موٹروے زیادتی کیس واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم
شیئر کریں
لاہور ہائیکورٹ نے لاہور،سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعہ کے تمام ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیس میں ماورائے عدالت کوئی کام نہیں ہونا چاہیے، ملزمان کو پکڑ کر ٹرائل کریں اور قانون کے مطابق سزا دیں،فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او کے بیان پر پوری کابینہ کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے لاہور ،سیالکوٹ موٹر زیادتی کیس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران درخواست گزار اور سرکاری وکیل پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں کیپٹل سٹی پولیس آفیسر عمر شیخ کی جانب سے موٹروے ریپ کیس کے بعد دئیے گئے متنازعہ بیان کا معاملہ بھی آیا جس پر عدالت نے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔دوران سماعت درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ یہ کیس انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے استدعا ہے کہ کمیشن بنانیکاحکم دیا جائے ۔چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے استفسار کیا کمیشن کیسے تشکیل پاتا ہے، جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ قانون میں تو کمیشن حکومت تشکیل دیتی ہے جس پر فاضل عدالت نے کہا کہ مجھے قانون بتادیں ۔سرکاری وکیل نے عدالت میں بیان دیا کہ اس کیس میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسی انکوائری ہے کہ محکمے کا سربراہ مظلوم کو غلط کہنے پر تل جائے۔اس دوران سرکاری وکیل نے بتایا کہ وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیر قانون کا کیا کام ہے۔سی سی پی او لاہور کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ سی سی پی او کے بیان پر تو پوری پنجاب کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی۔اگر اس ذہن کے ساتھ تفتیش ہو رہی ہے تو پتا نہیں کتنی حقیقت اور کتنی ڈرامے بازی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ ایک مشیر بھی وہاں پہنچا ہوا تھا، اس کا کیا کام ہے۔بعد ازاں عدالت نے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو ریکارڈ سمیت دوپہر ایک بجے تک طلب کرتے حکم دیا کہ اب تک جو تفتیش ہوئی ہے اس کا ریکارڈ لے کر آئیں اوراگر سی سی پی او کو شو کاز ہوا ہے تو وہ بھی لائیں اور ریکارڈ بھی لے کہ آئیں جس کے بعد سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا۔وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی حکم پر سی سی او عمر شیخ پیش ہوئے۔اس موقع پر چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ آپ نے وہ نوٹیفکیشن دینا تھا جس کے تحت انکوائری کمیٹی بنی ہے، جس پر وکیل نے صوبائی وزیر قانون کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کردیا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہاں کمیٹی، کمیٹی نہیں کھیلا جاسکتا، یہ بتائیں کمیٹی میں کون کون ہے جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ وزیر قانون، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، فرانزک اور دیگر افسران کمیٹی کے رکن ہیں۔سرکاری وکیل کی بات پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کمیٹی نے 13 ستمبر کو رپورٹ دینی تھی کیا رپورٹ آئی ہے ۔نفی میں جواب آنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی وائرلیس کریں اور رپورٹ فوری منگوائیں۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران پوچھا کہ آئی جی نے سی سی پی او کو کیا شوکاز نوٹس دیا ہے، اس پر وکیل نے بتایا کہ آئی جی نے موٹروے ریپ کیس کے بارے میں متنازعہ بیان دینے پر سی سی پی او کو نوٹس دیا ہے اور سات دن میں جواب مانگا ہے۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ اگر سی سی پی او تسلی بخش جواب نہیں دیتے تو ان کے خلاف ریفرنس بنا کر بھیجا جائے گا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں کسی رولز کا ذکر نہیں ہے کہ کس قانون کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر عدالت میں موجود سی سی پی او نے کچھ کہنے کی استدعا کی۔۔بعد ازاں عدالت نے موٹروے ریپ کیس کے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے سی سی پی او سے واقعے سے متعلق تفصیلی تحریری رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے آئی جی پنجاب کو پورے صوبے کے روٹس کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے کہا کہ دیہات کی سڑکوں پر پولیس روز دوگھنٹے گشت کرے، ساتھ ہی میڈیا کو بھی کہا کہ وہ کوئی ایسی چیز رپورٹ نہ کرے جو ملزم کو فائدہ دے سکتی ہو۔چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ریپ کیس میں ماورائے عدالت کوئی کام نہیں ہونا چاہیے، ملزمان کو پکڑ کر ٹرائل کرکے قانون کے مطابق سزا دیں۔عدالت نے کیس کی سماعت کل ( بدھ) تک ملتوی کردی ۔