میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، نوازشریف کی مشکلات بڑھ گئیں؟

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، نوازشریف کی مشکلات بڑھ گئیں؟

جرات ڈیسک
پیر, ۱۶ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭بحث ہورہی ہے کہ سابق وزیراعظم، جہانگیر ترین اور دیگر سیاسی شخصیات عدالتوں سے تاحیات نااہلی کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے اور ان کو ریلیف نہیں ملے گا
٭سابق وزیراعظم کے مستقبل کے حوالے سے مزید قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں جو کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی واپسی کے بعد آسانی سے حل ہو جائیں گے (سیاسی تجزیہ نگاروں کا موقف)
٭نواز شریف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے مقررہ نا اہلی کی مدت گزار چکے، اگراسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت ہوتی ہے تو الیکشن میں حصہ لینے میں رکاوٹ نہیں رہے گی،آئینی ماہرین
٭سپریم کورٹ نے ایکٹ کے تحت ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی جس کے بعد اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا، عرفان قادر کا موقف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر سیاسی شخصیات عدالتوں سے تاحیات نااہلی کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے اور ان کو ریلیف نہیں ملے گا۔چونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن سے براستہ سعودی عرب پاکستان روانہ ہو چکے ہیں اس لیے ان کا کیس خصوصاً زیر بحث ہے۔
مختلف صحافیوں سمیت ان کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ فیصلہ نواز شریف کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے اور ان کو ریلیف ملنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔سینیئر صحافی محمد مالک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کی واپسی کے منصوبے کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کے مستقبل کے حوالے سے مزید قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں جو کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی واپسی کے بعد آسانی سے حل ہو جائیں گے۔ مجھے تعجب نہیں ہوگا کہ 21 اکتوبر کی واپسی کی تاریخ میں کوئی تبدیلی ہو۔چونکہ اس قانون کی ایک شق کے تحت سوموٹو اور سپریم کورٹ کے بنیادی اختیار سماعت کے تحت فیصلہ کیے گئے کیسز میں اپیل کا حق دیا گیا تھا اوراس حق کا اطلاق ماضی میں کیے گئے تمام فیصلوں پر ہونا تھا۔ چونکہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت کیس میں کیا گیا تھا اس لیے اس کیس میں نواز شریف کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملنا تھا۔اب سپریم کورٹ نے ماضی سے اپیل کا حق دینے کی شق کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اس لیے اب نواز شریف اپنی نااہلی کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف کی نااہلی صادق اور امین نہ ہونے پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت ہوئی تھی۔ مذکورہ آرٹیکل میں نااہلی کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔بعد میں سپریم کورٹ نے ایک کیس میں آئینی تشریح کے ذریعے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔گوکہ نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر سیاستدان اس آرٹیکل کے تحت نااہل ہوئے تھے اور سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں ان کی نااہلی تاحیات قرار پائی تھی۔تاہم گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے پارلیمان کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں ترمیم کرکے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کر دیا تھا۔اس لیے بہت سے قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نواز شریف کی تاحیات ناہلی والے معاملے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے مقررہ نا اہلی کی مدت گزار چکے ہیں اس لیے اگر نیب کیسز میں نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت ہوتی ہے تو ان کے الیکشن میں حصہ لینے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں رہے گی۔آئینی امور کے ماہر کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے قانونی ماہرین میں اختلاف ہے۔‘بعض ماہرین کہتے ہیں کہ چونکہ آئین کی کسی شق میں ابہام پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی تشریح کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کی تشریح کی حیثیت بھی آئین جیسی ہے اور اسے پارلیمان کی عام قانون سازی کے ذریعے تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق گوکہ اس قانون کے مطابق نواز شریف کی نااہلی ختم ہوچکی ہے لیکن اس ترمیم کے مستقبل کا فیصلہ بھی شاید عدالت عظمی کو کرنا پڑ جائے۔ اگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو عدالت میں کسی نے چیلینج نہیں کیا تو بھی یہ معاملہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے سامنے آسکتا ہے۔ ان کے خیال میں نااہلی کی مدت کا قانون کے ذریعے تعین درست ہے کیونکہ آئین میں کسی بھی جرم پر نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہے۔ایک آئینی ماہر نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے موثر بہ ماضی اپیل کے حق کو کالعدم قرار دینے کے باوجود، نواز شریف اور جہانگیر ترین پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے الیکش ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں کی گئی ترمیم کی بدولت الیکشن لڑسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے اندر نااہلی کی مدت کم کرکے پانچ سال کی گئی ہے جو کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کی مدت تاحیات کرنے کے فیصلے کے برعکس ہے۔ نواز شریف کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے کسی آئینی عدالت کو اس ترمیمی سیکشن کو آئین سے متصادم قرار دینا پڑے گا۔ واضح رہے نواز شریف اس وقت العزیزیہ اور ایون فیلڈ نیب ریفرنسز میں سزایافتہ ہیں اور ان سزاؤں کے خلاف ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس لیے ان سزاؤں میں اسلام آباد ہائی کورٹ یا عدالت عظمیٰ کی جانب سے بریت کے بغیر نواز شریف الیکشن لڑ نہیں سکتے۔
ماہر قانون کہتے ہیں کہ ’جب 184(3) کے اختیار کو سیاسی معاملات کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو سپریم کورٹ پر سخت تنقید ہوئی‘۔پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے صورت حال کا حل نکالا جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات تقسیم کرنا گوارا کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا اور اس کے قانون سازی کے حق کی توثیق کی ہے۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے ایکٹ کے تحت ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی جس کے بعد اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکے گا‘۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصورعلی شاہ سمیت 7 ججوں نے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی۔اس کے علاوہ فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس (184/3) کے کیسزمیں اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔ اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار کے تحت ماضی میں کیے گئے فیصلوں پر اپیل نہیں کی جا سکتی لیکن یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف یا کوئی بھی متاثرہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ نظرثانی کی اپیل بھی فل کورٹ بینچ ہی سنے گا۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ نے گفتگو میں کہا کہ ’اب کوئی چیف جسٹس اپنا من پسند بینچ بنا کر ملک کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکے گا۔اگر وہ قانون و انصاف کو کچلنے کی کوشش کرے گا بھی تو ایسے فیصلے کو ایک بڑا بینچ (جس میں پہلے والے بینچ کے ججز شامل نہیں ہوں گے) اپیل کے اختیار کے ذریعے کالعدم کر سکے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’اس فیصلے سے سپریم کورٹ اپنے ہی چیف جسٹس کی آمریت سے آزاد ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس اپنے ساتھی ججوں کی مشاورت سے کام کرے گا جبکہ سپریم کورٹ ایک ادارے کے طور پر کام کرے گی‘۔امید ہے کہ اب چیف جسٹس کو بلیک میل کر کے یا اسے ہمنوا بنا کر پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنانے کا دور ختم ہو جائے گا‘۔اب ازخود نوٹس لیتے وقت چیف جسٹس یہ سوچے گا کہ پہلے تین ججوں کا بینچ بنانا ہے، اور پھر بعد میں اس سے بڑا بینچ اپیل بھی سنے گا‘۔
اب وہ بہت ہی بدقسمت ہو گا جس کے خلاف دونوں فورمز (پانچ رکنی ابتدائی بینچ اور پھر لارجر ایپلیٹ بینچ) تقریباً پوری سپریم کورٹ ہی فیصلہ دے دے۔اب سپریم کورٹ کسی فائل کو سالہا سال تک دبا کر نہیں بیٹھے گی بلکہ دو ہفتوں میں کیس کی ابتدائی سماعت ہو سکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں