سپریم کورٹ کے فیصلے سے شریف فیملی کے غبارے سے ہوا نکل گئی
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دائر کی گئی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے متعلق حقائق غیر منتازع تھے۔سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاناما مقدمے کے فیصلے میں کسی سقم یا غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظر ثانی کی جاتی۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کر دیا گیا۔بنچ کا کہنا ہے کہ نواز شریف 80 کی دہائی سے سیاست اور کاروبار میں ہیں، قابل قبول نہیں کہ نواز شریف اکاؤنٹنگ کے سادہ اصولوں کو بھی نہیں سمجھتے ہیں اور ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ تھی۔نواز شریف کی جانب سے نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے جھوٹا بیان حلفی دیا، اس اقدام کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جاسکتا، کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا قانونی ذمہ داری اور اس کی اہلیت کا امتحان ہوتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کو عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا شائبہ تک بھی نہیں ہونا چاہیے، امیدوار یا منتخب رکن کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہوگی، یہ تباہی پہلے ہی انتہا کو پہنچ چکی جسے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پاناما مقدمے کے فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں اور احتساب عدالت شواہد کا قانون کے مطابق جائزہ لینے میں آزاد ہے۔پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے احتساب عدالت ضیعف شواہد کو رد کرنے جیسے فیصلے کرنے کی مجاز ہے اور 6 ماہ میں ٹرائل کی ہدایت احتساب عدالت کو متاثر نہیں بلکہ فیصلہ جلد مکمل کرنے کیلیے ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے نگران جج کی تقرری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نگران جج کا تقرر نئی بات نہیں ہے اس کا مقصد ٹرائل میں بے پروائی کو روکنا ہے۔ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ نگران جج ٹرائل پر اثر انداز ہوں گے۔سپریم کورٹ کے نظرثانی فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مریم نواز بادی النظر میں لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ہیں۔نواز شریف کے داماد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ لندن فلیٹ سے کیپٹن (ر) صفدر کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا کہ کیپٹن صفدر کا فلیٹس سے تعلق کا مواد موجود نہیں۔قبل ازیں 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالتی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔ایک طرف سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری کرکے اس حوالے سے نواز شریف ، مریم صفدر اور دیگر مسلم لیگی رہنمائوں کی جانب سے اس فیصلے پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کی ایسی وضاحت ہوگئی ہے کہ اس پر اعتراضات اٹھا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے والے رہنمائوں کواب عوام اور خود سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے معافی مانگنی چاہئے اورآئندہ عدالتی فیصلوں کی من پسند تشریح نہ کرنے کاحلف نامہ جمع کرانا چاہئے۔ لیکن ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک اخلاقی اقدار کی کوئی وقعت ہوتی ہے جبکہ میاں نواز شریف ان کی لاڈلی صاحبزادی اور ان کے دیگر حواریوں نے اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کیاہے کہ ان کے نزدیک اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ایک طرف سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ اور حواریوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور دوسری طرف ایک اطلاع کے مطابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کا ’’لندن پلان‘‘ بھی مکمل طور پر ناکام ہوگیاہے اور ان کے تابعدار اور اب بھی عملاً انھیں اپنا وزیراعظم قرار دینے والے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے لندن پلان پر عملدرآمد کرنے سے صاف انکار کردیاہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پلان کے تحت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پاکستان میں انتہائی اہم اور حساس عہدوں پر تبدیلیاں لانے اور ساتھ ہی چند ایک اہم شخصیات کو وقت سے پہلے حکومتی عہدوں سے سبکدوش کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا،اطلاعات یہ بھی ہیں کہ میاں شہباز شریف کیمپ نے بھی ان ہدایات اور اقدامات کی بھرپور انداز میں مخالفت کی تھی۔ اس ضمن میں چوہدریی نثار علی خان کا ایک مضبوط دھڑا جو اس وقت (ن) لیگ میں اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے وہ بھی میاں شہباز شریف ہی کے کیمپ میں ان کے ساتھ تھا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ لندن میں ہونے والے اجلاسوں میں جن میں شاہد خاقان عباسی کے علاوہ میاں شہباز شریف بھی شریک ہوتے رہے ہیں،میاں نواز شریف کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اب مقدمات کا سامنا قانونی طور پر عدالتوں ہی میں کیا جائے کیونکہ قومی اداروں کے ساتھ تصادم کا راستہ نہ صرف ’’ہاؤس آف شریف‘‘ کو لے ڈوبے گا بلکہ (ن) لیگ کا اپنا شیرازہ بھی بکھر جائے گا۔ مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم شاہد خاقان شدید دباؤ میں تو ضرور ہیں مگر انہوں نے قومی اداروں سے تصادم اور سخت اقدامات اْٹھانے کی پالیسی سے اتفاق نہیں کیا تا کہ موجودہ حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو۔
حالیہ دنوں میںکرپشن کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے جس کااندازہ سعودی عرب میں خود شاہی خاندان کے مقتدر شہزادوں اور وزرا کو کرپشن کے الزام میں برطرف کرکے جیل بھیجنے کے حالیہ واقعات سے لگایاجاسکتاہے ، ارجنٹائن کے سابق نائب صدر AMADO BOUDOU کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے، کرپشن کے یہ مقدمات 2009 میں ان پر قائم ہوئے تھے، لندن میں بھارت کے سابق رکن پارلیمنٹ VIJAY MALLYA کو بھارتی حکومت کی درخواست پر برطانوی پولیس نے گرفتار کیا کیوں کہ وہ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث تھے اور برطانیہ میں انھوں نے جائدادیں اور اثاثے بنا رکھے ہیں۔اس سال اکتوبر میں عالمی اقتصادی فورم کے پلیٹ فارم کے زیر اہتمام کرپشن کے خلاف اقدامات کے عنوان سے سوئٹزرلینڈ میں بین الاقوامی رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا تھا جو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت قوانین کے حوالے سے تھا اس میں طے کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے مشترکہ طور پر قانون سازی کی جائے کیوں کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ٹھوس ثبوت اور رقوم کی منتقلی کے حتمی شواہد غائب کرادیے جاتے ہیں۔ اس عمل میں خود حکومتی ادارے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس اجلاس میں کہا گیا تھا کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں مگر یہ غیر اخلاقی ضرور تصور کی جاتی ہیں اور یہ تمام عمل ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے جس سے غیر قانونی جائداد اور منی لانڈرنگ کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے، یہ تمام سلسلہ غیر قانونی لین دین ہی کی کڑی ہے۔
برطانیہ میں سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مئی 2016 میں کرپشن کے خلاف لندن میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں کرپشن کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مشترکہ قانون سازی اور مختلف ممالک کے مابین معاہدوں کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس کانفرنس میں خود ڈیوڈ کیمرون نے انکشاف کیا تھا کہ لندن میں ہائیڈ پارک اور پارک لین کے علاوہ ایجوئر روڈ کے ساتھ پورا علاقہ انتہائی مہنگے لگڑری اپارٹمنٹس پر مشتمل ہے جو زیادہ تر عالمی وائٹ کالر مجرموں کی ملکیت بن چکا ہے۔ اب ذرا اندازہ کریں اسی پارک لین اور ہائیڈ پارک کے ساتھ زیادہ تر جائدادیں اور اثاثے پاکستان کے وی آئی پی خاندانوں کی ملکیت میں مثلاً اِسی علاقے میں شریف خاندان کے علاوہ سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک، جنرل ضیا الحق کے داماد کے علاوہ بعض وکلا کے بھی فلیٹس موجود ہیں۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین کی بھی لندن میں جائدادیں اور اثاثے مختلف ناموں سے موجود ہیں۔ پاکستان اس وقت خوفناک قسم کی نااہل اور بدعنوان حکومت کی گرفت میں ہے۔ رشوت، بددیانتی اور اقربا پروری کی وجہ سے بیورو کریسی کا نچلا طبقہ کم تعلیم یافتہ اور نااہل افراد سے بھر گیا ہے جو پورے نظام کو مفلوج کرگیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، احتساب کا عمل جاری ہے، اس عمل کو متنازع بنانے اور لوٹی ہوئی قومی دولت کو دبائے رکھنے کے لیے شریف خاندان نے اپنی دولت اور سرکاری اشتہارات کے بل پر ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاکو استعمال کرنا شروع کردیاہے اور شریف خاندان کے مبینہ اشارے پر میڈیا کے بعض نیٹ ورکس پر نیب کے ادارے کے بارے میں احتجاجی آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کے ساتھ نیب کے سلوک اور برتاؤ میں بہت فرق ہے، اس کے ساتھ ہی سندھ اور پنجاب میں احتسابی عمل کے بارے میں مختلف انداز میں سیاسی سطح پر ردعمل بھی سامنے آرہا ہے۔جس کا احتساب شروع ہوتا ہے وہ بیمار ہو جاتا ہے، خود اندازہ کرلیں کہ میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری اور پھر اسحاق ڈار سے ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن، ظفر حجازی حتیٰ کہ ایان علی اور پھر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف تک سب بیمار ہوگئے ۔ کسی کو عارضہ قلب یا کسی کو کمر کا درد اور یا پھر یادداشت ختم ہوجانے کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ لی جاتی ہے، مقدمات کی سماعت کو لٹکایا جاتا ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پورا نظام کام ہی نہیں کررہا، وزیراعظم نجی دوروں پر لندن آکر نااہل سابق وزیراعظم سے ڈکٹیشن لیتا ہے، دوسری جانب سمن کی تعمیل کے لیے نیب کے ڈائریکٹر اپنے تین ڈپٹی ڈائریکٹرز کے ہمراہ نااہل سابق وزیراعظم سے ہاتھ باندھ کر درخواست کرتے ہیں کہ ’’سر سمن کی تعمیل کے لیے آئے ہیں ذرا آٹو گراف دے دیں‘‘ یہ واقعہ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں ریکارڈ پر موجود ہے۔
سپریم کورٹ کو اس صورتحال کا بھی سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور گرفتاری کے فوری بعد ملزمان کوہسپتال منتقل کرنے اور اس مقصد کے لیے میڈیکل سرٹیفیکٹ جاری کرنے والے نام نہاد مسیحائوں کو بھی گرفت میں لاکر قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے،تاکہ آئندہ کسی بھی طاقتور اور متمول ملزمان کو اپنی گرفتاری کو پکنک میں تبدیل کرنے کاموقع بنہ مل سکے۔