور بیٹے کا کہنا تھا کہ انھوں نے واقعے میں ملوث ایک اور حملہ آور صولت مرزا کی بھی شناخت کی تھی جس کو 12مئی 2015کو پھانسی دی جاچکی ہے۔دوسری طرف شناخت پریڈ کے دوران میں ملزم منہاج قاضی نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ اسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ملزم کا دعوی تھا کہ ان کی تصاویر آئے روز نجی چینلز پر چلائی جاتی ہے اور کوئی بھی ان کو آسانی سے شناخت کرسکتا ہے، مجھ پر ذہنی دبا ڈالا جا رہا ہے، جس پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرا کام شناختی پریڈ کرانا تھا ، آپ اپنے مسائل انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بتائیے گا۔ دوسری جانب منہاج قاضی کے بھائی معیز قاضی کے مطابق منہاج قاضی کو شاہد حامد قتل کیس میں پھنسایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منہاج قاضی بارہ سال سے ملائیشیا میں تھے وہ اپنی بھتیجی کی شادی کے سلسلے میں کراچی آئے تھے اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔رینجرز نے ملزم منہاج قاضی کو 3 فروری 2016 کو گرفتار کیا تھا۔
منہاج قاضی ایم این اے ایم پی اے بننا چاہتا تھا
منہاج قاضی 2001میں سپرہائی وے پر کار الٹ جانے کے باعث شدید زخمی بھی ہوگیا تھا اور اس حادثے میں اس کی اہلیہ بھی زخمی ہوئی تھی، ملزم منہاج قاضی تقریبا تین ماہ لیاقت نیشنل اسپتال میں زیر علاج رہا اور اس دوران چار مرتبہ اس کی عیادت کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عادل صدیقی بھی اسپتال آئے اور اسے بتایا کہ لندن میں موجود ڈاکٹر عمران فاروق دریافت کر رہے ہیں کہ اسے کسی قسم کی مالی امداد کی ضرورت ہے؟ جس پر ملزم نے کہا تھا کہ اسے مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے البتہ اگر اسپتال کے بل میں کوئی رعایت کرواسکتے ہیں تو وہ کروادیں تاہم اس ضمن میں عادل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ٹرسٹ اسپتال ہے یہاں اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں مل سکتی۔منہاج قاضی 2003 کے آخر میں رابطہ کمیٹی کے ممبر اور ایم این اے حیدر عباس رضوی کاکوارڈینیٹر بن گیا تھا ملزم سوا سال تک حیدر عباس رضوی کے ساتھ رہا، منہاج قاضی کا کہنا تھا کہ اس دوران حیدر عباس رضوی کے تمام سیاسی اور گھریلو امور کی دیکھ بھال کرتا تھا اور بعض اوقات منہاج قاضی حیدر عباس رضوی کے ہمراہ بطور سیکورٹی گارڈ ڈیوٹی کیا کرتا تھا، منہاج قاضی کے کہنے پر حیدر عباس رضوی نے اسے پاک کالونی، بلدیہ ٹاون کے ضمنی انتخابات میں ایم این اے، ایم پی اے بنانے کے لئے اس کا نام بھی رابطہ کمیٹی کو دیا تھا، ایم این اے کے امیدوار کے طور پر اس کا انٹرویو بھی انور عالم اور حیدر عباس رضوی نے کیا تھا اس کے بعد نام فائنل کرکے رابطہ کمیٹی لندن کو بھجوادیا گیا تھا جس کے بعد لندن سے ڈاکٹر عمران فاروق سمیت چار رہنماں نے منہاج قاضی سے انٹرویو کیا اور ڈاکٹر عمران فاروق نے اسے بجائے ایم این اے بننے کے نائن زیرو کے میڈیا سیل میں کام کرنے کی ہدایات کی تھی۔