بلدیہ کراچی کے پنشنرز فاقہ کشی کاشکار
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق کے ایم سی میں شدید مالی بحران کے باعث شہر کے ترقیاتی اوردیگر کام ٹھپ ہوکر رہ گئے ،اور بلدیہ کے ملازمین،تنخواہوں ، واجبات اورپنشن کے لیے پریشان ہیں ان اطلاعات کے مطابق پنشنرز کو ایک سال سے واجبات کی ادائیگیاں نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے اکثر ملازمین کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ سے کراچی میئر وسیم اختر کی سربراہی میں ایم کیوایم اور حکمراں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی مبینہ سفارش پر ملازم رکھے گئے ان ملازمین کو جوبلدیہ کے دفتر ہفتہ یامہینے میں ایک دفعہ صرف دستخط کرنے کے لیے آتے ہیں بھاری تنخواہیں ،مراعات یہاں تک کہ پیٹرول کی مد میں بھی بھاری ادائیگیاں باقاعدگی سے کی جارہی ہے لیکن ادارے میں جانفشانی کے ساتھ بلاتعطل خدمات انجام دینے والے نچلے درجے کے ملازمین اپنی معمولی تنخواہوں سے محروم ہیں ، اورانھیں تنخواہیں حاصل کرنے کے لیے مظاہروں اور احتجاج پر مجبور ہورہے ہیں ، اس حوالے سے سب سے زیادہ مسائل اورمصائب کاشکار بلدیہ کراچی کے وہ پنشنرز ہیں جو اپنی عمر کابیشتر حصہ اس امید پر کہ بڑھاپے میں پنشن سے نان شبینہ کا انتظام ہوجائے گاشہر کے عوام کی خدمت میں صرف کرکے ریٹائر ہوچکے ہیں ، بلدیہ کراچی کے اقتدار کے نشے میں مست منتخب میئر ڈپٹی میئر اوران کے من پسند افسران نے ان غریب پنشنرز کا یہ خواب بھی چکنا چور کردیا ہے۔جس کااندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ۔ گزشتہ روز نارتھ کراچی ٹاؤن کے ایک سابق پی آر او نے اخبارات کو فون کرکے بتایا کہ بلدیہ وسطی کے چیئرمین کو فون کرکے میرے واجبات دلوادیں میرے گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے ،بچے بھوکے سوتے ہیں اورمیرے پاس اب بھیک مانگنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ کار نہیں ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے دیگر پبلک ریلیشنز افسران کی طرح نارتھ کراچی ٹاؤن کے سابق پی آر او کو بھی اپنی پوری مدت ملازمت کے دوران بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر اورافسران کی نااہلی، ان کی کرپشن کی پردہ پوشی کے لیے اخبارات کے دفاتر کے چکر لگاتے اور صحافیوں کی خوشامد کرتے رہے اور اس کام میں انھیں یقینا مقررہ وقت سے زیادہ دیرتک بھی گھر سے باہر رہ کر اپنی روزی حلال کرنے کی کوشش کرنے میں گزارنا پڑا ہوگا اس وقت شاید ان کے تصور میں بھی یہ نہیں رہاہوگا کہ ان کی ان خدمات کاانھیں یہ صلہ دیاجائے گا کہ ان کے بچے بھوکے سونے پر مجبور ہوں گے ان کے گھر پر فاقہ کشی کاسایہ ہوگا اور انھیں اس پیرانہ سالی میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کاسوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ اورمیئر کراچی کو تنخواہوں اور واجبات سے محرو م بلدیہ کراچی کے چھوٹے ملازمین اور غریب پنشنرز کے مسائل پر فوری توجہ دینا چاہئے اوران غریب ملازمین اورپنشنرز کو ان کے واجبات کے بقایاجات کی فوری ادائیگی کاانتظام کرنے کے ساتھ ہی بلدیہ کراچی کے تمام ملازمین کی تنخواہیں اورپنشنز کی بروقت ادائیگی کویقینی بنانا چاہئے اوربلدیہ کے گھوسٹ ملازمین کو جن کی مجموعی تعداد بلدیہ کے ملازمین کے 20فیصد سے بھی زیادہ بتائے جاتے ہیں تنخواہوں ا وردیگر مراعات کی ادائیگی کاسلسلہ فوری طورپر بند کردینا چاہئے ہم سمجھتے ہیں کہ بلدیہ کے گھوسٹ ملازمین کو کسی کام کے بغیر ادا کی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگیاں روک دی جائیں تو بلدیہ کامالی بحران بڑی حد تک ختم ہوجائے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اورمیئر کراچی بلدیہ کراچی کے ملازمین اور پنشنرز کے مسائل فوری طورپر حل کرنے اور انھیں باقاعدگی سے تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی کے لیے قابل عمل طریقہ کار وضح کریں گے تاکہ آئندہ اس طرح کی شکایات سامنے نہ آسکیں ۔
