میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خوراک میں خود کفالت محض زرعی قرضوں کی فراہمی اورکاغذی منصوبوں سے ممکن نہیں

خوراک میں خود کفالت محض زرعی قرضوں کی فراہمی اورکاغذی منصوبوں سے ممکن نہیں

ویب ڈیسک
اتوار, ۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

کاشتکاروں کو زرعی قرضوں ‘ خاص طورپر ٹریکٹر ز کی رعایتی قیمت پر فراہمی کے حوالے سے متعدد شکایات اور اسکینڈلز سامنے آچکے
ٹریکٹر فراہم کئے بغیر سبسڈی کی مد میں حکومت سے اربوں روپے کی وصولی کی خبریں بھی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں
خوراک میں خود کفالت کا واحد طریقہ فی ایکڑ پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے‘اس کے لیے تمام شعبوں کومل کرکام کرنا ہوگا
ایچ اے نقوی
موجودہ حکومت نے ملک میں کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے کھاد اور بیج وغیرہ کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیاہے اگرچہ کاشتکاروں کوقرض کی فراہمی خاص طورپر ٹریکٹر ز کی رعایتی قیمت پر فراہمی کے حوالے سے متعدد شکایات اور اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں اور ٹریکٹر فراہم کئے بغیر سبسڈی کی مد میں حکومت سے اربوں روپے کی وصولی کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اپنی تمام تر خرابیوں اور خامیوں کے باوجود کاشتکاروں کو قرض کی فراہمی کی اس اسکیم کے نتیجے میں بہت سے چھوٹے کاشتکار سود خوروں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اس طرح ان کی حالت بہتر بنانے کابنیادی مقصد حاصل ہونا شروع ہوگیاہے لیکن کاشتکاروں کو فراخدلانہ قرضوں کی فراہمی کے باوجود ہمارے کاشتکار فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہماری زرخیز زمینیں سرحد کے اس پار ایک ہی طرح کے موسمی حالات سے دوچار زمینوں کے مساوی فی ایکٹر پیدا وار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہیں اور اس معاملے میں ہم اپنے پڑوسی ملک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں،اس وقت جبکہ دیہی علاقے تیزی کے ساتھ شہروں میں شامل یاضم ہورہے ہیں اور بلند وبالاعمارتوں اور شاہراہوں کی تعمیر کی وجہ سے زرعی زمین روز بروز سکڑتی جارہی ہے خوراک میں خود کفالت کا واحد طریقہ فی ایکڑ پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے۔
خوراک میں خودکفالت اور کپاس اور دیگر اجناس کی برآمدات کی سطح میں اضافہ کرنے کے لیے زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ فصل کی کاشت سے پہلے ، فصل تیار ہونے کے دوران اور فصل کی کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات پر کنٹرول کرنے کے لیے قابل عمل اور ایسے آسان طریقے وضع کیے جائیں جو ایک ناخواندہ کاشتکار کی بھی باآسانی سمجھ میں آسکیں اور وہ کسی دشواری کے بغیر ان پر عملدرآمد کرسکے، اس کے ساتھ فصل کی کٹائی اور چھڑائی کے بعد اس کو محفوظ رکھنے کے لیے قابل اعتبار گوداموں یعنی کھلیانوں کی تیاری اور دیکھ بھال کا بھی ایک موثر نظام تیار کیاجانا بھی ضروری ہے ، جبکہ ہمارے ملک میں گندم ،چاول اور دیگر اجناس کو ذخیرہ کرنے کے لیے گوداموں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات گندم اور دیگر اجناس کی بھاری مقدار بارشوں اور طوفانوں کی نذر ہوجاتی ہے اور اس طرح کاشتکاروں کی پوری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے حال ہی میں خوراک کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ایک پالیسی تیار کی ہے لیکن دیگر پالیسیوں کی طرح ارباب حکومت نے اس پالیسی کو بھی عام کرنے کے بجائے اسے خفیہ رکھنا ضروری تصور کیاہے۔ جس کی وجہ سے عام کاشتکار اس پالیسی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اس لیے کسی ایسی پالیسی کی کامیابی جس سے متعلقہ حلقے ہی ناواقف ہوںکس طرح ممکن ہے یہ متعلقہ حکام ہی بہتر طورپر بتاسکتے ہیں تاہم اس پالیسی تک رسائی رکھنے والے حلقوں کاکہناہے کہ حکومت کی تیار کردہ فوڈ سیکورٹی پالیسی قابل عمل ہے اور اس پر عمل کی صورت میں حوصلہ افزا نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اس بیان کی صداقت کا اندازہ اس پالیسی کے سامنے لائے جانے کے بعد ہی لگایاجاسکے گا۔حکومت کی تیار کردہ فوڈ سیکیورٹی پالیسی کی جو چند اہم باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ کاشتکاروں کوموسم کی صورت حال سے بروقت آگاہ کرنے اور فصلوں کوتباہی سے بچانے کے لیے بروقت حفاظتی اقدامات کرنے کی ترغیب دینے کے لیے موسمی حالات کے حوالے سے ایک بڑا ڈیٹا جمع کیاجائے گااور انٹرنیٹ اور دوسری عام ٹیکنالوجیز کے ذریعے کاشتکاروں کو اس سے بروقت آگاہ کیاجاتارہے گا اس کے ساتھ ہی کسی بڑی متوقع موسمی تبدیلی کی صورت میں کاشتکاروں کواحتیاطی تدابیر کے حوالے سے مشورے بھی دئے جاسکیں گے۔
منصوبے کے مطابق قومی فوڈ سیکورٹی اور ریسرچ سے متعلق وزارت ان سفارشات پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے متعلقہ سیکریٹریوں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسران پر مشتمل مختلف کمیٹیاں قائم کرے گی ان کمیٹیوں کو مختلف علاقوں سے متعلقہ کاشتکاروں کے نمائندوں کو بھی شامل کیاجائے گا اور ان کمیٹی کے ارکان کو اس پالیسی پر عملدرآمد کی مسلسل نگرانی کے فرائض سونپ دیئے جائیں گے۔پروگرام کے مطابق یہ کمیٹیاں براہ راست وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ پیش کریں گی تاکہ وزیر اعظم کو متعلقہ وزارت کی کارکردگی کابھی اندازہ ہوسکے۔
کاشتکاروں کوآفات سماوی سے قبل از وقت آگاہ کرنے اور ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کامشورہ دینے کے لیے کمیٹیوں کاقیام اپنی جگہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن اس طرح کے فیصلوں سے صرف فصلوں کوکسی حد تباہی سے بچانا ہی ممکن ہوسکتاہے ان فیصلوں سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہوسکتا، فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کاشتکاروں کو فصلوں کی بروقت بوائی کے ساتھ کم پانی میں زیادہ اراضی کوسیراب کرنے کی جدید ترین ٹیکنک سے آگاہ کرنے کے ساتھ فی ایکڑ پیداوار کے لیے بیج اور کھاد کی مقدار ، فصلوں کو پانی دینے کے درمیان وقفے اور فصلوں کی بوائی سے قبل زمین کو اچھی طرح تیار کرنے، فصلوں کی بوائی یعنی بیج ڈالنے اور پنیری لگانے کے بعد ان کی دیکھ بھال اور ان کے درمیان اگ آنے والے گھاس پھوس کی فوری اور بہتر انداز میں صفائی ، فصلوں کو مختلف جراثیم کے حملوں سے بچانے کے ساتھ ہی چڑیوں اور چوہوں سے ان کی حفاظت کے انتظامات اورطریقوں سے آگاہ کرنے بلکہ اس حوالے سے ان کی باقاعدہ تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی محکمہ زراعت کے حکام کاشتکاروں سے براہ راست اور مسلسل رابطے میں رہیں اور کاشتکاروں کو اپنے خاندان کاایک فرد سمجھ کر ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی کرتے رہیں ،تاکہ وہ بہتر فصل حاصل کرنے کے طریقوں کو اچھی طرح سمجھ جائیں ۔صرف ایک دو فصلوں کے دوران اس طرح کے رابطوں کے بعد کاشتکار خود ہی ان طریقوں کے عادی ہوجائیں گے اور اس کے بعد ان کی زیادہ رہنمائی کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن یہ کام محض کاغذی خانہ پری اورکمیٹیوں کے قیام کے بعد مطمئن ہوجانے سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزرائے خوراک اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر مسلسل دیہی علاقوں کے دورے کریں کاشتکاروں اور خاص طورپر چھوٹے کاشتکاروں سے ملاقاتیں کریں ان سے ان کی فصلوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ہی ان کو درکار ضروری معاونت کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں اور ان کے مسائل موقع پر ہی حل کرنے کی کوشش کریں، اس حوالے سے خاص طورپر سندھ میں پانی کی چوری اور محکمہ آبپاشی کے افسران اور اہلکاروںکی جانب سے کاشتکاروں کو پانی کی فراہمی کے لیے مبینہ طور پر بھاری رشوت کی وصولی ، آبپاشی کے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کی مدد سے موگے توڑ کر پانی کی چوری کے واقعات کابھی سدباب کرنا ہوگا ۔جب تک ایسا
نہیں کیاجائے گا کاغذوں پر جتنے بھی دل خوشکن منصوبے تیار کرلیے جائیں ان کانہ تو کاشتکاروں کو کوئی فائدہ ہوگا اور نہ ہی ملک کو خوراک میں خودکفیل بنا کر بنیادی زرعی اجناس برآمد کرنے والا ایک اہم ملک بنا نا ممکن ہوسکے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کس حد پوری کرتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں