فرانس میں مذہبی پابندی
شیئر کریں
(مہمان کالم)
نوری مٹسی اونیشی
اس دن درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچا ہوا تھا اور جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے سینکڑوں مسلمان ایک سابق سلاٹر ہائوس میں جمع تھے۔ وہاں پہلے ہی عوام کا ہجوم تھا اور لائوڈ ا سپیکر پر امام صاحب کی آواز سنتے ہی سینکڑوں افراد نے اپنے اپنے جائے نماز کھولے اور اسفالٹ کے بنے ہوئے فرش پر بچھا دیے۔ مغربی فرانس کے شہر اینگرز میں واقع یہ سابق سلاٹر ہائوس فرانس کے مسلمانوں کے لیے پچھلے اکیس سال سے ایک مسجد کا کام دے رہا ہے۔ گزشتہ موسم خزاں میں ایک مستقل عمارت کی تعمیر اس وقت روک دی گئی تھی جب سٹی کونسل نے متفقہ طور پر مسلمان مذہبی رہنمائوں کی طرف سے پیش کی گئی یہ تجویز متفقہ طور پر مسترد کر دی تھی کہ وہ ایک نامکمل مسجدکی ملکیت مراکش کی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ اس کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد یہ مقامی مسلمانوں کے سپرد کر دے۔ مقامی مسلمانوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لیے اٹھائیس ملین ڈالرز کا عطیہ دیا تھا مگر انہیں اس پروجیکٹ سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
فرانس میں مسجد کی تعمیر کا مرحلہ تو بھلے وقتوں میں بھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ مسلم کمیونٹی کے افراد دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں زیادہ غریب ہیں مگر جب اس مسجد کی تعمیر کے لیے غیر ملکی مخیر شخصیات سے رابطہ کیاگیا تو مسلمان کمیونٹی کے اندرونی اور بیرونی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اسلام ازم کے نام پر اسلام کے خلاف صدر ایمانوئل میکرون کے بنائے ہوئے نئے قوانین کی ا?ڑ میں مسلمانوں کی سخت جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ عنقریب ان نئے قوانین کی سینیٹ سے بھی منظوری حاصل کر لی جائے گی۔ مسلمانوںکو درپیش متنازع مسائل کا تعلق براہِ راست فرانس کے سیکولر ازم کے اصول سے ہے جس نے ریاست اور چرچ کے درمیان حفاظتی دیوار کی تعمیر ممکن بنائی تھی۔ ایک طرف جہاں تمام مذاہب کے معاملے میں ریاست خود کو غیر جانبدار قرار دیتی تھی‘ وہیں دوسری طرف اسی قانون نے ریاست کو فرانس میں موجود رومن کیتھولک چرچوں کا مالک اور رومن کیتھولکس کا سرپرست بنا دیا تھا۔ 1905ء کے قانون کے تحت کوئی سرکاری فنڈ کسی مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا مگر اس قانون کے پاس ہونے سے پہلے جتنی بھی عمارتیں تعمیر ہو چکی تھیں‘ ریاست نئے قانون کے تحت ان تمام عمارتوں کی بھی مالک بن گئی۔ ریاست ہی ان کی تعمیر و مرمت کا کام کرتی تھی اور مذہبی سروسز اور عبادات کی اجازت بھی ریاست ہی دیا کرتی تھی۔ مسلمانوں کو اس با ت کا شدید قلق تھا کہ ان کی مذہبی عبادت کی راہ میں بلاضرورت رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ اب ناقدین نے کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا ہے کہ جو سیکولر حکومت ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایک سکڑتے ہوئے مذہب یعنی کیتھولسزم پر خرچ کر رہی ہے‘ وہی سیکولر فرانسیسی حکومت فرانس کے سب سے تیزی سے پھیلتے ہوئے مذہب اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
