اسرائیل کی آبادی اور حجاز مقدس کی بربادی
شیئر کریں
’’اسرائیل سے سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک دراصل مسئلہ فلسطین سے غداری کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں ‘‘۔یہ الفاظ ترکی کے صدر طیب اردوان کی زبان اقدس سے چند ہفتے قبل ہی ادا ہوئے تھے لیکن حیران کن با ت یہ ہے کہ اسرائیل مخالف یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی ’’دیوارِ گریہ‘‘ سے ابھی پوری طرح سے مٹنے بھی نہ پایا تھاکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دے کرفلسطینیوں پر بجلی گرادی کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے اسرائیل کے ساتھ گزشتہ دو برسوں سے منقطع اپنے سفارتی تعلقات یکطرفہ طورپربحال کرتے ہوئے ، اپنے سب سے متعمد اور قریبی رفیق جناب اُفق التاش کو اسرائیل میں ترکی کا باضابطہ سفیر تعینات کردیا ہے۔یقینا ترکی کی وزارت خارجہ اسرائیل میں اپنا سفیر تعینات کرنے کے حوالے سے بہترین اور پرمغز دلائل و براہین پر مشتمل ’’سفارتی جواز ‘‘ بھی جلد ہی ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کردے گی لیکن جو سادہ لوح افراد اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ ترکی مستقبل میں پاکستان کے علاوہ ،وہ دوسر امسلم ملک ہوگاجو ارضِ فلسطین کی آزادی کے لیے اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوگا۔ افسوس ایسے مثبت نظریات و خیالات رکھنے والوں کی ساری خوش فہی دور ہوگئی ہے۔نیز طیب اردوان کے اس فیصلے نے جہاں مظلوم فلسطینیوں کو شدید مایوسی سے دوچار کردیا ہے ،وہیں ترکی کے اسرائیل نواز اِس ’’سفارتی اقدام‘‘ نے پاکستانیوں کو بھی عجیب مخمصے میں مبتلاء کردیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی سوشل میڈیا میں گزشتہ چند برسوں سے ترکی کو ایک بار پھر سے دنیا کے اُفق پر اُبھرتی ہوئی نئی ’’سلطنتِ عثمانیہ‘‘ کے روپ میں پیش کیا جارہا تھا ۔جبکہ طیب اردوان کا موازنہ سلطنتِ عثمانیہ کے آخری خلیفہ جناب سلطان عبدالحمید ؒ کی سیاسی و سفارتی بصیرت کے ساتھ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جنہوں نے ’’یروشلم ‘‘کے تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ ترکی اور اسرائیل کے مابین استوار ہونے والے سفارتی تعلقات سے بہت سے خوش عقیدہ لوگوں کا یہ خواب بھی ضرور چکنا چور ہوگیا ہوگا۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ ترکی کی جانب سے ابھی تک یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ یک طرفہ طو رپر اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بنیادی وجہ امریکا کو چیلنج کرنا ہے۔کیونکہ امریکا نے روس سے دفاع ساز و سامان خریدنے کی پاداش میں ترکی پر سخت ترین تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی کا یہ دعوی کتنا ہی حقیقی ہو۔مگر ایک عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس طرح امریکی پابندیوں کے جواب میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے امریکا کو’’سفارتی زک‘‘ پہنچائی جاسکتی ہے؟۔ حالانکہ اگر ایسا ہی کوئی ’’ سفارتی فیصلہ ‘‘ سلطنتِ عثمانیہ کے آخری حکمران جناب سلطان عبدالحمید بھی کر گزرتے تو بلاشبہ آج بھی سلطنتِ عثمانیہ پورے آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہوتی ۔ کیونکہ تاریخ کی کتب میں صراحت کے ساتھ درج ہے کہ اُس وقت کے معتبر ترین یہودی رہنماؤں نے سلطان عبدالحمید کو پیشکش کی تھی کہ ’’اگر خلفیہ یہودیوں کو ارضِ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دے تو پھر وہ سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں ‘‘۔لیکن سلطان عبدالحمید نے یہ کہہ کر یہودیوں کی ’’سیاسی پیشکش ‘‘کو رد کردیا تھا کہ ’’اُن کے نزدیک ارضِ فلسطین پر صرف مسلمانوں کا حق ہے اور یروشلم کی سرزمین پر کسی بھی صورت یہودیوں کو آباد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
دراصل دنیا بھر کے مسلمانوں کو امریکا سے فقط ایک ہی تو دیرینہ شکایت رہی ہے کہ اُس نے اسرائیل کو اپنا بغل بچہ بنایا ہوا ہے ،اگر امریکا آج یہودیوں کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کی سیاسی حمایت کا اعلان کردے تو یقین مانیے !کل سے مسلم دنیا امریکا کے حق میں رطب اللسان نظر آئے گی اور امریکا سے مسلمانوں کے سارے گلے شکوے ختم ہوجائیں گے۔کیونکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں شام سے لے کر عراق تک اور لیبیا سے لے کر افغانستان تک میں ہونے والی امریکا کی ہر عسکری کاروائی کے اصل ماسٹر مائنڈ اسرائیلی ہی ہیں ۔جبکہ اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگا کہ اِن تمام مسلم ممالک میں ہونے والی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی سے امریکی عوام کو تو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوا ،مگربلادِ عرب میں جنگ کی آڑ میں جس ایک ملک نے خوب سیاسی ،سفارتی و معاشی استحکام اور فوائد حاصل کیے ہیں ،اُس ملک کا نام اسرائیل ہے۔
لہٰذا ،ان حقائق کے پیش نظر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات سے مظلوم فلسطینیوں کی پریشانی اور بے سروسامانی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔جبکہ آزاد فلسطین ریاست کا قیام کا خواب بھی ناممکن الحصول ہوجائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ بھی بڑھے گا ۔خاص طور پر ہمارے ملک کا وہ اقلیتی لبرل طبقہ جو ہمیشہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند رہا ہے ،اُسے متحرک ہونے کا سنہری موقع میسر آگیاہے۔پس ! ان کی جانب سے سننے کو مل رہاہے کہ ’’دیکھو جی ! اَب تو ترکی نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرلیئے ہیں ،پاکستان کس انتظار میں ہے؟‘‘۔
سچ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ترکی ہی وہ پہلا ملک تھا ،جس نے 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اُس کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرلیئے تھے ۔اس لیے ترکی اور اسرائیل کا ایک دوسرے کے قریب آنا کوئی اچنبھے کی بات ہر گز نہیں ہے ۔لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ اس بار ترکی کے صدر طیب اردوان، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہے ہیں ۔ حالانکہ طیب اردوان کی پہچان ہمیشہ ہی سے اسرائیل پر سخت کڑی تنقید کرنے والے مسلم حکمران کی رہی ہے ۔ ایسے میں اُن کی جانب سے اسرائیل کی طرف’’ سفارتی دوستی ‘‘کا ہاتھ بڑھانا۔ بلاشبہ حالیہ وقتوں میں اسرائیل کی سب سے بڑی سفارتی و سیاسی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔
لیکن دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ترکی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات بحال کر کے نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنے آپ کو’’بہتر چوائس ‘‘کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو ساتھ ہی ترکی اپنے اس اقدام سے’’ ’اسرائیل‘‘ کو متحدہ عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے۔ اگرتھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ ترکی کی یہ ’’سیاسی مجبوری‘‘ بالکل درست ہے اور طیب اردوان واقعی امریکا میں جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکا سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔تاکہ مستقبل میں عالمی سیاسی منظرنامہ میں اپنے لیئے’’معاشی گنجائشیں‘‘ نکال سکے ۔ مگر اصل مصیبت تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی سیاسی زاویے یا سفارتی پہلو سے تجزیہ کر کے دیکھ لیں بہر کیف عرب ممالک کے بعد ترکی اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے احیاء سے جیت اسرائیل کی ہی ہوئی ہے اور ہار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مظلوم فلسطینیوں کے ہی حصہ میں آئی ہے۔
بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ایک صدی سے دنیا بھر میں ظلم و ستم کا شکار اور خجل خوار ہونے کے باوجود بھی آج تک مسلم حکمرانوں اور رہنماؤں کو سمجھ نہیں آئی کہ اُن کا اصل دشمن کون ہے؟۔ ایک وقت تک مسلمان روس کو اپنا حریف خیال کرتے رہے اور آج امریکا کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے کل میں یہ اچانک سے چین کو اپنا مخالف سمجھنے لگ جائیں ۔ حالانکہ قرآن حکیم ،فرقان حمید ،چودہ سو سال پہلے پوری صراحت کے ساتھ فرما چکا ہے کہ ’’اے مسلمانو! یہودی کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے‘‘۔اس فرمانِ عالی شان کا سادہ سے مطلب تو یہ ہوا کہ ہم مسلمانوں کا اصل مخالف ،حریف اور دشمن صرف اور صرف یہودی ہی ہیں ۔جبکہ امریکا ہو یا برطانیا اِن تمام ممالک کی حیثیت یہودیوں کے آلہ کار اور سہولت کارسے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ حقیقت احوال بھی یہ ہی ہے کہ امریکا ہو یابرطانیہ حتی کہ یورپ میں سے بھی کوئی ایک ملک ایسا نہیںہے جسے ہمارے مقدس مقامات مکہ ،مدینہ ،ارض فلسطین یا حجاز مقدس کے کسی گوشہ پر ملکیت کا دعوی یا پھر ان علاقوں پر قبضہ کرنے کا شوق ہو۔ اس کے برعکس اہل یہود ہمیشہ ہی سے مسلمانوں کی سرزمین، حجاز مقدس پر نہ صرف دعوی ملکیت کرتے رہے ہیں بلکہ وہ تو ان مقامات پر قابض ہونے کا مذموم ارادہ اور نیت بھی پر رکھتے ہیں ۔اسرائیلی ریاست کا قیام بھی یہودی فقط اس لیے ہی چاہتے ہیں کہ بعدازاں وہ اسرائیل کے ذریعے تمام سرزمین حجاز پر قابض ہوسکیں اورغالب امکان یہ ہی ہے کہ اپنے اس دیرینہ مذہبی فریضہ کو پورا کرنے کے بعد وہ خطہ عرب میں کسی ایک مسلم ریاست کا وجود بھی برداشت نہیں کریں گے ۔لہٰذا اسرائیل کا قیام دراصل خطہ عرب وعجم سے مسلم ممالک کے مکمل خاتمے پر جاکر ہی منتج ہوگا۔لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ مسلمان حکمران اپنے ازلی دشمن اسرائیل کے ساتھ تو دوستی کے لیے تو مچل رہے ہیں مگر اسرائیلیوں کے جو مہرے ہیں انہیں اپنا دشمن ِ جان و ایمان سمجھے بیٹھے ہیں ۔ شاید ایسے موقع پر ہی کہتے ہیں کہ ’’کہیں پر تیر اور کہیں پر نشانہ ‘‘۔ اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اہلِ مسلم کی جان و ایمان کو فقط اسرائیلی ریاست کے قیام سے ہی خطرہ ہے یعنی اسرائیل کے نرغے میں فقط فلسطینی ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ آنے کو ہے لیکن اس خطرے کا ادرک ریاست پاکستان کے علاوہ دنیا کی کسی دوسری مسلم ریاست کو سرے سے ہے ہی نہیں ۔بقول شاعر
وہی ظالم ہیں شعلہ بار،انسانوں کی بستی پر
وہ اسرائیل جن پر بارش اکرام ہے ساقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