چاقو بردار چھلاوا۔۔۔پورے تھانے کو معطل کیاجائے
شیئر کریں
کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں گزشتہ روز راڈو بیکری کے قریب ایک اور خاتون ’چاقو بردار’ شخص کے حملے کا نشانہ بن گئیں ۔سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) گلشن غلام مرتضیٰ بھٹو نے صحافیوں کو بتایا کہ چاقو بردار شخص نے 28 سالہ خاتون کو حملے کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہوئیں اور انہیں طبی امداد کے لیے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو ہفتے کے دوران گلستان جوہر اور گردو نواح کے علاقوں میں کم وبیش15 خواتین چاقو بردار شخص کے حملے کانشانہ بن کر ہسپتال پہنچ چکی ہیں ،لیکن پولیس ان دوہفتوں کے دوران ابھی تک ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے صرف گلستان جوہر اور ارد گرد کے علاقوں ہی میں نہیں بلکہ پورے شہر میں خوف کا ماحول پیداہوگیاہے،اس خوف میں مزید اضافہ چاقو بردار شخص کی جانب سے اپنی وارداتوں کادائرہ گلشن اقبال ، گلشن جمال اور ڈالمیا تک کے علاقوں تک وسیع کئے جانے کے بعد بڑھا ہے اور عام طورپر یہ خیال کیاجارہاہے کہ گلستان جوہر کے علاقے میں پولیس کی چیکنگ سخت ہونے کے بعد ملز م اب شہر کے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کرسکتا ہے ،اور اسکول ،کالج اور نجی یونیورسٹیوں کی طالبات کو بھی نشانہ بنایاجاسکتاہے۔چاقو بردار ملزم کی جانب سے پے درپے وارداتوں اور اس میں اضافے کے بعد روز قبل ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ زون سلطان علی خواجہ نے ملزم کو مزید حملوں سے روکنے اور اس کی گرفتاری کے لیے علاقے کے 30 مقامات پر پولیس افسران کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔جبکہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) کراچی پولیس مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ گلستان جوہر کے علاقے میں خواتین کو چاقو کے وار سے زخمی کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے دوران 16 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔پولیس حملہ آور موٹر سائیکل سوار ملزم کو ’نفسیاتی مسائل‘ کا شکار قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔پولیس ملزم کے بارے میں مفروضات تو بہت پیش کررہی ہے لیکن اب تک ملزم کی گرفتاری میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔جس کااندازہ ملزم کی جانب سے وارداتوں کے تسلسل سے لگایاجاسکتاہے۔اس حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے گلستان جوہر میں سیکورٹی سخت کئے جانے کے بعد اب اس کی وارداتوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے اور پولیس ابھی تک یہ بھی معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ یہ وارداتیں کرنے والا حملہ آور تنہا ہے یا ان کی تعداد ایک سے زیادہ ہے۔ یہ چاقو باز صرف خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے،ابھی تک اس ’’سیریل‘‘ حملہ آور کا مقصد بھی واضح نہیں ہوسکاہے کیونکہ وہ نہ کسی کو ہلاک کرتا ہے نہ لوٹ مار کرتا ہے۔ بس کسی تیز دھار آلے سے وارکر کے نکل جاتاہے۔یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ وہ چست کپڑے پہننے والی خواتین پر حملہ کرتا ہے کیوں کہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اور بچیاں بھی اس کا نشانہ بنی ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس اور متعدد ایجنسیاں اب تک اسے پکڑنے میں ناکام کیوں ہیں ۔ پولیس کے علاوہ چپے چپے پررینجرز متعین ہیں ۔ سی ٹی ڈی ہے، سی آئی ڈی ہے اور نجانے کون کون سی ایجنسیاں ہیں ، وہ کیا کررہی ہیں ۔ کیوں نہیں گلستان جوہر اور اطراف کے علاقوں میں سادہ لباس والوں کا جال بچھایا گیا۔ ایک فرد چھلاوہ بن گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کاٹ رہا ہے۔ علاوہ ازیں پولیس نے بھی کبھی کسی زخمی خاتون کا بیان لینے اور حملہ آور کا حلیہ جاننے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے اور اس بنیاد پر پولیس نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض ہے کہ وہ صرف خواتین کو نشانہ بنارہا ہے۔جبکہ بظاہر صرف اس بنیادپر کہ وہ خواتین کونشانہ بنارہاہے ملزم کوذہنی مریض قراردینادرست نہیں ہے،صرف اس حوالے سے تفتیش کومحدود کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس کے دیگر ممکنہ پہلوئوں پر بھی غور کیاجانا چاہئے ،اور اس بات پر بھی غور کیاجانا چاہئے کہ اس علاقے میں نئے تعینات کئے جانے والے کسی افسر کے مخالف پولیس افسر اسے ناکام بنانے کے لیے اس طرح کی وارداتیں کرکے اسے واپس تو نہیں بھجوانا چاہتے،یا اس کے پیچھے پولیس کی کوئی اور باہمی چپقلش تو کارفرما نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کے حکم پر اپنے منصب پر بحال ہونے کے بعد اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرلیے ہیں جس کی وجہ سے بعض پولیس افسران کے مفادات پریقینا ضرب پڑی ہوگی اور اس کی وجہ سے خود پولیس افسران میں گروہ بندی ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس گروہ بندی میں کچھ آئی جی سندھ کے ساتھ ہوں گے اور کچھ صوبائی وزیر داخلہ یا کسی اور کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ چاقو باز کو گرفتار نہ کر کے آئی جی کو بدنام کرنا اور انھیں ناکام بنا کر عوام کی نظروں سے گرانا اور اس طرح منظر سے غائب ہو جانے پر مجبور کرنا مقصود ہو۔ ورنہ ایسا بھی کیا کہ صرف تین گھنٹے میں 5خواتین زخمی ہوگئیں ۔ متاثرہ خواتین کی تعداد 15ہوگئی ہے حکمرانوں نے نوٹس لے کر ہدایات جاری کردی ہیں کہ یہ کیا جائے اور وہ کیا جائے،لیکن کوئی ایک فرد یا گروہ قابو میں نہ آرہا ہو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہماری پولیس ، انٹیلی جنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کسی ایک ذہنی مریض یا اس شہر میں امن وامان کی بحالی سے پیدا ہونے والے فضا اور ماحول کوتباہ کرنے کے درپے گروہ کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں تو خدانخواستہ کسی دشمن ملک کے لیے کام کرنے والے ایسے گروہ یا عناصر کامقابلہ کس طرح کیاجائے گا، پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی اس بے بسی یاناقص کارکردگی پر بعض حلقے یہ کہہ سکتے ہیں اور یہ کہنے میں وہ حق بجانب ہوں گے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس بے عملی کی وجہ یہ ہے کہ اب تک عام خواتین ہی زد میں آئی ہیں ۔ کسی با اثر اور بڑے گھر کی خاتون زد میں نہیں آئی کیوں کہ نشانہ تو سڑک پر چلنے والی عورتیں اور بچیاں ہی بن رہی ہیں ، کار سوار خواتین محفوظ ہیں ۔ عام لوگ تو خواتین ہوں یا مرد اللہ کے بھروسے پر گھروں سے نکلتے ہیں ۔ پولیس مشکوک افراد کو پکڑ پکڑ کر چھوڑ دیتی ہے۔ بغیر کسی ثبوت اور سی آئی ڈی رپورٹ کے یہ کام بھی غلط ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاحکمران اس حوالے سے کارروائی اور ملزم کی گرفتاری کے لیے1985 جیسے کسی عوامی احتجاج اور مظاہرے کے منتظر ہیں ۔ جس علاقے میں پے درپے وارداتیں ہورہی ہیں اس علاقے کے نہ صرف یہ کہ تھانے داربلکہ پورے تھانے کو معطل کر کے دیکھیں ، کام آسان ہو جائے گا۔ وہ پولیس جو بڑے بڑے مجرم پکڑ رہی ہے اور مقابلوں میں ہلاک کررہی ہے اس سے ایک ایسا شخص کیوں نہیں پکڑا جاتا سب کچھ کھل کر سامنے آجائے گا جب علاقے کے تھانیدار اور دیگر اہلکاروں کے سروں پربرطرفی اور تادیبی کارروائی کی تلوا ر لٹکے گی تو وہ 24گھنٹے تو کجا 2گھنٹے میں مجرم کو بمع اس کے خاندان پکڑ کر داخل زنداں کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے ۔ آئی جی سندھ کو اس حوالے سے غور کرنا چاہئے اور 2ہفتہ گزرجانے کے باوجود چاقو بردار حملہ آور کی گرفتاری میں ناکام رہنے والے تھانے کے تمام اہلکاروں کوفوری طورپر معطل کرکے نئے اور ایماندار پولیس اہلکاروں کو ملزم کو پکڑنے کافریضہ سونپ دینا چاہئے۔امید کی جاتی ہے کہ آئی جی سندھ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