میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایم کیو ایم کا سابق تنظیمی انچارج حماد صدیقی گرفتار، دہشت گردی کا مرکزی کردار

ایم کیو ایم کا سابق تنظیمی انچارج حماد صدیقی گرفتار، دہشت گردی کا مرکزی کردار

منتظم
منگل, ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

شعیب مختار
مہاجر قومی موومنٹ ہو یا متحدہ قومی موومنٹ اس کا آغاز مہاجروں سے نسلی تعصب برتنے کے نعرے پر 1978ئمیں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(اے پی ایم ایس او) سے ہوا۔ جس کے بعد اے پی ایم ایس اوسے ہی تقویت پاکر ایک علاقائی جماعت کے طور پر مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس جماعت نے اپنی تشکیل ساتھ کراچی سمیت سندھ بھرمیں اردوبولنے والے طبقے متاثرکیااورلوگ اس کی جانب متوجہ ہونے لگے۔اورتنظیم کاسفرشروع ہوگیا۔پھر ایک وقت ایسا آیا جب مہاجر قومی موومنٹ کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔اور یہ جماعت کراچی کی سب سے بڑی اورسندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری ۔کیونکہ یہ تنظیم مظلومیت کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی لہذا اس تنظیم کو بعد میں تمام مظلوم قوموں کے نام کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے کر نئے زاویے سے مظلوموں کو انصاف دلانے کے کاموں کا آغاز کیا گیا، مگر مہاجر نام سے بننے والی سیاسی جماعت دیگر مظلوم قوموں کو تو کیا انصاف دلاتی خود مہاجروں کو بھی ان کے حقوق دلانے میں ناکام رہی اور اُلٹا مہاجروں کے تاریخی تشخص کو بھی بدل کر رکھ دیا ۔پھر ہوا کچھ اس طرح کہ اس جماعت میں شامل رہنما اور کارکنان اپنے اپنے مفادات کے حصول میں لگ گئے اور ریکارڈ کرپشن کی۔ متحدہ کی باقاعدہ کرپشن کی تفصیلات خوف کی وجہ سے تاحال منظر عام پر اب تک نہیں آسکی ہے ں مگر اب اس کے چرچے عام ہوتے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے خود بانی متحدہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اُنہوں نے 22اگست 2016ء کو ایک ایسی تقریر کی کہ جس نے متحدہ قومی موومنٹ کو کئی حصوں میں تقسیم کر ڈالا ۔ اوراپنے خلاف بند زبانوں کو کھولنے کا موقع خود ہی فراہم کردیا۔
آج مہاجر سیاست کی جانب نظر دوڑائی جائے تو کہیں بھی کوئی مہاجر سیاست نہیں کی جا رہی۔ بیچاری مہاجر قوم آج بھی کسی ایسے مسیحا کی منتظر ہے جو انہیں ان کے حقوق دلائے مگر ایسا مسیحا تو دستیاب نہیں ،لیکن نعیم کن کٹے،فہیم لنگڑے اور شمیم کانے جیسے لا تعداد لوگ اب بھی پارٹی میں موجود ہیں جوکہ زیر زمین روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ انہی روپوشی کی زندگی گزارنے والوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کا نام سر فہرست ہے جوکہ بلدیہ فیکٹری سے بھتہ نہ ملنے اور 250سے زائد افراد کو زندہ جلانے کے بعد منظر نامے سے غائب رہے ۔عدالت نے ملز م حماد صدیقی کی گرفتاری کے حکم نامے جاری کیے ہوئے تھے جبکہ انٹر پول نے اس کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کیا تھا، با لآخر سخت جدوجہد کے بعد اسے چند روز قبل دبئی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حماد صدیقی کون ہے حماد صدیقی دہشت گردی کے کن کن واقعات میں ملوث ہے ،یہ ایک طویل کہانی ہے جو۔ اس کی کچھ تفصیلات تو حاضر خدمت ہیں ۔
اپنی دہشت اور اپنے ہاتھ سے کراچی کو لہولہو کرنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے سابق تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی نے سیاست کا آغازآل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا ۔2001 میں متحدہ تنظیمی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2006 میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن سے صدر ٹاؤن میں بلدیاتی امیدواروں کی نامزدگی اور عوامی مسائل کے لیے کام کیا۔ 2008 سے 2013تک پارٹی میں بحیثیت تنظیمی کمیٹی کا انچارج رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی نوازشات حماد صدیقی پر کچھ اس طرح تھیں کہ انہیں سیاسی بھرتی پر28نومبر1997میں رفیقی شہید اسپتال میں گریڈ 19کے افسر کے تحت اسپتال میں بطور ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے میں حماد صدیقی کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ہڑتالوں کے دوران کاروبار بند کرانا ۔حماد صدیقی کی دیگر ذمے داریوں میں سے ایک ذمے داری ہوا کرتی تھی۔حمادصدیقی کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ بھارت کی ایجنسی ’’را‘‘ تک کارکنان کی رسائی بھی اسی کے سپرد تھی2008 سے 2013تک نائن زیرو اور متحدہ قومی موؤمنٹ کے فلاحی ادارے میں اسلحے کی سپلائی حماد صدیقی کی نگرانی میں کی جاتی رہی 2010میں یوم عاشورہ کے روز بم دھماکے میں 44افراد کی اموات کا ذمہ دار بھی حماد صدیقی کو سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب متحدہ کے گرفتار ملزم عمیر صدیقی نے شیعہ سنی قتل سے متعلق اہم انکشافات کر ڈالے ملزم کا کہنا تھا کہ حماد صدیقی کے حکم پر شیعہ سنی مسلمانوں کا قتل عام کرتا تھا۔ بلدیہ فیکٹری میں زندہ لوگوں کو جلانے کا الزام بھی متحدہ کے سابق تنظیمی کمیٹی کے انچارج پر ہے جس کے نتیجے میں 2012میں ٹیکسٹائل فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے میں 250سے زائد افراد جا ں بحق ہوئے تھے ۔شہر میں ڈاکٹر پروفیسر سبط جعفری کی کلنگ ہو یا کسی سیاسی جماعت کی ریلی پر فائرنگ کا معاملہ متحدہ کے سابق رہنما حماد صدیقی کو تمام تر کارناموں میں ملوث ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ملزم حماد صدیقی کے ڈی اے میں چائنا کٹنگ کی فائلیں بھی حکیم سعیدشہید کے قتل میں ملوث عارف کے ڈی اے والا سے بنواتا تھااور یومیہ لاکھوں روپے کا بھتہ وصول کرتا تھا ۔
بلدیہ کیس میں مفرور ملزم قرار دیے جانے کے بعد حماد صدیقی 22مئی 2013 کوکراچی سے دبئی روانہ ہو گیے تھے، ذرائع کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کو ایک سال قبل پیپلز امن کمیٹی کے چیئرمین عزیر بلوچ کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا جسے انٹر پول نے مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے دسمبر 2016میں ملزم حماد صدیقی کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا حماد صدیقی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے علاوہ دیگر کئی سنگین جرائم میں پولیس کو مطلوب تھا ملزم کے ریڈ وارنٹ بھی کئی مرتبہ جاری کیے گئے تھے ۔ملزم حماد صدیقی کی اس مرتبہ گرفتاری کی تصدیق اس کے اہل خانہ کی جانب سے کی جا چکی ہے حماد صدیقی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں 27 اکتوبر کی شب انٹرپول کی جانب سے پاکستانی حکام کو ان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی تھی جس کی مکمل طور پر تصدیق ہو چکی ہے ضروری کاروائی کے بعد انہیں پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔حماد صدیقی کی گرفتاری متحدہ کے رہنماؤں کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں تفتیشی بیان سامنے آنے کے بعد مزید رہنماؤں کی گرفتاریوں کا امکان ہے ۔ذرائع کے مطابق متحدہ کے سابق رہنما حماد صدیقی کوایک دوروزمیں پاکستان لائے جانے کا امکان ہے۔ ملزم سے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،جس کے تحت حمادصدیقی کا کیس آئی ایس آئی،ایم آئی ،آئی بی سمیت پولیس انویسٹی گیشن سیل کی ٹیم کو دیے جانے کا امکان ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں