پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ ،قومی خزانے کواربوں ڈالر کانقصان پہنچانے والے ملزمان آزاد
شیئر کریں
(رپورٹ: فرحان راجپوت)پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل)میگا کرپشن اسکینڈل میں قومی خزانے کو19ارب45کروڑ50 یعنی12کروڑ16لاکھ ڈالر کانقصان پہنچانے میں ملوث5بااثر ملزمان ضمانتوں پر آزاد ہیں۔ نیب حکام شواہد ہونے کے باوجود ملزمان کی ضمانتیں منسوخ نہیں کراسکے ، مرکزی ملزم پی پی ایل کے سابق ایم ڈی سی ای او عاصم مرتضیٰ خان نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر برطانوی Moravske Noftove Dolly(MND)آئل گیس کمپنی سے ڈالرز کی مد میں بہت زیادہ نرخ پر اثاثے خریدے تھے، جبکہ مذکورہ کمپنی نے کیمپ آفس پاکستان میں ہی بنایا ہوا ہے، برطانوی کمپنی Pavel Marekکی ہے جو کہ کمپنی کا مالک اور ڈائریکٹر بھی ہے اور چیک ری پبلک کا رہائشی ہے اور گرفتاری کے خوف سے بھی روپوش ہے۔ ملزمان نے مذکورہ کمپنی کے اثاثے خریدنے کے دوران بڑے پیمانے پر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا تھا۔نیب کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام کو شکایت موصول ہوئی تھی کہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی انتظامیہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کی مرتکب ہوئی ہے اور مارکیٹ سے بہت ہی زیادہ ریٹ پر برطانوی Moravske Noftove Dolly(MND)آئل گیس کمپنی شیئرز اثاثے خریدے ہیں جس سے قومی خزانے کو بہت نقصان ہوا ہے، مذکورہ کمپنی چیک ری پبلک کے رہائشی Pavel Marekکی ہے اور پاکستان میں کمپنی کا کیمپ آفس ہے جس پر اعلیٰ حکام کی ہدایت پر تحقیقات عمل میں لائی گئی، تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ پی پی ایل اور مذکورہ انگلش کمپنی آئل گیس کے شعبے میں کام کرتی ہیں، دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے پارٹنر شپ کے دوران شیئرز بھی مقرر کیے ہوئے تھے، تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ ملزم مرتضیٰ علی خان کو بحیثیت ایم ڈی پی پی ایل First Energyکی طرف ای میل موصول ہوئی، یہ فنانس ایڈوائزری کمپنی ملزمPavel Marekکی ہی تھی جس میں مذکورہ کمپنی نے پی پی ایل کو پیشکش کی گئی کہMND کے اثاثے فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ یہی ای میل ملزم عاصم مرتضیٰ خان نے پی پی ایل کے بزنس ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کردی جس کے منیجر ملزم عبدالواحد ہیں جس کے بعد ملزم عاصم مرتضیٰ خان نے ملزمان عبدالواحد اور چیف ای سی او پی پی ایل راحت حسین کے ساتھ ملکر کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے لیٹر جاری کیا اورKasb گروپ سے تعلق رکھنے والے خاقان سعد اللہ کی خدمات بھی حاصل کرلیں جس کے بعد ملزمان عاصم مرتضیٰ خان،عبدالواحد اور راحت حسین کے ساتھ ملکر بورڈ آپریشن کمیٹی کے اجلاس سے قبل نوٹس تیار کیے تاکہ کمیٹی کے سامنے رکھ کر منظوری حاصل کی جائے، پھر بورڈ نے MNDکے اثاثے اور شیئرز جو پاکستان اور یمن میں تھے انہیں خریدنے کی منظوری دی جس کے لیے رقم کا تخمینہ بھی لگایا گیا۔تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران سامنے آیا کہ ملزم مرتضیٰ علی خان نے نوٹس شیٹ جمع کرانے سے قبل بورڈ آف ڈائریکٹر کا اجلاس بلایا جس میں بورڈ آف ڈائریکٹر کو غلط معلومات فراہم کی گئی، مذکورہ انگلش کمپنی کے شیئرز اور اثاثوں کی ملکیت سے متعلق گمراہ کیا گیا، جبکہ اصل میں کمپنی کی اتنی ویلیو نہیں تھی جتنا ظاہر کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس سے کچھ منٹ قبل ملزمان عاصم مرتضیٰ خان،عبدالواحد اور راحت حسین نوٹ شیٹ میں ردوبدل کیا کہ ہمیں کمپنی کے اثاثے شیئر خریدنے سے کوئی نقصان نہیں ہے، کمپنی بھی معروف ہے۔ مذکورہ ملزمان کا مقصد صرف مالی فوائد حاصل کرنا ہی تھا جس کے بعد ملزم ہدایت اللہ پیرزادہ(مرحوم) کی سربراہی میں بورڈ آف ڈائریکٹر کا اجلاس ہوا اور ملزمان نے ملزمPavel Marekکے حق میں منظوری حاصل کرلی، بورڈ نے اثاثے ڈالرز کی مد میں کم پیسوں میں خریدنے کی منظوری دی تھی، لیکن مذکورہ ملزمان نے جعل سازی کرکے پیسوں میں اضافہ کردیا تھا جس سے غیر ملکی کو ہی فائدہ ہوا تھا، جس کے بعد پی پی ایل کے ملزمان نے پیسوں کی ادائیگی ملزمPavel Marekکے اکاوئنٹ نمبر89903322برطانویBarclays bank pic 1جو کہChurchill place میں واقع ہے اسی طرح ملزم مرتضیٰ علی خان نے انگلش ملزم کے سوئس اکاوئنٹ میں بھی فائنل ادائیگی کی تھی جس کے شواہد موجود ہیں اور تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ تمام ملزمان نے اپنے اپنے عہدوں اور اختیارات کا غلط استعال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران سامنے آیا کہ ساجد زاہد،سیف اللہ پراچہ،سعید اختر،شیر خان اور حامد اصغر بھی بورڈ آف ڈائریکٹر کا حصہ تھے، جس اجلاس میں پیسوں کی ادائیگی کی منظوری دی گئی تھی، لیکن ان افراد سے متعلق ایسے شواہد نہیں ملے کہ یہ لوگ اسکینڈل میں ملوث ہیں، کیونکہ یہ لوگ اس فیلڈ کے ایکسپرٹ ہی نہیں تھے نہ ہی جعل سازی سے کام لیا ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ملزمان عاصم مرتضیٰ خان سابق ایم ڈی سی ای او پی پی ایل،جنرل منیجر عبدالواحد،چیف ای سی او راحت حسین،ایڈوائزر کے ایس بی خاقان سعد اللہ۔ڈی ایم ڈی آپریشنل معین رضا خان اورملزمPavel Marek جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، ملزمان نے قومی خزانے کو19ارب45کروڑ50لاکھ روپے،12کروڑ16لاکھ ڈالرز کا نقصان پہنچایا ہے جن کے خلاف دستاویزی شواہد بھی موجو ہیں اور ملزمان کے خلاف گواہ بھی دستیاب ہیں۔ ملنے والے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں،پی پی ایل میگا کرپشن اسکینڈل کے رنفرنس میں نامزد ملزمان ضمانتوں پر آزاد ہیں اور نیب حکام شواہد موجود ہونے کے باوجود ضمانتیں منسوخ نہیں کراسکے ہیں اور ملزمان بڑے اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باوجود کاروبار اور نوکری بھی کررہے ہیں۔