میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کورنگی میں چارمنزلہ رہائشی عمارت زمین بوس 7افراد جاں بحق ،متعدد زخمی

کورنگی میں چارمنزلہ رہائشی عمارت زمین بوس 7افراد جاں بحق ،متعدد زخمی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۱ ستمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

کراچی شرقی کے علاقے کورنگی اللہ والا ٹاؤن میں چار منزلہ رہائشی عمارت زمیں بوس ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں 7افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ ملبے تلے کئی افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں کورنگی کراسنگ اللہ والا ٹاون کے قریب رہائشی عمارت گرگئی، جس کے باعث ملبے تلے کئی افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے، عمارت چار سے 5منزلہ تھی۔واقعے کے بعد امدادی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں ہیں اور امدادی سرگرمیاں جاری ہے، ریسکیوذرائع کا کہنا ہے کہ عمارت کے ملبے سے 7افراد کی لاشیں نکال لی گئی جبکہ خواتین اوربچوں سمیت 8 افراد زندہ نکالا گیا ہے۔امدادی ٹیموں اورپولیس کی مدد سے زخمیوں کوملبے سے نکالنے کی کوشش جاری ہے، ملبے سے نکالے گئے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ پاک فوج کے اہلکار امدادی کارروائیوں کیلئے جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔دو ہیوی مشینری کے ذریعے عمارت کے ملبے کو ہٹایا جارہاہے اور ملبے کے بڑے بلاکس ہیوی مشینری سے اٹھائے جارہے ہیں۔عمارت گرنے سے ساتھ کی عمارت کوبھی نقصان پہنچا اور جائے حادثہ پردائیں اور بائیں جانب کی عمارتیں بھی مخدوش ہوگئیں۔لاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ عمارت میں15سے20خاندان رہائش پذیرتھے جبکہ ملبے میں 20سے 25افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔عینی شاہد کا کہنا ہے کہ عمارت چائناکٹنگ پر بنی ہوئی تھی ، نوٹس بھی جاری ہوا تھا ، عمارت کے ملبے سے آوازیں آرہی ہیں، عمارت میں رہنے والے زیادہ تر غریب اور سارے کرایے دار تھے، عمارت کے اندر 30سے35لوگ موجود ہیں۔ زمین بوس ہونیوالی عمارت کی زمین کے نقشے سے ظاہر ہوتاہے کہ عمارت غیرقانونی ہونے کے باوجود ایس بی سی اے نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ایس بی سی اے حکام کا کہنا ہے کہ رفاعی پلاٹ 22596اسکوائر یارڈ پر مشتمل تھا، یہ رفاعی پلاٹ پلے گراؤنڈ تھا، رفاعی پلاٹ کے نقشے کے مطابق ایک حصے پرغیرقانونی تعمیرات تھیں، پلے گراؤنڈ کے حصے پراور بھی غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی ماہ پہلے عمارت کو مخدوش قرار دیا گیا، مخدوش قرار دینے کے بعد 6فلیٹوں کے رہائشی جا چکے تھے جبکہ 2فلیٹوں کے مکین فلیٹ خالی نہیں کررہے تھے۔ذرائع کے مطابق بلڈر نے عمارت غیر قانونی بنائی تھی، ایس بی سی اے اور ملی بھگت سے غیر قانونی عمارت بناکر فلیٹ بیچے گئے، عمارت بنانے میں میٹریل بھی ناقص معیارکااستعمال کیاگیا۔واقعے سے متعلق کورنگی انڈسٹریل ایریا کے اسٹیشن ہاؤس افسر(ایس ایچ او)نے بتایا کہ مذکورہ عمارت 5 منزلہ تھی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ2 روز قبل عمارت خالی کرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے تھے۔عمارت منہدم ہوجانے کے بعد پولیس کی جانب سے اس سے ملحقہ دوسری عمارت کو خالی کرائے جانے کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار ذوالفقار کی فیملی بھی اسی مکان میں رہائش پذیر ہے، تاہم ذوالفقار اپنے اہل خانہ کو فون کر رہے ہیں مگر کوئی رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ایدھی فانڈیشن اور چھیپا ویلفیئر کے رضاکار بھی امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ذرائع کے مطابق علاقہ گنجان آباد اور رش والی جگہ ہونے کے باعث امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔علاوہ مکینوں نے بتایا کہ منہدم عمارت میں کم از کم 3 خاندان مقیم تھے جبکہ ملبے تلے دبے افراد کی جانب سے مدد کے لیے آوازیں بھی دی گئیں۔دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی اے) کورنگی کے ڈائریکٹر آصف رضوی نے بتایا کہ عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ عمارت چائنا کٹنگ کی زمین پر بنائی گئی تھی، اس عمارت کا کوئی نقشہ یا اپروول پلان نہیں تھا۔خیال رہے کہ رواں برس کے دوران کراچی میں کسی رہائشی عمارت کے گرنے کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔رواں برس سب سے ہولناک حادثہ 6 مارچ کو گلبہار میں پیش آیا تھا جہاں کثیر المنزلہ عمارت گرنے سے 27 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔اس حادثے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایس بی سی اے کے عہدیداروں نے رشوت لے کر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی تھی۔بعدازاں 8 جون کوکراچی کے علاقے لیاری میں 5 منزلہ رہائشی عمارت منہدم ہونے کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اس حادثے کے بعد وزیر اطلاعات و بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ نسیم الثانی کو ہدایت دی تھی کہ وہ شہر میں غیر قانونی عمارتوں کی نشاندہی کریں اور متعلقہ بلڈرز کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔علاوہ ازیں 8 جولائی کو لیاقت آباد میں سندھی ہوٹل کے قریب 5 منزلہ مخدوش عمارت زمین بوس ہوگئی تھی تاہم متاثرہ عمارت کو پولیس اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ایک روز قبل ہی خالی کراولیا گیا تھا جس کے باعث اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں