خطبہ جمعہ‘فرمان نبویﷺ سے پانی کے مسئلے کا حل
شیئر کریں
ندیم الرشید
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا۔ جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس پانی کے ذریعے سے کھیتیاں اُگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔ اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔
قابل صد احترام قارئین!
سورة نحل کی آیت نمبر 9 اور 10 کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ ان مبارک آیات میں خالق کائنات‘ مالک کون ومکاں‘ ذاتِ لم یزل اور خدائے بزرگ و برتر نے پانی اور اس سے پیدا ہونے والی اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
قارئین مکرم!
پانی صرف پینے کی چیز ہی نہیں بلکہ رب کائنات کے دعویٰ توحید کی عقلی دلیل بھی ہے‘ پانی صرف ایک عنصر ہی نہیں بلکہ خدائے وحدہ لا شریک کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر بھی ہے۔اور پانی صرف ہائیڈروجن اور آکسیجن کا ملاپ ہی نہیں بلکہ حیوانات سے جنگلات تک‘ انسانی حیات سے عبادات تک اور ماحولیات سے زراعت تک ان تمام چیزوں کے وجود کا ضامن بھی ہے۔اسی لیے باری تعالیٰ نے سورة زمر کی 20ویں آیت میں پانی سے وابستہ ان چار نظاموں کو ذکر فرمایا ہے جن کے ہونے سے زندگی موجود ہے اور نہ ہونے سے زندگی مفقود ہے۔
(1) بارش کا نظام (2) زیر زمین پانی کے ذخائر کا نظام(3) زراعت کا نظام(4) زراعت کے نتیجے میں انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا نظام۔ یعنی آسمان سے بارش کے ذریعے پانی برستا ہے جو زیر زمین ذخائر میں تبدیل ہوتا ہے وہاں سے زراعت کے کام آتا ہے زراعت سے کھیتیاں جب پک کر سوکھتی ہیں تو انسانوں کو دانہ ملتا ہے اور زرد پڑتی ہیں تو بھس بنتی ہیں جس سے جانوروں کو خوراک میسر آتی ہے۔
محترم قارئین!
جب پانی ایسی بنیادی ضرورت ہے تو پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ شرعِ محمدی اور دین ابدی میں اس کے لیے کوئی حکم نہ ہو۔ اسلام میں پانی کو خوامخواہ گندہ کرنے اور اسے ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
صیحین کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی شخص سوکر اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس کو تین مرتبہ دھونہ لے کیونکہ اس کو نہیں معلوم کہ رات کو اس کاہاتھ کہاں رہا۔
قارئین گرامی!
ہاتھ کے گندہ ہونے کے امکان سے برتن میں موجود پانی کے گندہ ہونے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔
تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے پانی کے گندہ ہونے کے امکان کو بھی ختم کرانے کے لیے حکم فرما دیا کہ جب تک تین مرتبہ ہاتھوں کو دھو نہ لو اس وقت تک پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو۔ اور آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو گندہ نہ کرنے کا مطلب اسے صاف رکھنا ہوتا ہے۔
پانی ضائع کرنے کے حوالے سے کیا حکم ہے۔
حضرت عبداللہ ؓ بن عمروؓ بن العاص فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ حضرت سعد کے پاس سے گزرے ‘ حضرت سعد و ضو فرمارہے تھے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا” اے سعد! یہ کیا اسراف ہے؟ حضرت سعد نے کہا”اے اللہ کے نبی کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا جی ہاں! خواہ آپ بہتی ہوئی نہر کے کنارے پر ہی کیوں نہ ہوں۔(مسند احمد 6768:)
اس حدیث شریف کے برعکس ہمارا طرز عمل کیا ہے؟ ایک تحقیق کے مطابق جب ہم فلش ٹینک استعمال کرتے ہیں تو ایک دن میں ایک آدمی تقریباً25 لیٹر پانی خرچ کرتا ہے ‘ دانت صاف کرتے ہوئے اگر نل کھلا رہے تو اس سے 13 لیٹر پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ گرم پانی سے نہانے کے لئے ہم گرم پانی کی آمد کا انتظار کرتے ہیں تو ٹھنڈے پائپوں سے شاور تک گرم پانی آتے آتے 35 لیٹر پانی خرچ ہو جاتا ہے۔ برتن دھوتے ہوئے مسلسل نل کھلا رکھنے سے پچاس لیٹر پانی ضائع ہوتا ہے۔ پائپ کے ذریعے گاڑی دھونے سے180 لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ رستے ہوئے پائپوں سے 24گھنٹوں میں 90 لیٹر پانی کا اخراج ہوتا ہے بیت الخلاءکے زنگ دار پائپوں‘ نلوں‘ ٹینکوں سے پانی کے اخراج کی شرح اوسطاً 60 لیٹر روزانہ ہوتی ہے۔
اگر ایک ایئر کنڈیشن روزانہ چھ گھنٹے چلے تو اس سے 45 لیٹر پانی کا اخراج ہوتا ہے‘ کراچی میں گرمیوں میں اگر 20لاکھ ایئر کنڈیشن کام کررہے ہوں تو پانی کے اخراج کی شرح 90لاکھ لیٹر تک پہنچ جاتی ہے‘ اس شرح سے پاکستان کے تمام شہروں اور دنیا بھر میں ضائع ہونے والے پانی کی مقدار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج پانی کا مسئلہ پوری دنیا بالخصوص پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ میٹھے پانی کے ذخائر لا محدود نہیں ہیں۔
1947ءمیں ہر پاکستانی کو تقریباً پانچ ہزار کیوبک میٹر ” پانی میسر تھا اب یہ شرح صرف” ایک ہزار کیوبک میٹر ” رہ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں پانی بچانے کے اقدامات نہ ہوئے تو 2050ءتک یہ شرح صرف 500 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی۔ اس کے بعد کیاہوگا؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اگر ہم اس عالمی مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو واحد حل یہی ہے کہ ہم پانی کے حوالے سے آپ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کردیں اور ہر صورت پانی کے اسراف سے بچیں۔
وما علینا الالبلاغ