میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کمپنیاں قومی خزانے سے 84 ارب روپے نگل گئیں ،مزید کامطالبہ

بجلی کمپنیاں قومی خزانے سے 84 ارب روپے نگل گئیں ،مزید کامطالبہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

سرکلر قرض کی ادائیگی کے لیے وزارت خزانہ پر پھر سے دباﺅ ، اس شعبے کے سرکلر قرضوں کی رقم 385 ارب روپے تک پہنچ چکی
رواں مالی سال کے بجٹ میں بجلی کے شعبے کو سبسڈی کی فراہمی کے لیے مختص 118 ارب روپے کی رقم کم پڑنے کا خدشہ
73.5 ارب روپے پیپکو جبکہ 10.8 ارب روپے کے الیکٹرک کو ادا کیے گئے ، حکومت سرکلر قرضوں کے مسئلے پر قابوپانے میں ناکام
ایچ اے نقوی
وزارت خزانہ کے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بجلی کمپنیاں سبسڈی کے نام پر قومی خزانے سے 84 ارب روپے ڈکار چکی ہیں اور اب ایک دفعہ پھر انہوں نے سرکلر قرض کی ادائیگی کے لیے وزارت خزانہ پر دباﺅ بڑھا دیاہے۔ اس طرح خیال کیاجاتاہے کہ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے بجٹ میں بجلی کے شعبے کو سبسڈی کی فراہمی کے لیے مختص کی گئی 118 ارب روپے کی رقم کم پڑجائے گی اور ادائیگی مختص کردہ رقم سے بڑھ جائے گی۔
ایڈیشنل سیکریٹری بجٹ سید غضنفر عباس نے گزشتہ دنوں سینیٹ کی کمیٹی کو بتایاتھا کہ وزارت خزانہ نے رواں سال فروری میںپاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) اور کے الیکٹرک کو سبسڈی کی مدمیں 84.3 ارب روپے ادا کیے ہیں۔یہ رقم سبسڈی کی مد میں مختص کردہ رقم کے کم وبیش 71 فیصد کے مساوی تھی۔ذرائع کے مطابق حکومت گزشتہ تین برسوں کی طرح رواں سال بھی بجلی کمپنیوں کو سبسڈی کی ادائیگی بجٹ میں مختص کی گئی اورپارلیمنٹ سے منظور کی گئی رقم کی حد میں رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی اور سبسڈی کی یہ رقم مختص شدہ118 ارب روپے سے تجاوز کرجائے گی۔
اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بجلی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی کی شرح کم کی جائے اور اسے ایک حد کے اندر رکھا جائے، آئی ایم ایف کی اسی ہدایت کی بنیاد پر حکومت نے بجلی کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈی کی رقم ایک خاص حد تک رکھنے کافیصلہ کیاتھا لیکن زمینی حقائق سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اس حد پر قائم رہنے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔
وزارت خزانہ کے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بجلی کمپنیوں کو سبسڈی کی مدمیںجو 84.3 ارب روپے ادا کئے ہیں،ان میں سے73.5 ارب روپے پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کو ادا کیے گئے ہیں جو کہ پیپکوکو ادائیگی کی سالانہ حد کے81 فیصد کے مساوی ہے جبکہ کے الیکٹرک کو10.8 ارب روپے ادا کیے گئے ہیںجو کہ اس کے لیے مختص سالانہ حد کے40 فیصد کے مساوی ہے ۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے 3 سالہ مدت کے لیے لیے گئے 6.6 ارب ڈالر کے قرض کی بنیادی شرط انرجی یعنی توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا نفاذ اور اس شعبے کے لیے سبسڈی میں کمی کرنا تھا ۔واضح رہے کہ 2012-13 ءکے دوران بجلی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی کی رقم مجموعی ملکی پیداوار کے 2 فیصد کے مساوی یعنی کم وبیش 368 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی، بعد ازاں حکومت اس میں کمی کرنے کے بعد گزشتہ مالی سال کے اختتام تک مجموعی ملکی پیداوارکے 0.6 فیصد تک لے آئی تھی۔لیکن اس کے باوجود حکومت سرکلر قرضوں کے مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور اس حوالے سے وزارت خزانہ کی جانب سے کوئی بہتر لائحہ عمل تیار نہیں کیاجاسکاجس کی وجہ سے گزشتہ 4سال کے دوران سرکلر قرضوں کی مالیت بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اوراب اس شعبے کے حوالے سے سرکلر قرضوں کی رقم 385 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔آئی پی پیز نے سرکلر قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے حکومت پر دباﺅ بڑھانے کے لیے اس بارے میں حکومت کی کمزوریاں اجاگر کرنے اور انہیں عوام کے سامنے لانے کے لیے باقاعدہ ایک مہم شروع کررکھی ہے۔آئی پی پیز کی جانب سے چلائی جانے والی اس مہم کے نتیجے میں گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم نے توانائی سے متعلق معاملات پر کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت بجلی وپانی اور وزارت خزانہ کوسرکلر قرضوں کے تصفیہ کے لیے کوئی طریقہ طے کرنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کاکوئی راستہ نکالنے کی ہدایت کی تھی۔وزیراعظم کی اس ہدایت کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ حکومت 340 ارب روپے مالیت کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے طویل المیعاد بانڈز جاری کرنے پر غور کررہی ہے۔تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے اس طرح کی خبروں کی ابھی تک تردید یاتصدیق نہیں کی گئی ہے جبکہ اس موضوع پر وزارت خزانہ کی خاموشی سے ان خبروں کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینے کاکوئی راستہ تلاش کررہی ہے اور اس کا آسان راستہ طویل المیعاد بانڈز کا اجرا ہی ہوسکتاہے۔
2013ءمیں نواز شریف عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے اوراس حوالے سے فوری ریلیف فراہم کرنے کے وعدے پر حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن ان کی حکومت کو 4 سال گزرجانے کے باوجود ان کی حکومت اب تک عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانا تو کجا اس میں کمی کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔اس کے باوجود پانی وبجلی کی وزارت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجلی کی طلب ورسد میں توازن پیدا کرنے کی کوششوں اور اس حوالے سے انتظامات بہتر بناکر لوڈ شیڈنگ میں کسی حد تک کمی کرنے اور بجلی کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈی کی شرح میں کمی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
وزارت خزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو اپنے نیٹ ورک کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے رقم کی فراہمی کی شرح بہت کم ہے،وزارت خزانہ کے مطابق بجلی تیار کرنے والی کمپنیوں کے لیے ترقیاتی قرض کی شرح بہت کم ہے اور اس مد کے لیے رکھے گئے 60 ارب روپے کے فنڈز میں سے ان کمپنیوں کو اس مد میں اب تک یعنی رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران صرف 25.6 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔واپڈا کے لیے اس حوالے سے 14 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن واپڈا کو اس مد میں گزشتہ8 ماہ کے دوران کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔
وزارت خزانہ کے ان دعووں میں کتنی صداقت ہے، اس کااندازہ تو اس حوالے سے تمام دستاویزات کی چھان بین کے بعد ہی لگایاجاسکتاہے، لیکن حقیقت جو نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت بجلی کمپنیوں کو دی جانے والی بھاری سبسڈی اور سرکلر قرضوں کی مد میں بھاری رقوم کی ادائیگی کے باوجود اس ملک کے دیہی اور شہری عوام آج بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہونے کے باوجود بھاری بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود پانی وبجلی کے وفاقی وزیر اور ان کے حواری بڑی ڈھٹائی کے ساتھ غریب عوام کو بجلی چور قرار دے کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ تو شکوہ کرتے ہیں کہ بعض علاقوں کے لوگ بجلی چوری کررہے ہیں لیکن یہ بتانے کو تیار نہیں کہ بجلی چوری کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہونے کے باوجود ان بجلی چوروں کے خلاف کارروائی سے گریز کیوں کیاجارہاہے ،اور چند بجلی چوروں کی وجہ سے پوری قوم یا کسی علاقے کے تمام لوگوں کو چور کیوں کہاجارہاہے۔بجلی کے وفاقی وزیر بل ادا نہ کرنے والے علاقوں سے پی ایم ٹیمز اتارلینے کی دھمکیاں تو دیتے ہیں لیکن چند بجلی چوروں کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کو تیار نہیں ہیں، اس سے حکومت کی دوعملی ظاہر ہوتی ہے اوریہ ظاہرہوتاہے کہ بجلی چوری کے حوالے سے ان کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں