میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کی تباہی کے ذمہ داروں کی نقاب کشائی

پاکستان کی تباہی کے ذمہ داروں کی نقاب کشائی

جرات ڈیسک
بدھ, ۶ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان کے حوالے سے عا لمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ میں ہیومن کیپٹل بحران، زرعی شعبے میں جمود، بے حساب قرضوں کا حصول، شعبہ توانائی کی خرابی،معیشت پر اُس کا اضافی بوجھ اور پالیسیوں میں ذاتی مفادات کا عمل دخل ایسے عوامل قرار دیے گئے ہیں، جنہوں نے پاکستان کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔عالمی بینک نے،جن مسائل کی بابت توجہ دلائی گئی ہے وہ کوئی نئے یا انوکھے نہیں، بلکہ سامنے کی حقیقت ہے، مگر ہمارے محکموں، اداروں اور لیڈروں کو نظر نہیں آتے۔یوں تو پاکستان مسائل کا گڑھ ہے تاہم عالمی بینک نے6 بڑے مسائل گنوائے ہیں،جو ملک کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔عالمی بینک نے اِس حوالے سے اپنی جو رپورٹ جاری کی ہے وہ ہمارے ملک چلانے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اِن مسائل میں ایک بڑا مسئلہ پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے۔ ہر دو چارسال بعد جب پالیسی بدل جائے گی تو بہتری کیسے آ سکے گی؟ یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک حکومت جاتی ہے تو اُس کی جگہ آنے والی حکومت اُن تمام منصوبوں پر کام روک دیتی ہے،جو پچھلی حکومت نے شروع کیے ہوئے ہیں کوئی منصوبہ بھی پلک جھپکتے تو مکمل نہیں ہو جاتا،اُسے وقت لگتا ہے۔اربوں روپے کے اخراجات ہو جانے کے باوجود صرف اس لیے عملدرآمد روک دیا جاتا ہے کہ اُس کا کریڈٹ پچھلی حکومت کو ملے گا،یہی حال پالیسیوں کا ہے،خاص طور پر اقتصادی پالیسیاں تسلسل مانگتی ہیں۔سرمایہ کاری کا انحصار ہی پائیدار نظام پر ہوتا ہے،کوئی سرمایہ دار ایسی جگہ پیسہ نہیں لگاتا جہاں اُسے ڈوبنے کا ڈر ہو۔ ہمارے ہاں سی پیک جیسے بڑے منصوبے بھی صرف اسی وجہ سے متاثر ہوتے رہے کہ پالیسیوں میں تسلسل نہیں تھاعالمی بینک کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے اس سے سبق سیکھنے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اِس رپورٹ کی اس شق سے شاید ہمارے سیاستدان، حکمران اور فیصلہ ساز اتفاق نہ کریں کہ پالیسیوں میں ذاتی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے، مگر تلخ حقیقت یہی ہے ہم اس مرض کا بُری طرح شکار ہیں،یہاں تو یہ عالم ہے کہ کسی جگہ بائی پاس بنانا ہو تو اُس سے پہلے وہاں زمینیں خرید لی جاتی ہیں، کسی کو کک بیک دینا ہو تو اُس کے مطابق پالیسی بنا دی جاتی ہے، کسی صنعت کو نوازنا ہو تو ٹیکس کا نظام اُس کے مطابق بنا دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی ایس آر اوز اور کتنے ہی آرڈیننس اس مفاد کو پیش ِ نظر رکھ کر جاری کیے جاتے ہیں۔کیا ملک اس طرح ترقی کر سکتے ہیں ایسا سوچنا بھی حماقت ہے، جن ممالک نے اجتماعی فیصلے کیے ہیں،اجتماعی و قومی مفاد کو سامنے رکھا ہے،وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم نے صرف ایک معاملے میں پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا ہے اور وہ قرضوں کا حصول، آنے والی حکومت نے پچھلی حکومتوں کا اس حوالے سے ریکارڈ ہی توڑا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں کہ کوئی ہمیں قرض دینے کو بھی تیار نہیں۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کا سرکاری شعبہ غیر موثر اور اس کی قومی پالیسیوں کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ پاکستان کو بجلی کی قیمت مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عالمی بینک کے پالیسی نوٹ کے اجراء سے متعلق منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔مارٹن ریزر نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو زیربار کرنے کے بجائے لائین لاسز کم کرے۔ انہوں نے مقامی قرضوں کو موخر کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا اور کہا کہ مقامی قرضے موخر کرانے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول معاشی اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہئے۔ معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد ضروری ہے۔
عالمی بینک کے نائب صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 2سے 3 فیصد تک بڑھانا ہو گی۔ محض ٹیکس وصولیاں کافی نہیں۔ اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو سہولت دئیے بغیر ٹیکس ریونیو میں اضافہ مشکل ہو گا، اسی طرح تقریب میں عالمی بنک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیانے پاکستان کو خاموش انسانی سرمائے کے بحران سے خبردار کیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ ملک کے روشن مستقبل کیلیے مشکل لیکن ضروری فیصلے کریں۔
عالمی بینک کے پالیسی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت خراب انسانی ترقی کے نتائج اور بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ کم ترقی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان فیصلہ کرے کہ ماضی کے نمونوں کو برقرار رکھنا ہے یا ایک روشن مستقبل کی جانب اہم قدم اٹھانا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کو درپیش چھ بڑے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توانائی کا شعبہ ناقابلِ انحصار اور معیشت پر بھاری ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا زرعی شعبہ بھی غیر پیداواری جمود کا شکار ہے اور اسے ہیومن کیپیٹل کے بحران کا بھی سامنا ہے جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 2کروڑ سے زائد بچے اسکولوں میں داخل ہی نہیں ہو پائے اور دس سال سے کم عمر کے 79 فیصد پاکستانی بچے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ عالمی بینک نے یہ رپورٹ پیش کرکے دراصل پاکستانی حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور یہ ظاہر کر دیا ہے کہ پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار میں ملوث اشرافیہ کے چہرے اس سے چھپے نہیں ہیں رپورٹ میں واضح طورپر کہاگیاہے کہ پاکستان میں فیصلوں کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ یہ پالیسیاں کون لوگ بناتے ہیں یہ بات عالمی بینک بھی جانتا ہے اور یہ بات سن کر پالیسیاں بنانے والے بھی جان گئے ہوں گے کہ ان کے بارے میں ملک کو امداد دینے والے ادارے کیا کہہ ر ہے ہیں۔اس رپورٹ کا ایک ایک نکتہ ایسا ہے جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ پاکستان میں جو بھی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ان کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ مثال کے طور پر مقامی قرضے موخر کرانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے زرعی شعبے کو رعایت دینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔انسانی وسائل کے بارے میں بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ دستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال بھی پیداوار اور ترقی کو متاثر کررہا ہے۔ 5 سال اور دس سال سے کم عمر بچوں میں غذائی قلت اور تعلیم کے مواقع کے فقدان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ تعلیم سے محروم ان بچوں کی تعداد 79فیصد بتائی گئی ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کا یہ حصہ ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کو بلند مالی خسارے کا سامنا ہے اور مالی سال کے اختتام تک مالی خسارہ 22 سال کی بلند ترین شرح 7 اعشاریہ 9 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
پاکستان کی اقتصادیات کے حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ کا اجراجہاں ہمارے پالیسی سازوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہونا
چاہئے وہیں ان کی جانب سے قوم کو اپنی ”جادوگری“ سے متاثر کرنے کی روش ترک کر کے اس رپورٹ کو ہماری معیشت کے لیے گائیڈ لائن سمجھ کر اصلاح احوال کے عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں جو قوم کو نظر بھی آنے چاہئیں۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوسرے عالمی و علاقائی مالیاتی ادارے گزشتہ5 دہائیوں سے ہماری معیشت کو آکاس بیل کی طرح جکڑے ہوئے ہیں جنہوں نے ایٹمی قوت پاکستان کو اپنا مقروض بنا کر اس سے خوددار و خودمختار قوم کی طرح اقوام عالم میں سراٹھا کر چلنے کا ڈھنگ بھی چھین لیا ہے، اپنی ہر ناروا شرط تسلیم کرا کے ہماری معیشت پر کاٹھی بھی ڈال لی ہے اور ملک کے بے وسیلہ عوام کو عملاً زندہ درگور بھی کرا دیا ہے۔ یہ مالیاتی ادارے تو یقینا ایک ساہوکار کی طرح مقروض ممالک سے سود در سود کے ساتھ اپنے قرضے واپس لینے کی پالیسیاں طے کرتے ہیں جنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ان کی پالیسیوں اور شرائط سے متعلقہ ملک کی معیشت اور عوام غم و اندوہ کی کس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو تو بیرونی قرضوں سے مستقل خلاصی پانے کی کوئی جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنا چاہئے تھی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور ہر آنے والے حکمران نے ملک کی معیشت اور اس کے عوام کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس معاملہ میں ہمارے کسی بھی حکمران کا ”نامہئ اعمال“ ہماری گراوٹوں اور قومی ہزیمتوں میں ہی لپٹا ہوا نظر آتا ہے اور ہم آج بھی قومی معیشت کے سدھار کے دعووں کے باوجود بیرونی قرضوں کے چکر میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہو رہے ہیں۔ یہ محض رسمی فقرہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں روپے کے قرض کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا کر اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ طبقہ جو براہ راست یا بالواسطہ ہمہ وقت اقتدار کی راہداریوں میں موجود ہوتا ہے یہ لوگ ملکی قوانین بھی اپنی سہولتوں اور مراعات کے لیے بنواتے اور ڈ ھالتے ہیں اور انصاف کے ترازو کا رخ بھی اپنی جانب کیے رکھتے ہیں۔ عوام کو بیرونی قرضے نہ ملنے کی صورت میں مزید بدحالی اور بدنصیبی کے ڈراوے میں مبتلا کیے رکھا جاتا ہے اور ان قرضوں سے عوام کو اپنے حالات بہتر بنانے کا موقع ہی فراہم نہیں ہونے دیا جاتا۔ یہی ہماری تاریخ کا اب تک کا سبق ہے جو صرف عوام کو پڑھایا جاتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ طبقات نے اپنی سہولتوں کی خاطر عوام کو خطِ غربت کی لکیر کے نیچے دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہماری ان سماجی، اقتصادی اور معاشی ناہمواریوں کے تناظر میں عالمی بینک ہی نہیں، آئی ایم ایف کی جانب سے بھی پاکستان کے لیے عبوری بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دیتے وقت یہی باور کرایا گیا تھا کہ وہ تو پاکستان کے حکمرانوں کو اقتصادی اصلاحات کے لیے مراعات یافتہ اشرافیہ طبقے پر بوجھ ڈالنے کا کہتے ہیں مگر یہ طبقہ خود کو بچانے کے لیے سارا بوجھ عوام کی جانب منتقل کر دیتا ہے۔ گزشتہ روز جاری ہونے والی عالمی بنک کی رپورٹ میں بھی پاکستان کے حکمران اشرافیہ طبقے کے اسی چال چلن کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی موجودگی میں عوام برسراقتدار آکر دودھ کی نہریں جاری کرنے کے دعوے کرنے والے ان فصلی بٹیروں سے کیا توقع کرسکتے جو اپنی فلاح کے اقدامات کے سوا کچھ سوچنے کوتیار نہیں ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں