میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان تعلقات کے نئے دور کا آغاز

پاک افغان تعلقات کے نئے دور کا آغاز

ویب ڈیسک
منگل, ۳ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان کابل میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری کئے گئے اعلامئے میں کہاگیا ہے کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے، اور امن دونوں ملکوں کی مشترکہ ضرورت ہے ، افغان صدر اشرف غنی نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات میں طے پانے والی امور پر اطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے اس ملاقات کو پاک افغان تعلقات کے نئے دور کاآغاز قرار دیاہے جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر پر واضح کیاہے کہ یہ وقت ماضی کو بھلا کر آگے قدم بڑھانے کا ہے ۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات کے دوران علاقائی سیکیورٹی ، دہشت گردوںکی بیخ کنی اور پائیدار امن کے قیام سے متعلق اموراور پاک افغان دوستانہ تعلقات کے حوالے سے مختلف معاملات پر تبادلہ خیالات کیا ۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے سے ظاہر ہوتاہے کہ افغان رہنمائوں کو اس بات کا احساس ہوچکاہے کہ پاکستان کے قریبی تعاون اور اشتراک کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا،اور بھارت کے اشاروں پر ناچتے رہنے سے افغانستان کو آگ وخون کے سوا کچھ حاصل نہیںہوسکتا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں افغان اور امریکی فورسز اور اہم تنصیبات پر طالبان کے حملوں اور اس کے نتیجے میں افغان فورسز اور سرکاری تنصیبات کو ہونے والے بھاری جانی ومالی نقصان سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا اپنی تمام تر کوششوں کے باجود افغانستان میںطالبا ن کازور توڑنے میں نہ صرف یہ کہ بری طرح ناکام رہا ہے اور افغانستان کے 40فیصد سے زیادہ حصے پر اب بھی طالبان قابض ہیں بلکہ طالبان ایک دفعہ پھر افغانستان میں اپنیقدم مضبوطی سے جمانے کی کوشش کررہے ہیں اورانھوں نے اتنی طاقت جمع کرلی ہے کہ وہ افغان اور امریکی فورسز کے سیکورٹی انتظامات تہہ وبالا کرسکتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں جوکچھ ہورہاہے اور طالبان اور داعش کے جنگجو جس طرح افغان فوج پر حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں اس ظاہرہوتاہے کہ افغان حکومت اپنے بھارتی اور امریکی صلاح کاروں اورفوجی تربیت کاروں کی تمامتر معاونت کے باوجود ملک پر اپنی رٹ قائم کرنے میںنہ صرف یہ کہ مکمل طورپر ناکام رہی ہے ،بلکہ بھارتی مشیروں کے مشوروں پر پاکستان کی جانب سے طالبان اور جنگجوئوں کے خلاف آپریشن میں رخنے ڈالنے کی وجہ سے افغان حکومت خود اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہے جس کے نتیجے میں اب افغانستان مکمل تباہی کی جانب گامزن ہے، اس صورتحال سے اب یہ محسوس ہونے لگاہے کہ امریکا کی زیر قیادت اتحادی ممالک نے برسہابرس کی جدوجہد کے بعد جوافغانستان میں طالبان اور جنگجوئوں کا زور توڑ کر افغان حکومت کی عملداری قائم کرنے کے حوالے سے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں ان کا خاتمہ ہورہاہے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنیاد پر امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد افغانستان میں فوجوں کی تعیناتی اوراس حوالے سے فوجی حکمت عملی کی تمامتر ذمہ داری امریکی محکمہ دفاع کو سونپنے کااعلان کردیاتھا اگرچہ امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے اپنی حالیہ تقریر میں افغانستان میں اپنی ناکامیوںکا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کی دعوت دے کر دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کو نظر انداز کرنے بلکہ ان قربانیوں کی تضحیک کرتے ہوئے پاکستان پر مزید پابندیاں عاید کرنے کا عندیہ دیاتھا جس پر فوری طورپر عملدرآمد بھی شروع کردیاگیاتھا لیکن اس صورت حال پر پاکستان کے فوری اور سخت ردعمل نے امریکی صدر اور انتظامیہ کواحساس دلادیاتھا جس کے بعد سے امریکی رہنما مسلسل اپنے صدر کی تقریر کے حوالے سے وضاحتیں کرنے اور پاکستان کو رام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
افغانستان میںامریکی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ دنوں اٹلانٹک کونسل نے افغانستان اور امریکی سلامتی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں یہ سوال اٹھایاتھا کہ کیا 11ستمبر2001 کے حملوں کے 14سال بعد اب بھی افغانستان میں انسانی قربانیوں اور مالیاتی ،سیاسی ،فوجی اور انٹیلی جنس کے لیے سرمایہ کاری کا کوئی جواز باقی ہے؟۔امریکی عوام کے مفادات کے اعتبار سے یہ ایک اہم اورچبھتاہوا سوال ہے اور امریکی عوام یہ سوال کرنے میں یقینا حق بجانب ہیں کہ ان کی محنت کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی رقوم کہاں اور کس طرح خرچ ہورہی ہیں اوراس سے امریکی حکومت اور عوام یا دنیا کے دیگر کسی ملک کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہورہے ہیں ،اگرچہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ انسداد دہشتگردی کے لیے امریکا اور افغانستان کے اشتراک عمل اور اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ امریکا کی مضبوط ومسلسل شراکت اور فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کے تسلسل سے اس خطے سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی اور اس طرح کی طویل المیعاد ہمہ جہت اور ہمہ اقسام کی حکمت عملی کے ذریعہ پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے پنجے گاڑنے سے روکنے میں موثرطور پر روکا جاسکتا ہے ۔ لیکنایسا صرف اسی وقت ممکنہے جب خو د افغان حکمراں اس ملک پر اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کریںاور بھارت یاکسی اور ملک کے صلاح کاروں کے مشورے پر آنکھ بند کرکے عمل کرنے کے بجائے خود زمینی حقائق کاجائزہ لے کر اپنی حکمت عملی تیار کریں اور پھر اس پر پوری طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں، اس حوالے سے امریکا کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے افغان حکمرانوں کو اس بات کاجائزہ لینے پر مجبور کرنا چاہئے کہ آخر امریکا کی بھرپور فوجی اورمالی امداد اور امریکی فوجیوں کی جانب سے جنگجو عناصر کے خلاف کئے جانے والے مسلسل آپریشن اور طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کے باوجود ان کی طاقت کیوں نہیں ٹوٹ رہی ہے؟ افغان اور امریکی حکومت کے مسلسل آپریشن کے باوجود افغانستان میں طالبان اور داعش کا پھلنا پھولنا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان کے اندر بلکہ افغان حکومت کے اندر موجود کوئی مضبوط گروپ حکومت پر اپنی گرفت مستحکم کرنے اور دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے کے لیے پس پردہ ان کی مدد اور معاونت کررہاہے ،اور یہ بات واضح ہے کہ جنگجو عناصر کو جب تک حکومت کی اندرونی سطح سے مدد اور معاونت حاصل رہے گی ان کے خلاف کسی بھی آپریشن اور کارروائی کے مثبت اور موثر نتائج سامنے نہیں آسکتے،اس حوالے سے پاکستان کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے جب تک پاکستان میں دہشت گردوںکے خلاف کارروائی دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں تک محدود رہی اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے لیکن جب پاک فوج نے دہشت گردوں کے مددگاروں ،سہولت کاروںاور معاونین پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا دہشت گردوں کی سرگرمیاں صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اگرچہ پاکستان سے ابھی تک دہشت گردوں کامکمل طورپر خاتمہ ممکن نہیں ہواہے اور وہ اب بھی نرم گوشے تلاش کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیںلیکن اب ان کی یہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں جن کا جلد خاتمہ ہوجانا یقینی ہے۔
امریکا کا بنیادی مقصدافغانستان سے القاعدہ اور طالبان کو منتشر کرکے ان کا خاتمہ کرنے اور انھیںافغانستان یا پاکستان یا کسی اور ملک کی سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ کے طورپر استعمال کرنے سے روکناہے اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی حکومت بھی طالبان اور دہشت گردی کے خطرات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے اپنی سلامتی اوراستحکام کو یقینی بنانے کے لیے طالبان اور دہشت گردی کا جم کر مقابلہ کرے اورطالبان اور ان کے ذیلی جنگجو گروپوں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی پالیسی ترک کرکے اس کام میں حکومت پاکستان اور پاک فوج کی مکمل حمایت مدد اور معاونت کرے اور افغانستان کے اندر طالبان اور جنگجوئوں کے قائم کردہ مضبوط اڈوں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے کئے جانے والی آپریشن پر اعتراضات اٹھانے کے بجائے پاک فوج کو افغانستان میں جنگجئوئوں کے محفوظ ٹھکانوں تک رسائی کے لیے پوری پوری سہولت فراہم کرے۔پوری دنیا اب یہ بات اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خطرات اس خطے اور اس سے بھی آگے پوری دنیا میں دہشت گرد گروپوں سے جڑے ہوئے ہیں۔اس صورت حال میں القاعدہ اور داعش کو شکست دینے اورانتہا پسندانہ اور پرتشدد نظریات کا خاتمہ کرنے اورالقاعدہ اور داعش کی جانب سے اسلامی بنیاد پرستی کے خیالات کی نفی اور ان کاخاتمہ کرنے کے لیے ایک ایسی طویل المیعاد حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اورمذاکرات کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری کئے گئے اس بیان کی حقیقت سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان اورافغانستان میں امن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ،دہشت گردی دونوںملکوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور پائیدار امن دونوں ملکوں کی مشترکہ ضرورت ہے ۔تاہم اس حوالے سے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ مین افغان حکومت کی ذمہ داریاں دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہیں کیونکہ افغانستان ہی اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں اب بھی جنگجئوئوں نے نہ صرف اپنے مضبوط ٹھکانے اور کمین گاہیں قائم کررکھی ہیں بلکہ افغان سرزمین کو تربیتی میدان کی حیثیت سے استعمال کرکے دہشت گردی کو پوری دنیا تک پھیلانے میں مصروف ہیں اس صورت حال میںضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کو اس طرح کام کرنا چاہئے کہ اس کے مثبت اثرات نہ صرف افغان عوام پر ظاہر ہوں بلکہ بین الاقوامی براداری بھی انھیں محسوس کرسکے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیاجانا ایک خوش آئندبات ہے اور اس سے ظاہرہوتاہے کہ افغان صدر نے پاکستان کے حوالے سے اپنی سابقہ پالیسی پر نظر ثانی کی ہے اور وہ اب پاکستان کے ساتھ مل کر پائیدار امن کے قیام کے لیے کام کرنے کی ضرورت کو سمجھنے لگے ہیں،اس حوالے سے اب افغان صدر کو یہ بات اچھی سمجھ لینی چاہئے کہ وہ اپنی ناکامیاں اور خامیاں دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش کرکے اپنے ملک کی سلامتی کو محفوظ نہیں بناسکتے، دوسروں کواپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینے سے افغانستان کی سلامتی کے تحفظ میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔اس کے لیے انھیں نہ صرف یہ کہ خودکفالت کے حصول کاعمل جاری رکھنا ہوگابلکہ اس عمل کو اس طرح تیز کرناہوگا کہ اس ملک میں بین الاقوامی برادری کاکردار بتدریج کم اور بالآختم کیاجاسکے۔یہ صحیح ہے کہ مضبوط جمہوری ممالک میں اتحادی حکومتوں کو قائم رکھنا اور اس کے تحت حکومتوں کا کام کرنا مشکل ہوتاہے جبکہ افغانستان کو مختلف چیلنجوں کاسامنا ہے،لیکن افغانستان کے دوست ممالک افغان حکومت کے تیار کردہ منصوبے کے مطابق سیاسی اور عملی طورپر افغانستان میں سلامتی کے تحفظ ، اور اقتصادی اورسیاسی اور اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل میں مدد دینے کو تیار ہیںلیکن اس کے لیے افغان صدر اشرف غنی کو اپنی حکومت کی ترجیحات کا خود تعین کرناہوگا اور بھارتی صلاح کاروں کے چنگل سے نکل کر اپنے فیصلے خود کرنے کی جرات اور ہمت پیدا کرنا ہوگی ۔اس بات کاتعین کہ کیا افغانستان اب بھی امریکا اور بین الاقوامی برادری کی سیاسی ، مالی اور فوجی امداد کامستحق ہے یا نہیں بہت اہم اور نازک ہے اور اس کاتعین افغان حکومت اور حکمرانوں کی کارکردگی اور قول وعمل کو جانچ کرہی کیاجاسکتاہے۔
امریکا کا اسٹریٹیجک مقصد امریکی افواج کو لڑائی سے نکال کر افغانستان کی سلامتی اور سیکورٹی کی ذمہ داری افغان حکومت کے سپر د کردیناتھا گزشتہ کئی سال سے امریکا فوجی افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور ملک کے تحفظ کے لیے زیادہ ترافغان افواج کے تربیتی اور معاونت کے کاموں میں مصروف تھے۔لیکن افغانستان کے مختلف علاقوں میں فوجی ٹھکانوں اور چیک پوسٹوں پر طالبان اور داعش کے پے درپے حملوں نے یہ ثابت کردیاہے کہ امریکا اپنے مقصد میں یعنی افغان فوج کو افغانستان کی سلامتی اور سیکورٹی کا تحفظ کرنے کے قابل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔ طالبان کی جانب سے افغان حکومت پر اب بھی زبردست دبائو ہے اس صورت حال میں اب افغان حکمرانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اتحادی افواج کی مدد اور تعاون کے بغیر طالبان کے چیلنج کامقابلہ کرسکتے ہیں؟۔ بدقسمتی سے صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت کی انٹیلی جنس دہشت گردوں کاپتہ چلانے میںبری طرح ناکام رہی ہے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں موجود بھارتی صلاح کاروں نے انھیں ان کی اصل ذمہ داریوں سے ہٹا کر کسی اور جانب لگا رکھاہے اورافغان انٹیلی جنس کے ارکان بھارتی انٹیلی جنس کے بغل بچوں کی طرح پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں زیادہ مصروف نظر آتے ہیں ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ دہشت گردوں کے خلاف فضائی آپریشن کی صلاحیت اور کمانڈ اورکنٹرول کی صلاحیتوں اور ملکی دفاع اور تحفظ کے لیے ضروری صلاحیتوں میں کافی فرق ہے،اور افغان افواج کو ابھی ضروری صلاحیتیں حاصل کرنے کے لیے مسلسل امداد کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی حالیہ پے درپے کاروائیوں سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ خطرات بہت زیادہ ہیں اور پورے ملک میںسیکورٹی کی فراہمی آسان کام نہیں ہے ۔حالیہ واقعات سے افغان افواج میں موجود خامیوں کی نشاندہیکے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ بھارتی صلاح کار اب تک افغان حکومت کو جومشورے دیتے رہے ہیں وہ افغانستان کی سلامتی کو مستحکم بنانے کے بجائے اسے مزید کمزور کرنے کا سبب ثابت ہوئے ہیںاب جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کااعلان کیاہے توقع کی جاتی ہے کہ افغان صدر اب دہشت گردوںکی سرکوبی اور پائیدار امن کے قیام کے لیے پاک فوج کے تجربات سے استفادہ کرنے پر توجہ دیں گے اور سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے ملک کو اپنے ملک کے دفاعی معاملات پر حاوی ہونے کاموقع فراہم نہیں کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں