میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو تبدیلی کرنے کی لایعنی مہم

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو تبدیلی کرنے کی لایعنی مہم

منتظم
بدھ, ۴ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو تبدیل کرنے کی جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے،اور اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان زبانی جنگ وقت کے ساتھ ہی تیز تر ہوتی جارہی ہے۔
اب جبکہ قومی اسمبلی کی میعاد ختم ہونے میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں پاکستان تحریک انصاف کو اچانک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ، یہ ایک ایسا سوال ہے پاکستان کاہر شہری تحریک انصاف کے رہنمائوں سے اس سوال کاجواب جاننا چاہتاہے، اگرچہ تحریک انصاف کے رہنمانعیم الحق نے اس کاجواز یہ پیش کیاہے کہ چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ قائد حزب اختلاف ن لیگ کی حکومت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ، اور انھوں نے آج تک کسی بھی معاملے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے یعنی مشکل سے دوچار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی انھوں پارلیمنٹ کی احتساب کمیٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود ن لیگ کی کرپشن کی جانب سے آنکھیں بند کئے رکھیں،انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ موجودہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کاماضی داغدار ہے ، اس لیے خدشہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور نگراںوزیر اعظم کے تقرر کے حوالے سے بھی اپنا یہی رویہ برقرار رکھیں گے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کی پارٹیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے ،اس لیے اب ضروری ہوگیاہے کہ ان کی جگہ کسی ایسے رکن اسمبلی کو قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز کیاجائے جو حکومت کے ساتھ سختی سے بات کرنے کااہل ہو اور حکومت کو اہم فیصلوں کے حوالے سے من مانی سے روکنے کی صلاحیت رکھتاہو۔دوسری جانب موجودہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا موقف یہ ہے تحریک انصاف کی جانب سے قائد حزب اختلاف تبدیل کرنے کی اس مہم جوئی سے اپوزیشن کی طاقت تقسیم ہوگئی ہے ، جس سے حکومت کو فائدہ پہنچے گا ،انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کو ان سے شکایت تھی یا عمران خاں خود قائد حزب اختلاف بننا چاہتے تھے تو وہ مجھ سے بات کرتے میں اپوزیشن کو تقسیم ہونے سے بچاتے ہوئے ان کی خواہش پوری کردیتا۔
قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کی اس جنگ میں شریک دونوں فریقوں کی رائے میں اپنی اپنی جگہ وزن موجود ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ 4 سال کے دوران فرینڈلی اپوزیشن کاہی کردار ادا کیاہے اور پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بعض مشکل مواقع پر حکمران مسلم لیگ ن کوبچانے اور مشکلات سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیاہے۔ اس اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خورشید شاہ کے حوالے سے ظاہر کئے جانے والے خدشات کو بے بنیا د قرار نہیں دیاجاسکتا،لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک انصاف نے اچانک قائد حزب اختلاف کے خلاف مہم جوئی کافیصلہ کیوں کیا ؟ اگر تحریک انصاف واقعی قائد حزب اختلاف کو تبدیل کرنا چاہتی تھی تو اسے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی دوسری جماعتوں اورآزاد اراکین اسمبلی کے ساتھ ملاقاتوںاور رابطوں کے ذریعہ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہئے تھا اور محض اس مفروضے پر کہ ان کی جانب سے شروع کی گئی تحریک کا اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ساتھ دیں گی اتنی بڑی تحریک شروع کرنے سے احتراز کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف یا متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے تحریک فوری طورپر بحث کے لیے منظور کرلی جائے اور اس پر رائے شماری کرائی جائے تو پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے تمام اراکین یکسو اور متحدہوکر بھی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ ہزیمت اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور وہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے حوالے سے اپنی رائے کی اہمیت اور وزن بھی کھوبیٹھیں گے،جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک کی ناکامی کی صورت میں قائد حزب اختلاف خورشید کاقد اور بھی بلند ہوجائے گا اور قومی اسمبلی میں ان کی رائے کی اہمیت میں اضافہ ہوجائے گا۔ بالفرض محال اگر پاکستان تحریک انصاف قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو ہٹانے کے لیے اپنی تحریک کے لیے اسمبلی میں عددی برتری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں خورشید کی جگہ پاکستان تحریک انصاف کے نامزد رکن قومی اسمبلی کو یہ منصب دیاجاتاہے تو بھی پاکستان تحریک انصاف کو حاصل ہونے والی یہ کامیابی اپنی مرضی کے مطابق الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے تقرر یا نگراں وزیر اعظم کے انتخاب کے حوالے سے کسی کام نہیں آئے گی،کیونکہ نگراں یاعبوری وزیر اعظم کاانتخاب کرنے کے لیے قائم کی گئی غیر جانبدار کمیٹی میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور آئین کی دفعہ اے224 کے تحت اگرنگراں وزیر اعظم کے تقرر کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوتا توپھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 8 ارکان پر مشتمل ایک غیر جانبدار کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی،یہ ایک واضح امر ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف اپنے رکن اسمبلی کو قائد حزب اختلاف بنانے میں کامیاب ہوگئے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے مقرر کردہ قائد حزب اختلاف کے درمیان عبوری وزیراعظم کے انتخاب پر اتفاق رائے ہونے کاکوئی امکان نہیں ہے اس طرح اپنا قائد حزب اختلاف بنوانے میں کامیابی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نہ تو اپنی پسند کے مطابق کسی کو چیف الیکشن کمشنر بنوانے میں کامیاب ہوسکے گی اور نہ ہی اپنی پسند کا عبوری وزیر اعظم مقرر کراسکے گی۔جہاں تک ن لیگ کی کرپشن کی جانب سے آنکھیں بند کئے جانے کا تعلق ہے تو اب یہ معاملات سپریم کورٹ میں پہنچ چکے ہیں جہاں نہ تو موجودہ قائد حزب اختلاف ن لیگ کی کسی طرح مدد کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف ن لیگ کو مزید کسی طرح کانقصان پہنچانے یا ان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔
اس صورت حال کاتقاضہ یہی تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے مہم جوئی کے ذریعے اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے اور اس طرح حکومت کے کام کو زیادہ آسان بنانے کے بجائے کچھ اور انتظار کرتے اور اندرون خانہ پاکستان پیپلزپارٹی پر دبائو بڑھانے اور اس طرح اپنی مرضی کے مطابق اقدامات پر مجبور کرتے اس طرح حزب اختلاف کی ساکھ بھی قائم رہتی اور پاکستان تحریک انصاف اپنے مقاصد زیادہ جمہوری انداز میں حاصل کرسکتی تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو اس پوری صورت حال کا گہری نظر سے جائزہ لینا چاہئے اور قائد حزب اختلاف تبدیلی کرنے کی کوششوں میں مصروف رہ کر اپنے دامن پر بلاوجہ ایک اور دھبہ لگانے سے گریز کرتے ہوئے اس مہم جوئی کو ترک کرکے اپوزیشن کومضبوط ومستحکم کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے پر غور کرنا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں