میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیئرمین سینیٹ کے لیے جوڑ توڑ

چیئرمین سینیٹ کے لیے جوڑ توڑ

منتظم
منگل, ۶ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے لیے سیاسی جماعتوں نے رابطے تیز کردیے،پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بلوچستان سے منتخب ہونے والے آزاد سینیٹرز سے رابطے کرلیے ہیں اور انکو اپنی اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیدی ہے۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے لیے سیاسی جماعتوں نے رابطے تیز کردیے۔سینیٹ انتخابات میں15 نشستیں حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن)ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن گئی جس کی مجموعی سیٹوں کی تعداد 33 ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے پاس سینیٹ کی مجموعی نشستیں20ہیں اور وہ دوسرے نمبر پر ہے۔چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی میں سخت مقابلہ ہوگا جس کے لیے دونوں جماعتوں نے آزاد امیدواروں اور ہم خیال جماعتوں سے رابطے شروع کردیے۔بلوچستان سے7اور فاٹا سے 8 منتخب ہونے والے آزاد سینیٹرز چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے سیاسی ماحول میں بے چینی پیدا کرسکتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی اور قیوم سومرو پر مشتمل 2 رکنی وفد جوڑ توڑ کے لیے کوئٹہ پہنچ گیا جہاں انہوں نے نومنتخب آزاد سینیٹرز اور وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماں نے آزاد سینیٹرز کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی بلوچستان کے آزاد سینیٹرز سے ملاقات کی تیاریاں شروع کردیں اور اس سلسلے میں جہانگیر ترین نے انوارالحق کاکٹر سے رابطہ کیا اور آزاد امیدواروں کو منتخب ہونے پر مبارکباد دی،ترجمان تحریک انصاف کے مطابق جہانگیر ترین نے منتخپ سینیٹرز احمد خان، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی کے لیے بطور خاص تہنیتی پیغام اور نیک خواہشات کا اظہار کیا،تحریک انصاف کا وفد جلد ان آزاد سینیٹرز سے ملاقات کریگا،ملاقات کے وقت اور مقام کا تعین کیا جارہا ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی جنگ بھی پیپلز پارٹی ہی جیتے گی۔سینیٹ میں مسلم لیگ (ن)اور اس کے اتحادیوں کے پاس 48 نشستیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی مجموعی نشستوں کی تعداد 40 ہے۔اس صورتحال میں آزاد امیدوار اہم کردار ادا کریں گے جب کہ مسلم لیگ (ن)کی کوشش ہوگی کہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر اپنا چیئرمین سینیٹ لایا جائے۔عددی اعتبار سے تحریک انصاف کے پاس 12 نشستیں ہیں جس کے بعد وہ تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور دونوں بڑی جماعتوں سے شدید اختلاف کے بعد پی ٹی آئی کس طرف جائے گی، یہ بہت دلچسپ مرحلہ ہوگا۔سینیٹ میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور نیشنل پارٹی کے پاس 5،5، جمعیت علما اسلام (ف)کے پاس 4، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی 3، جماعت اسلامی 2، مسلم لیگ فنگشنل ، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کی ایک ایک نشست ہے۔
ملکی سیاست میں حالیہ مدو جذر2013 کے انتخابات کے نتائج سے شروع ہوا‘ پانچ سال مکمل ہونے جارہے ہیں لیکن یہ ابھی تک جاری ہے مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت یہ گلہ کر رہی ہے کہ اسے سیاسی میدان سے باہر کیا جارہا ہے سینیٹ کے ٹکٹوں کے حوالے سے فیصلے سے اسے بدترین دھچکا لگا ہے اس فیصلے پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی اور آہوں اور سسکیاں لیتی ہوئی بے بس پارلیمنٹ آہ و فغاں کی تصویر بنی ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو پارٹی عہدے کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اس پر نہایت کڑا وقت ہے یہ سیاسی تنہائی اسے غیر معمولی طاقت ور بھی بنا سکتی ہے اور غیر معمولی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ عمران خان کی کمزور اور حکمت سے خالی سیاسی منصوبہ بندی نے تحریک انصاف کی توقع کے برعکس نواز شریف کی سیاسی اہمیت بڑھا دی ہے ہونا تویہ چاہیے تھا کہ عمران کو اگر مضبوط اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھانا تھا تو تحریک انصاف فرنٹ فٹ پر کھیلتی لیکن ایسا نہیں ہوا جس سے بہت سے سوالات اْٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ہدف یہی تھا اور ہے کہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کردیا جائے‘ عدالتی فیصلے سے یہ کام ہوگیا لیکن تحریک انصاف سیاسی میدان میں عدلیہ کے اس فیصلے کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ مسلم لیگ (ن) نے بہتر چالیں چلیں اور حالات سے سمجھوتا کر لینے کے باوجود ’’ڈٹی‘‘ ہوئی ہے۔سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کیلیے جاری کھیل کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہی نکتہ سامنے ہے کہ ہم اپنی 70سالہ قومی زندگی میں ابھی تک منظم اصولوں کے مطابق کام کرنے پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں ہماری وابستگی چاہے جمہوریت کے ساتھ ہو یا قانون کی حکمرانی کے ساتھ، قاعدے نامی کوئی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملے گی ہرکوئی وہ کام کرنے پر تلا ہوا ہے جو کسی اور کے کرنے کا ہے‘ اور بالادستی کی بحث؟جاری ہے۔
قرین از قیاس یہی ہے کہ مسلم لیگ ن ہی جوڑ توڑ اور دولت کی چمک کے بل پر سینیٹ کے چیئر مین کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اس طرح نیب میں اپنی اس فتح یاکامیابی کو بھی عدلیہ کی تذلیل کے لیے استعما ل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن مسلم لیگی رہنما یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمین ان کے پیروں تلے سے سرک چکی ہے ،اور اب وہ جس ہوا میں ہیں وہ ہوا دیرپا نہیں ہے ، میاں نواز شریف ، شہباز شریف اور ان کے حواریوں کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے دیگر رہنمائوںکویہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب ملک میں90کی دہائی والی سیاست کادور ختم ہوچکا ہے۔اس حوالے سے عوام میں مکمل سیاسی شعور پایاجاتا ہے۔آج کے دور میں اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں آگے لے کر جانا ہے تو آئین وقانون کی پاسداری کویقینی بناناہوگا۔ماورائے آئین وقانون اقدام ملک وقوم کے مفاد میں کسی صورت نہیں ہوسکتے۔اداروں کا احترام ہونا چاہئے اور تمام اداروں کو متعین حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون درحقیقت بااثرافراد کو ہرقسم کااختیار دیتاہے کہ وہ جوجی میں آئے کریں،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔اشرافیہ نے قانون کو موم کی ناک بنارکھا ہے۔ پاکستان22کروڑ عوام کا ملک ہے مگر بدقسمتی سے صرف 500خاندانوں نے اس کے اقتدار پرقبضہ جمارکھا ہے۔ جب تک حقیقی عوامی نمائندے برسراقتدار نہیں آجاتے ملک میں مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔صرف ایک شخص کی خاطر بھرے جلسوں میں عدلیہ کی تذلیل اور قانون سازی کی کوششیں جمہوری اداروں کی کارکردگی پر بڑاسوالیہ نشان ہیں۔ پاکستان اس وقت نازک صورتحال سے دوچار ہے۔لوگوں میں حکمرانوں کی مایوس کن کارکردگی کولے کر تشویش پائی جاتی ہے۔جمہوریت کے نام پر لوٹ مارکابازارگرم کررکھا ہے۔حکمرانوں کے عاقبت نااندیش فیصلوں کی بدولت جمہوری عمل سے لوگوں کااعتماد اٹھ چکاہے۔اس لیے جمہوریت اور جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد کومستحکم کرنے کے لیے سینیٹ اوردیگر اداروں میں بالادستی کے لیے رسہ کشی سے بالاتر ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے،سیاستدانوں کو یہ سمجھ لیناچاہئے کہ ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کرپٹ افراد کابلاامتیاز احتساب ضروری ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ احتسابی عمل کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ کیاجارہا ہے۔ماضی میں احتساب کے دعوے تو کیے جاتے تھے مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہوپاتا تھا۔اس کی واضح مثال ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کو کرپشن کے جرم میں فارغ کیاگیا ہے۔اب احتساب کے اس عمل کو جاری وساری رہنا چاہئے۔تمام سیاسی جماعتوں کو سینیٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں میںبالادستی کی جدوجہد کے ساتھ ہی عدلیہ کی تذلیل کرنے کے بجائے عدلیہ سے تعاون کرنا چاہئے اور عدلیہ کی تذلیل کرنے والے لیڈروں کی تقریروں اور بیانات کی نشر واشاعت پر مکمل پابندی عاید کرنی چاہئے تاکہ ملک سے کرپشن کاخاتمہ ہوسکے اور وطن عزیز پاکستان ترقی وخوشحالی کی جانب بڑھ سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں