میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی خوش فہمیاں

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی خوش فہمیاں

جرات ڈیسک
منگل, ۷ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

فیصلہ ہو گیا، 8فروری کو انتخابات ہوں گے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے دعویٰ کیاہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب اورقومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کے سامنے آئے گی۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نے دعویٰ کیا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مثبت سوچ رکھنی ہوگی، خواہش ہے کہ سب مل بیٹھ کر ملک کو درست سمت پر لائیں۔ کسی ایسے شخص کو آگے نہیں لانا جو افرا تفری پیدا کرے، بہت جلد ن لیگ کی سرگرمیاں زور پکڑ لیں گی۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے الیکشن کی تاریخ 8 فروری کو دینے کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدر مملکت میں 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات منعقد کروانے پر اتفاق خوش آئند ہے۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت ہی ملک کو صحیح سمت میں لے جا سکے گی۔ دعا ہے کہ یہ انتخابات پاکستان کو نہ صرف استحکام بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے اور نفرتوں اور انتشار کی سیاست کے خاتمے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر موقع دیا اور عوام نے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا تو نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی ترقی کا سفر وہیں سے دوبارہ شروع ہو گا جہاں اسے روک دیا گیا تھا۔ دوسرے جانب پیپلز پارٹی کااصرار ہے عام انتخابات میں فتح پیپلز پارٹی کی ہو گی جس کے پاس ممکنہ طور پر سندھ بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پرایم کیو ایم، جے یو آئی اور اے این پی کے ساتھ ساتھ آئی پی پی کے پاس بھی سیٹیں ہوں گی۔تاہم بعض تجزیہ نگاروں کاکہناہے ایک فارمولا یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے پاس سادہ اکثریت ہو اور تمام حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت۔ دوسرا فارمولا یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پاس سادہ اکثریت سے کچھ کم نشستیں ہوں جیسا کہ عمران خان کے پاس تھیں لیکن ا س پر دوسری جماعتوں کا کچھ شیئر بڑھانا ہو گا تاکہ کسی وقت کوئی آئینی ترمیم کرنا پڑے تو وہ کی جا سکے۔آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بننے دیں گے اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ16 ماہ میں حکومت کی کارکردگی بہت ماٹھی رہی ہے۔ آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم اور سابق اتحادی شہباز شریف پر سیاسی اور زبانی وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف کو میں نے وزیر اعظم بنوایا تھا لیکن انہوں نے عوام کے لیے کام نہیں کیا۔زرداری کا یہ الزام کلی طورپر درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ حقائق بتاتے ہیں شہباز شریف یا پی ڈی ایم حکومت نے اپنی 16 ماہ کی حکومت کے دوران عوام کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے بہت سے ایسے کام کیے ہیں جن سے بہت سے سیاست دانوں کو ذاتی حیثیت اور سیاسی جماعتوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ پھر بلاول زرداری وزیر خارجہ بھی تو بن گئے اس سے زیادہ فائدہ کیا ہو گا؟ زرداری کی جماعت کے پاس بھی وزارتیں تھیں اگر شہباز شریف نے کام نہیں کیا تو وہ اپنی وزارتوں کے ذریعے عوام کی خدمت کر لیتے؟ انہیں کسی نے روکا تو نہیں تھا۔ شہباز شریف وزیراعظم تھے لیکن آصف علی زرداری نے اپنی مرضی سے نجم سیٹھی کی جگہ نواز شریف کی خواہش کے برعکس چوہدری ذکاء اشرف کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا۔ چینی کی درآمد برآمد کی وزارت بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھی اس میں جو کچھ ہوا ہے کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہے پھر بھی یہ کہنا کہ شہباز شریف نے کوئی کام نہیں کیا اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بات کچھ اور ہے۔زرداری نے شہباز شریف کو تو یہ کہہ دیا کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا لیکن کیا وہ پاکستان کے لوگوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ دہائیوں تک سندھ پر حکومت کرنے کے باوجود وہ آج تک نواب شاہ میں ایگریکلچر یونیورسٹی قائم کیوں نہیں کر سکے؟ وہ آج عین انتخابات سے قبل نوابشاہ میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیوں کر رہے ہیں؟ وہ آج وہاں پولیس یونیورسٹی قائم کرنے کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ یہ اہم کام انہوں نے بالخصوص گزرے5 برسوں کے دوران کیوں نہیں کیے؟ روہڑی کینال پر بجلی پیدا کرنے کیلئے ہائیڈرو سسٹم لگایا جائے گا۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی کو آج بھی یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ وہ زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے بھی وعدے اور اعلانات کر رہے ہیں۔جہاں تک آصف زرداری کا شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے دعوے کاتعلق ہے تویہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ کسی کو وزیراعظم بنوانے یا نہ بنوانے کے معاملے میں آصف زرداری کوکبھی کوئی اختیار نہیں رہا جن کے پاس اختیار ہے وہ اب بھی نواز شریف کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف زیادہ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ نبھا سکتے ہیں مگر شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے نام پر اڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ابھی تک معاملہ ففٹی ففٹی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن نواز شریف کے نام پر ڈٹ گئی تو اس کے پاس قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کیلئے پوری نشستیں نہیں ہوں گی لیکن جہاندیدہ لوگوں کاکہناہے کہ اگر شہباز شریف کا نام فائنل ہو گیا تو پھر مسلم لیگ ن کے پاس سادہ اکثریت موجود ہوگی اور دو تہائی اکثریت حلیفوں کے ذریعے ممکن ہو گی،لیکن یہ اندازے اپنی اپنی پسند اورناپسند کی بنیاد پر لگائے جارہے ہیں کیونکہ ابھی تک کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اگر اصلی شیر جس کو پنجرے میں بند کرکے یہ اندازے لگائے جارہے ہیں باہر آگیا تو تمام پارٹیوں کی سٹی گم ہوسکتی ہے اور شریف برادران کو ایک دفعہ پھر طشتری میں سجاکر وزارت عظمیٰ پیش کرنے والے نادیدہ ہاتھ بھی بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوجائیں گے اور پھر وہی ہوگا مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو جس کااچھی طرح اندازہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف نے ابھی تک جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کررکھاہے۔
جمہوری اصولوں کے تحت ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ حکومت میں آنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے، پاکستان میں جو مخصوص اور محدود سیاسی ماحول ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوام سے رابطہ رکھنے، ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد بھی حاصل کی جائے،حالات و واقعات کے مطابق مقتدر حلقے مختلف اوقات میں مختلف تجربے کرتے رہتے ہیں، کچھ حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جارہا تھا کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی، پیپلز پارٹی کے زیادہ تر لیڈر اس حوالے سے کامل یقین کی حد تک پر اعتماد تھے، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ن لیگ سے رابطے اور استحکام پاکستان پارٹی کے قیام نے پیپلز پارٹی کو اس خواب غفلت سے جگایا ورنہ یہی سمجھا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کے بعد سارا اچھا مال خود بخود پیپلزپارٹی کی جھولی میں آگرے گا،یہ حقیقت ہے ماضی ہو یا حال دونوں پارٹیوں (پی پی اور ن لیگ) نے ایک دوسرے کو چکر دے کر اپنا چکر چلانے کی کوشش کی، اس مرتبہ بھی یہی ہورہا تھا،پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی کے تلخ تجربات کے باعث نواز شریف کو واپس نہیں لائے گی، پی ڈی ایم کی حکومت کی16ماہ کی کارکردگی کے بعد شہبازشریف اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ موثر انتخابی مہم چلا سکیں کیونکہ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود سارا ملبہ ن لیگ پر ہی گرے گا۔