بنگلہ دیش کا سبق
شیئر کریں
مختار عاقل
سوشل اور پرنٹ میڈیا پر ان دنوں ایک تصویر کا بڑا چرچا اور شہرہ ہے۔ تصویر مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس کی ہے جس کی صدارت وزیر اعظم میاں نواز شریف کررہے ہیں۔ وہ صوفے پر بیٹھے ہیں۔ ان کے بالمقابل ان کے بھائی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی صوفے پر براجمان ہیں۔ درمیان میں ایک ہی صوفے پر تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سید مراد علی شاہ (سندھ) پرویز خٹک (خیبرپختونخوا) اور نواب ثناءاللہ زہری (بلوچستان) تشریف فرما ہیں۔ اس تصویر کو مختلف معنی پہنائے جارہے ہیں۔ تین چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی ایک ہی صوفے پر نشست کو ان کی ”اوقات“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی وزیر اعظم کے بالمقابل ایک صوفے پر تنہا نشست کو ان کی ”بادشاہت“ کے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لکھا جارہا ہے کہ ”مشترکہ مفادات کی کونسل“ کے اجلاس کی یہ تصویر اصل حقیقت کو آشکار کررہی ہے کہ بڑے صوبے اور مرکز کے نزدیک چھوٹے صوبوں کی کیا حیثیت ہے اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے انہیں کیا ملے گا؟ کالا باغ ڈیم جیسے سندھ دشمن منصوبے کو بار بار شروع کرنے کی بات کی جاتی ہے‘ آخر کیوں؟
قیام پاکستان کے بعد کچھ ایسے ہی سوالات مشرقی پاکستان میں شروع کیے گئے تھے جو بڑھتے بڑھتے نفرتوں کا سیلاب بن گئے اور پاکستان کی یکجہتی اور استحکام اس کی نذر ہوگئے۔ پاکستان دولخت ہوکر بنگلہ دیش وجود میں آگیا‘ مشرقی پاکستان سے مبینہ زیادتیوں کو ہوا دے کر نفرت کی ایسی آگ بھڑکائی گئی کہ سب کچھ جل گیا۔ اسلام کا ایک سبق یہ ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن جب بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے پروپیگنڈہ کیا کہ انہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے تو نفرتوں کا زہر اور تیز ہوگیا۔ مذہب کے سبق پر ہندوﺅں اور بنگالی انتہا پسندوں کا پڑھایا ہوا سبق غالب آگیا۔ متحدہ پاکستان دو قومی نظریے پر قائم ہوا تھا یعنی ہندو اور مسلمان‘ لیکن جب ہندوﺅں نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کے ذہنوں میں نفرتوں کا زہر بھر دیا تو 25 لاکھ مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے اور بنگلہ دیش بن گیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا ”ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیر ہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ہندوﺅں نے ”وطنیت“ کی آگ ایسی بھڑکائی اور مغربی پاکستان کے خلاف ایسا گمراہ کن اور زہریلا پراپیگنڈہ کیا کہ آنکھوں پر پٹی بندھ گئی اور مسلمان ہی مسلمانوں کو مارنے پر کمر بستہ ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے بعد جو محصورین بچے‘ انہیں غلیظ اور بوسیدہ کیمپوں میں دھکیل دیا گیا۔ یہ محصورین آج بھی بنگلہ دیش کی سرزمین پر بنیادی انسانی حقوق سے محروم خیرات کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ منقسم خاندانوں کے جو لوگ 1971 ءاور اس کے بعد ہجرت کرکے موجودہ پاکستان آگئے تھے‘ انہیں اب شناختی کارڈوں کے لئے تنگ اور پریشان کیا جارہا ہے۔ قومیں حادثات اور المیوں سے سیکھتی ہیں لیکن ہم نے شاید ابھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ دشمن بدستور تاک میں ہے ۔ وار پر وار کیے جارہا ہے۔ دو سال قبل 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گرد حملہ کیا گیا جس میں سینکڑوں ننھے طلبہ و طالبات شہید و زخمی ہوئے تھے اور اس سال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اسکول وین پر فائرنگ اور گولہ باری کرکے ڈرائیور کو شہید اور 8 معصوم بچے زخمی کردیئے دشمن بدستور تاک میں ہے۔ کہیں دہشت گردی اور غلط فہمیوں کے کانٹے بوکر پاکستان کے استحکام‘ سلامتی اور یکجہتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وفاقی سطح پر مشرقی پاکستان کے ساتھ بے انصافیاں بھی کی گئیں۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 56 فیصد اور مغربی پاکستان کی 44 فیصد تھی لیکن ہم نے آئینی برابری (پیرٹی) کااصول نافذ کرکے دونوں حصوں کو ایک ترازو میں رکھ کر برابر کردیا جس کے نتیجے میں حقوق کی پامالی کا پروپیگنڈا جڑ پکڑ گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین خالص بنگالی اور تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ بنگالی نژاد تھے۔ ان دونوں نے جو آئینی فارمولا پیش کیا اس میں دونوں حصوں کے درمیان ”آئینی برابری“ کا اصول شامل کیا گیا تھا لیکن منفی پروپیگنڈہ بازوں نے اس نکتہ کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ 1973ءکا دستور وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی زیر ہدایت تشکیل پایا۔ اس کے خالق عبدالحفیظ پیر زادہ تھے۔ یہ دونوں سیاستدان سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح 18 ویں آئینی ترمیم آصف علی زرداری کی ہدایت پر تیار ہوئی جو صدر مملکت تھے۔ ان کا تعلق بھی سندھ سے ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچستان میں جتنے وزرائے اعلیٰ بنے‘ وہ سب بلوچ تھے ان میں ایک بھی پنجابی نہیں تھا۔ لہٰذا بلوچستان کے خراب حالات اور بدتر معاشی صورتحال کی ذمہ داری بلوچ وزرائے اعلیٰ پر ہی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی مستقل طور پر پختون وزیر اعلیٰ براجمان ہوتا ہے۔ ان وزرائے اعلیٰ کی نااہلی یا کرپشن کے باعث جو تباہی آئی ہے اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ میں سب سے زیادہ کرپشن ہے جس کی ذمہ داری یہاں کی سیاسی قیادت اور افسر شاہی ہے۔ انہیں کس نے کہا ہے کہ خوب کرپشن کریں اور پھر سارا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوجائیں انہوں نے غریب اور مفلوک الحال عوام کو ”ٹرک کی بتی“ کے پیچھے لگا رکھا ہے تاکہ ان کی بدعنوانیاں پوشیدہ رہیں۔ سندھ‘ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کی ذمہ دار یہاں کی سیاسی قیادت اور سرکاری ملازمین ہیں۔ 1973 ءدستور کی منظوری کے کچھ عرصہ بعد ہی بلوچستان اور صوبہ سرحد (کے پی کے) کی صوبائی حکومتیں ختم کرکے گورنر راج لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو سندھی سیاستدان تھے۔ تاریخ کی خوبی یہ ہے کہ یہ رقم ہونے کے بعد مٹتی نہیں۔ یہ ایسی دھول ہے جو چہرے پر صدیوں جمی رہتی ہے۔بقول غالب
عمر بھر یہی غلطی کرتے رہے ہیں غالب
دھول چہرے پر تھی‘ ہم آئینہ صاف کرتے رہے
خدارا 16 دسمبر 1971 ءکے سانحہ کو پھر دُہرانے کی غلطی نہ کی جائے۔ غلط فہمیوں اور نفرتوں کے بیج نہ بوئے جائیں پہلے اپنے گھر پر توجہ دی جائے۔ اسے رشوت‘ کرپشن‘ اقرباءپروری‘ بے ایمانی‘ بددیانتی اور ظلم و استحصال سے پاک کیا جائے۔ آج ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ شہری اکثریت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ یہ ظلم کس نے کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف یا سندھ کی صوبائی حکومت نے جو 100 فیصد صرف دیہی سندھ کے وڈیروں پر مشتمل ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کھل کر پاکستان کو دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بات کررہا ہے اگر ہم نے پرانی روش ہی برقرار رکھی اور ایک دوسرے کو دشنام دیتے رہے تو نفرتوں کے یہ بیج تناور درخت بن کر دشمن کو سایہ اور موقع فراہم کریں گے۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی گزشتہ 45 سال سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی ہیں۔ ایسا ہوتا تو 10 لاکھ سے زائد بنگالی کراچی میں آباد نہ ہوتے۔ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کو خاندان سمیت قتل نہ کیا جاتا جو آزادی کا ہیرو تھا۔ بہتر یہ ہے کہ پاکستان کی بقائ‘ سلامتی اور استحکام کے لئے ہم خود ہی مزید صوبے تشکیل دیں۔ ہماری سیاسی قیادت اس چیلنج کو قبول کرے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے 15 مارچ 2017 ءسے نئی مردم شماری کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ قطعی طور پر منصفانہ اور شفاف ہونی چاہئے۔ اس میں 1973 ءکی طرح ڈنڈی نہ ماری جائے جب کراچی کی آبادی 56 لاکھ کے بجائے 36 لاکھ دکھائی گئی تھی‘ ناانصافیاں نفرتوں کو جنم دیتی ہیں۔ حق دار کو اس کا حق نہ دیا تو جنگ ہوتی ہے اور المیے جنم لیتے ہیں۔ یہی بنگلہ دیش سے ملنے والا سبق ہے۔
٭٭