تھر میں ایک سال کے دوران400بچوں کی اموات
اخباری اطلاعات کے مطابق سال رواں کے ابتدائی دس ماہ میں صحرائے تھرکے علاقے میں کم و بیش 400 بچے موت کے منہ میں چلے گئے ،سندھ کے ایک ایسے علاقے میں سندھ کی حکومت جسے دبئی بنانے کے دعوے کررہی ہے اور جہاں کوئلے کے ذخائر سے بجلی تیار کرنے کے اہم منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے اتنی بڑی تعداد میں غریب بچوں کی ہلاکت کی خبریں تشویش ناک ہیں ۔ یہ یقینا ایک المیہ یہ ہے کہ سندھ کی حکومت صحت کے شعبے پر اربوں روپے خرچ کرنے کی بات کرتی ہے مگر اپنے ایک پسماندہ اوردور افتادہ خطے میں بچوں کی اموات کوروکنے کے لیے قابل عمل حکمت عملی اختیار کرنے سے گریزاں ہے۔ صورت حال کی سنگینی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ روز24 گھنٹے میں 9 بچوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ،24گھنٹے کے دوران9بچوں کی ہلاکت ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ اس حوالے سے سب زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ محکمہ صحت نے ابھی تک کہ ابھی تک ان ہلاکتوں کے حوالے سے اپنا کوئی سرکاری موقف جاری نہیں کیا ہے۔ یہ اموات صرف مٹھی اسپتال کی ہیں جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں ہے۔ تحصیل اسپتالوں ‘ بنیادی مراکز صحت اوررورل ہیلتھ یونٹ اور ملحقہ اضلاع کے اسپتالوں میں زیر علاج تھر کے بچوں کی ہلاکتیں اس کے سوا ہیں ۔
بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے محروم ضلع تھرکے باشندے اسی ملک اور ا سی صوبے کے باشندے ہیں ‘ ان کا ریاستی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور پاکستانی کا۔ حکومت کو چاہئے کہ تھر کے اسپتالوں میں زیر علاج بچوں کو طبی سہولتیں دینے کے ساتھ ساتھ وہاں غذائی قلت دورکرنے کے لیے کوئی ایسانظام وضح کرنے کی کوشش کریں کہ اس علاقے کے غریب باشندوں اور ان کے بچوں کو غذائیت کی کمی یا فقدان کے سبب موت کاسامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح کے اقدامات کے ذریعے بچوں کی اموات کو بھی کنٹرول کیا جاسکتاہے‘ اور اس خطے کے جفاکش عوام کی صلاحیتوں کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ممکن ہوسکتاہے اب جبکہ تھر میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے حکومت کو ان پراجیکٹس پر کام کرنے والے اداروں کو علاقے میں فنی تعلیمی ادارے قائم کرنے پر راغب کرنا چاہئے تاکہ ان اداروں میں مقامی نوجوانوں کو تریبت دی جاسکے اور مستقبل میں بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹس پر کام کے لیے ہنر مند لوگوں کی نہ صرف یہ کہ کمی محسوس نہ ہو بلکہ علاقے کے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرکے بھوک اور بیماریوں کی آماجگاہ اس علاقے کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں شامل کیاجاسکے ۔بصورت دیگر اس طرح کی ہلاکتوں کاسلسلہ نہ صرف یہ کہ جاری رہے گا بلکہ ان ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی‘ یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں انہی بچوں نے جو آج بیماریوں سے دو چار ہیں آگے چل کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صحرائے تھر کے ڈومیسائل پر ڈاکٹر بننے والے نوجوان اپنے ضلعے میں جاکر اس آفت کے مقابلے میں اپنے علاقے کے لوگوں کی مدد کریں اسی طرح صحرائے تھر میں آباد اپنے مریدوں ‘ عقیدت مندوں سے ہر الیکشن میں ووٹ کے طلب گار پیر اور سیاستدان وہاں طبی کیمپ لگائیں
اشیائے خوردو نوش کی فراہمی کابندوبست کریں تاکہ اس قومی المیئے پر کوئی مثبت کوششیں سامنے آسکیں ۔
توقع کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں گے اور مخیر حضرات اورفلاحی کاموں کے نام پر ملک کے اندر اور بیرون ملک سے بھاری رقوم بٹورنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اور معاشرے کے دیگر طبقات بھی آگے بڑھیں گے اور تھر کے غریب باشندوں کا سہارا بننے کی کوشش کریں گے۔