1905ء میں فرانس میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر 1970ء کے بعد یہاں مسلمانوں کی تعدا دمیں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت فرانس میں ساٹھ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو کْل آبادی کا دس فیصد بنتے ہیں۔ ان میں سے بیس لاکھ ’’عملی‘‘ مسلمان ہیں۔ ان کے لیے پورے فرانس میں 2500 کے قریب مساجد ہیں اور 2015ئ کی سینیٹ رپورٹ کے مطابق‘ ان مساجد کو حکومت کی طرف سے کوئی سرکاری فنڈز نہیں ملتے۔فرانس میں 32 لاکھ افراد عملی طور پر مسیحیت کے پیروکار ہیں اور وہ باقاعدگی سے فرانس میں موجود 45000 چرچوں میں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں۔ ان میں سے چالیس ہزار سے زائد چرچ ریاست کی ملکیت ہیں‘ صرف پانچ ہزار چرچ حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ تفاوت ہمیں حکومت کی طرف سے نجی سکولوں کو دی گئی سبسڈیز اور ذاتی آمدنی میں سے دیے گئے عطیات میں بھی نظر آتا ہے‘ جن پر حکومت بہت زیادہ آمدنی والے ٹیکس دہندگان کوکریڈٹس دیتی ہے۔ یہ بہت واضح فرق ہے۔ صدر میکرون نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کا ’’فرانسیسی ورڑن‘‘ متعارف کرائیں گے مگر اسلام کے پیروکار ملک بھر میں مساجد کی شدید قلت محسوس کرتے ہیں۔ امام سعید آیت لاما نے جمعہ کی نماز سے قبل ایک انٹرویو میں بتایا ’’یہ ایک عجیب تضاد ہے، چونکہ مسلمان کمیونٹیز خود مساجد تعمیر کرنے کی سکت نہیں رکھتیں اور فرانسیسی حکومت بھی کوئی مد دنہیں کر رہی اس لیے اب مسلمان غیر ملکی حکومتوں سے مدد طلب کر رہے ہیں‘‘۔ صدر میکرون کے نئے قانون کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ یہ قانون سیکولر ازم کی آڑ میں اسلام کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور مذہبی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی بنایا گیا ہے جس میں بیرونِ ملک سے عطیات وصول کرنے پر سخت پابندی بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے حکومت نے کہا کہ یہ قانون ہمیں السیس کے مشرق میں ایک جامع مسجد کی تعمیر پر بیرونِ ملک سے ملنے والی رقوم کی وصولی پر پابندی لگانے کا موقع فراہم کرے گا کیونکہ السیس وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی سرکاری فنڈز سے مذہبی عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے۔ وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمین نے مقامی حکومت پر دبائو ڈال رکھا ہے کہ وہ اس مسجد کی امداد منسوخ کر دے کیونکہ اس مسجد کی تعمیر کرانے والی تنظیم کے ترک حکومت کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ اس قانون کی منظوری سے پہلے بھی اینگرز کی سٹی کونسل نے یہ مسجد تعمیر کرانے والے مسلمان رہنمائو ں کو رئیل اسٹیٹ سے متعلق قواعد و ضوابط کی مدد سے مسجد کی تعمیر کے لیے مراکش کی حکومت سے فنڈز لینے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ صدرمیکرون کے بنائے ہوئے اس قانون کی ایک شق قومی حکومت کو یہ اجازت دیتی ہے کہ اگر فرانسیسی حکومت کسی مذہبی عمارت کی ایک غیر ملکی حکومت کو فروخت کو فرانس کے لیے خطرہ سمجھتی ہے تو وہ اس کی فروخت روک سکتی ہے۔
صدر ایمانوئل میکرون کہتے ہیں کہ یہ قانون سازی اس شدت پسند آئیڈیالوجی کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے جس نے ہمارے نوجوانوں کو شام میں لڑنے کے لیے بھیجا اور 2015ء سے اب تک اسلامی شدت پسندوں کے دہشت گرد حملوں کی وجہ سے 250 فرانسیسی نوجوانوں کو موت کے منہ میں جانے پر مجبور کیا۔ گزشتہ موسم خزاں میں تین الگ الگ حملوں میں چار لوگ مارے گئے تھے مگر اس قانون کے ناقدین کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں اور اسلامی شدت پسندوں میں تمیز ختم کر دے گا حتیٰ کہ کیتھولک چرچ کے لیڈر بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسی قانون کی آڑ میں چرچ کو بھی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ فرنچ آرچ بشپ کانفرنس کے سربراہ اور فرانس کے اعلیٰ ترین عہدیدار آرچ بشپ ایرک ڈی مولینز بوفورٹ کہتے ہیں کہ 1905ء کے اس قانون کے حقِ وراثت نے فرانسیسی کیتھولسزم کو فائدہ پہنچایا ہے حالانکہ ریاست مذہبی معاملات میں نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے
آرچ بشپ ڈی مولینز بوفورٹ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’فرانس کی سابق کالونیوں سے آنے والے مسلمان تارکین وطن ابھی تک فرانسیسی معاشرے کا حصہ نہیں بن سکے اور انہیں شدید قسم کی عدم مساوات اور ناانصافی کا سامنا ہے۔ ہم ان کی مذہبی ضروریات کا بالکل خیال نہیں کر رہے‘‘۔ ایک صدی سے بھی زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود 1905ء کے قانون کے آج بھی اتنے اثرات نظر آتے ہیں کہ 2015ء کی سینیٹ رپورٹ کے مطابق‘ آج بھی کیتھولک چرچ کی نوے فیصد عمارتوں کی دیکھ بھال حکومت کرتی ہے۔ جبکہ ایک بھی مسجد کی دیکھ بھال حکومت نہیں کرتی۔ فرانس کی ایک سینیٹ رپورٹ کے مطابق مراکش اور الجزائر‘ جو دونوں سابق فرانسیسی کالونیاں ہیں‘ کے علاوہ سعودی عرب نے بھی فرانس میں درجنوںمساجد کی تعمیرمیں مدد کی ہے جیسا کہ دیگر یورپی ممالک میں کئی دہشت گرد حملے ہوئے ہیں‘ اس لیے فرانس کے حکام ایسے بیرونی اثرات کے حوالے سے بہت محتاط ہیں جس کی وجہ سے فرانس میں بسنے والے نوجوان مسلمانوں میں شدت پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ اس میں خاص کردار بیرونِ ملک سے تربیت یافتہ اماموں کا ہے۔ یونین آف ڈیمو کریٹس اینڈ انڈیپنڈنٹس سے تعلق رکھنے والی سینیٹر نتھالی گول‘ جنہوں نے سینیٹ رپورٹ لکھنے میں بھی معاونت کی تھی‘ کہتی ہیں کہ جہاں فرانس کو ان اماموں کی سخت نگرانی کرنی چاہیے وہیں ابھی تک اس بات کا کوئی ثبو ت نہیں مل سکا کہ مراکش، الجزائر اور سعودی عرب کی مدد سے تعمیر کردہ مساجد نے دہشت گردی میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔ وہ کہتی ہیں ’’ابھی تک کوئی معمولی سا ثبو ت بھی سامنے نہیں آیا کہ مساجد کو ہونے والی فنڈنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ میں کوئی لنک پایا جاتا ہو۔ سٹی کونسل نے رئیل اسٹیٹ قوانین کی ا?ڑ لیتے ہوئے متفقہ طور پر اس مسجد کی فروخت کو مسترد کر دیا؛ تاہم میئرکا کہنا تھا کہ اس فیصلے کا اہم مقصد حکومت کی طرف سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا بھی تھا کیونکہ ہمیں اپنی سرزمین پر ’’فرانسیسی اسلام‘‘ کی پریکٹس کو فروغ دینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