یوں پیپلز پارٹی کے لیے راستہ صاف ہو جائے گا لیکن اب نواز شریف کو وطن واپسی پر مبینہ طورپر نادیدہ ہاتھوں کے اشارے پر جس انداز سے پروٹوکول دیاگیاہے اس نے ن لیگ کو ایک دفعہ پھر خواب میں وزارت عظمیٰ نظر آنے لگی ہے،نواز شریف کو جس بھونڈے انداز میں پروٹوکول دیاگیاہے اس سے ایک تاثر یہ بھی ابھرتاہے کہ نادیدہ ہاتھوں نے اس طرح عوام پر یہ واضح کردیاہے کہ نواز شریف نادیدہ ہاتھوں کا کھلونا ہیں اور یہی وہ تاثر ہے عام انتخابات میں جو مسلم لیگ ن کیلئے سم قاتل بن سکتاہے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے، پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کررہی ہے۔

پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہیں؟قدرت کے انمول خزانے پاکستان میں موجود ہیں۔ یہاں محنت کرنے والے لوگ ہیں یہاں سب کچھ ہے اگر فقدان ہے تو وہ عوام کے حقیقی نمائندوں کا ہے۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے بدخواہوں نے اسے ناکام ریاست کہنا شروع کردیا تھا۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اول دن سے قوم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ نواب، سردار، خان، وڈیرے، جاگیر دار، سرمایہ دار اور ہر دو قسم کی بیوروکریسی عوام کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر غور فرمائیں کہ یہاں کن طبقات کی اجارہ داری ہے؟ قرآنِ مجید نے فرعون، ہامان اور قارون کی شکل میں تین کرداروں کا بتایا ہے، فرعون ملوکیت کا مجموعہ، ہامان مذہبی پیشوائیت کا نمائندہ اور قارون نظامِ سرمایہ داری کی ہوس اور حِرص کا پیکر۔ قرآنِ حکیم کے بتائے گئے ان کرداروں کی روشنی میں اپنے سیاسی نظام اور وسائل و اختیارات پر قابض طبقات پر غور فرمائیں تو قرآن حکیم کے یہ کردار آج بھی اپنی چیرہ دستیوں کے ساتھ ہمیں اپنے سامنے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے لیے ضروری ہے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سیاست اور معیشت پر قائم تسلط توڑا جائے۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں کروڑوں روپے کے عوض ٹکٹ جاری کرتی ہیں،انتخابی اخراجات بھی کروڑوں میں ہوتے ہیں ایسے ماحول میں ایساکوئی آدمی کیسے امیدوار بن سکتا ہے،جو واقعی عوام کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور عوام اُسے اپنا حقیقی نمائندہ بھی سمجھتے ہوں۔دیہات میں مزارع اور شہر میں کمی کمین سمجھے جانے والے ووٹرز، اشرافیہ کی نظر میں ایک ایسی مخلوق ہیں،جسے انتخابی مہم کے دِنوں میں لچھے دار باتوں اور مالی ترغیبات کے ذریعے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے،ویسے تو اشرافیہ ایک ذہنیت کا نام ہے اور وہ بالادست طبقے کے مختلف حصوں میں موجود ہے۔ریاستی مشینری چلانے والے اداروں میں بھی اُس کا وجود ہے اور معاشرے کے طاقتور حلقوں میں بھی اُس کی جڑیں ہیں تاہم عوام کا بس چونکہ صرف سیاست پر چلتا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب انتخابات قریب آتے ہیں تو اُن کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے ووٹ سے سب کچھ بدل کر رکھ دیں،کسی طرح اُن محرومیوں کو دور کریں جو نسل در نسل اُن کا مقدر بنی ہوئی ہیں،مگر76 برسوں میں انہیں آج تک ایسا موقع ہی نہیں ملا،جس سے وہ سب کچھ بدل دیں،شرافیہ کے ملک پر قبضے کی اصل جڑ ہے، یہی وہ الیکٹیبلز ہیں جنہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدوار بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اول و آخر مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے حلقے میں عوام کے کسی حقیقی نمائندے کو نہ اٹھنے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے اشرافیہ کے جس قبضے کا ذکر کیا ہے وہ ایک بڑے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے،لیکن اس ناامیدی کے ماحول میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہماری آبادی میں ایک نئی نسل بالغ ہو چکی ہے جو ووٹروں کی کل تعداد میں زیادہ نہیں تو50فیصد ضرور ہے اتنی بڑی تعداد کو ماضی کے طریقوں سے ہانکا نہیں جا سکتا، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے جو شعور آیا ہے،اُس کے نتیجے میں حالات بہت بدل گئے ہیں۔ نئی نسل میں شعور جاگ چکا ہے اور اب انہیں الٹے سیدھے اقدامات اور شعبدوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا،کچھ لوگ اس کا کریڈٹ عمران خان کو دے رہے ہیں،جنہوں نے نئی نسل میں یہ شعور بیدار کیا ہے کہ وہ اپنے حق کیلئے اُٹھ کھڑی ہو۔اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ پچھلے آٹھ دس برسوں میں بالغ ہونے والے نوجوانوں کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے۔یہ وہ نوجوان ہیں جو دنیا میں ہونے والے واقعات کو اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں انہیں کسی کنٹرول میڈیا کے ذریے اپنی پسند کی خبریں نہیں پہنچائی جا سکیں۔اب اطلاع کے ایک سے زیادہ ذرائع آ گئے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں خبر بعد میں آتی ہے سوشل میڈیا پہلے نشر کر دیتا ہے۔اس نسل کے بارے میں روایتی انداز سے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے مرضی کی ذہن سازی نہیں کی جا سکتی۔یاد رہے کہ یہ نئی نسل ہر لحاظ سے باخبر ہے۔سیاست کے رموز بھی اسے ازبر ہو چکے ہیں، آج کے سیاست دان اپنے حلقوں کی اسی نوجوان آبادی سے خوفزدہ ہیں جو اپنے بزرگوں سے ہٹ کر فیصلے کرنے پر چل پڑی ہے۔ایسا نہیں کہ سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے غافل ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کو جو کچھ سامنے ہوتا نظر آ رہا ہے، اُس پر انہیں کیسے مطمئن کیا جائے گا۔وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے تو کہہ دیا ہے تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی،اس سے زیادہ لیول پلیئنگ فیلڈ اور کیا ہو سکتی ہے،مگر سامنے کے حالات پر تو وہ پردہ نہیں ڈال سکتے۔ایک طرف جب نوجوان یہ دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے اعلان کے ساتھ ہی اس پارٹی کے ان سرکردہ رہنماؤں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیاجارہا ہے، ایک سیاسی جماعت کو ہر قسم کی سرگرمیوں اور جلسے جلوسوں کی اجازت ہے اور دوسری طرف اجازت لینے کے باوجود ناپسندیدہ جماعت کو ورکر کنونشن بھی نہیں کرنے دیا جاتا،گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں کو ضمانتوں کے باوجود گرفتار کر لیا جاتا ہے تو اُن کے ذہنوں میں سوالات تو اٹھتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کو فری ہینڈ دے کر میدان میں اتار دیا جائے کہ نئی نسل اس پر اپنی آمادگی کی مہر تصدیق ثبت کر دے تواُسے قائل تو کرنا پڑے گا۔نواز شریف کریں یا بلاول زرداری۔لاکھوں نوجوان تو ایسے ہیں جو اس بار اپنی زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالیں گے وہ روایتی ہتھکنڈوں سے آگاہ ہیں اور نہ ہی انہیں اِس بات کا علم ہے کہ ووٹ بکتا کیسے ہے؟ وہ سالہا سال سے ووٹ ڈال کر مایوس ہونے والوں کی طرح مایوس بھی نہیں۔اُن کے اندر ایک جذبہ بھی ہے اور شوق بھی کہ وہ پولنگ ا سٹیشن پر جائیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام پر مہر لگائیں۔انہیں اگر اس کا آزادانہ موقع فراہم نہیں کیا جاتا تو جمہوریت سے اُن کے متنفر ہونے کی پہلی اینٹ رکھ دی جائے گی۔جو کسی طوربھی اس ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں