میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ،شاہدخاقان عباسی کے قابل تقلید اقدام

پاکستان کے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ،شاہدخاقان عباسی کے قابل تقلید اقدام

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۸ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

آج خود کو ’’زبر‘‘ اور دوسرے کو ’’زیر‘‘ کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ترقی یافتہ مضبوط معیشت ہے‘امریکہ اورچین اس کی عملی مثال ہیں
صنعتی ترقی کی ابتداء ایوب خان دورمیں ہوئی‘ذوالفقارعلی بھٹوکے دورحکومت میں نیشنلائزیشن کے اقدام نے اسے بریک لگادیا
موجودہ دورمیں وزارت خزانہ ملک کواس پریشان کن صورت حال سے نجات دلانے کے لیے حکمت عملی تیارکرنے میں ناکا م رہی
سرکاری اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ 8ماہ میں 20 ارب ڈالر سے زائد تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا گیا‘جوتشویش نا ک صورت حال ہے
2 ماہ کے دوران موبائل فونز کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ‘کاروں کی درآمدبھی بڑھ گئی ‘پیٹرولیم مصنوعات کی طلب بھی بڑھی
تہمینہ ایچ نقوی
سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان کے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اورہماری وزارت خزانہ ملک کو اس پریشان کن صورت حال سے نجات دلانے کے لیے اب تک کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ، جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ 8ماہ میں 20 ارب ڈالر سے زائد تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا گیا ،اعدادو شمار سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران موبائل فونز کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں موبائل فونز کی مانگ بڑھ گئی ہے اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف موبائل فونز کی فروخت میں اضافہ عوام کی قوت خرید میں اضافے اور ان کامعیار بلند ہونے کاپیمانہ قرار دیتے تھے۔گزشتہ 8 ماہ کے دوران صرف موبائل فونز ہی نہیں بلکہ کاروں کی درآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ریکارڈ کے مطابق کاروں کی درآمدات میں 108 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔وفاقی حکومت کے ادارے محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی اور اگست 2017 میں موبائل فونز کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا، تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کس طرح کے موبائلز کی درآمدات زیادہ ہوئیں۔اعداد و شمار کے مطابق اسی عرصے کے دوران کاروں کی درآمدات میں بھی 108 فیصد اضافہ ہوا، اور 2 ماہ میں مجموعی طور پر 105 ارب روپے کی کاریں درآمد کی گئیں۔جولائی اور اگست 2017 کے درمیان پیٹرولیم مصنوعات کی دیگر درآمدات میں بھی اضافہ ہوا، اور مجموعی طور پر 214 ارب روپے کی پیٹرولیم کے شعبے میں درآمدات کی گئیں۔ادارہ شماریات کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 8ماہ کے دوران ملک میں 10ارب روپے کی چائے درآمد کی گئی، جب کہ اسی عرصے کے دوران 37 ارب 90 کروڑ روپے کا پام آئل بھی درآمد کیا گیا۔اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے اگست 2017 تک 10 ارب 81 کروڑ روپے کی دالیں، جب کہ 118ارب روپے کی دیگر کھانے پینے کی اشیا درآمد کی گئیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ایٹمی اسلحہ اور دیگر سامان حرب کے انبار کسی ملک کے مضبوط اور مستحکم ہونے کے لیے ضروری ہے لیکن اب ملکوں کی ترقی اور طاقت کااندازہ اس کے پاس موجود صرف ایٹمی اسلحہ اور دیگر اسلحہ سے نہیں کیاجاتا بلکہ آج خود کو ’’زبر‘‘ اور دوسرے کو ’’زیر‘‘ کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ترقی یافتہ مضبوط معیشت ہے اس کی تازہ ترین مثال سویت یونین ہے جو امریکہ سے زیادہ عسکری قوت کے باوجو د کمزور معیشت کے باعث امریکہ کی ہمسری کرنے سے قاصر ہے، دوسری مثال چین کی ہے جوتیز رفتار معیشت اور صنعتی ترقی کی بدولت پوری دنیا کی مارکیٹوں پر چھایا ہوا ہے صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان بھی صنعتی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوا مختلف صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل صنعت کے جال نے ترقی و خوشحالی کے نئے امکانات روشن کئے پاکستانی برآمدات صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئے پھر ان ممالک نے اس وقت سکھ کا سانس لیا جب ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنلائزیشن کے اقدام نے صنعتی ترقی کے عمل کو سبوتاژکردیا۔ بعد ازاں مختلف اقدامات و مراعات کے ذریعے نجی شعبے کی ڈھارس بندھائی گئی اور ملک میں صنعت و تجارت کو دوبارہ سنبھالا ملا۔
موجودہ حکومت نے غالباً اس راز کو سمجھنے کی کوشش نہیں کہ اپنی بقا ‘ ترقی اور دوسرے سے آبرومندانہ تعلقات کے لیے سفارتی و دیگر اقدامات کے ساتھ ایک موثر ذریعہ تجارت بھی ہے چنانچہ کاروبار دوست سوچ پر مبنی پالیسی اپناناضروری ہے ،اس حوالے سے یہ خبر دل خوش کن ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بیرونی تجارت کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیتے نظر آرہے ہیںاور اس کے دْوررس نتائج کا حصول ناممکننہیں ہوگا۔
لندن میں تجارتی کمپنیوں کے سربراہوں اور نیویارک میں غیر ملکی سربراہوں سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ملاقاتوں کو اس پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے ان ملاقاتوں میں دو طرفہ علاقائی بین الاقوامی معاملات کے ساتھ باہمی تجارت پر بھی قابل ذکرتوجہ دی گئی ،شاہد خاقان عباسی نے لندن میں جنرل الیکٹرک کے وائس پریذیڈنٹ جان رائس سے ملاقات کی انہوں نے کہا پاکستان میں بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے روشن امکانات کے دروازے کھلے ہیں، جنرل الیکٹرک کے ساتھ دیگر برطانوی کمپنیوں کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا ۔پاکستان ثمر آور ’’کنزیومر زسوسائٹی‘‘ہے 20 کروڑ صارفین کی شاندار مارکیٹ بلاشبہ برطانوی صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے باعث ِ کشش ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک باہمی تجارت‘ سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو برآمدات کرنے والی برطانوی کمپنیوں اور برطانیہ کی اشیا وسروسز کی خریداری کرنے والوں کے لیے برٹش ایکسپورٹ کریڈٹ کمپنی اور یو کے ایکسپورٹ فنانس کی رقومات میں 400 ملین پونڈز یعنی 40کروڑپونڈکا اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ 200 ملین پونڈ یعنی20کروڑ پونڈ کی اضافی رقم بھی مختص کی جائے گی جس سے برطانوی برآمدکنندگان کو برآمدی معاہدوں کی ادائیگیوں میں مدد ملے گی اسی طرح پاکستانی کاروباری ادارے برطانیہ میں تجارتی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل مصنوعات ‘ ادویات سازی‘ کھیلوں کا سامان‘ انجینئرنگ‘ کٹلری‘ پھلوں میں آم‘ کینو‘ لیگل اور بزنس سروسز جیسے شعبوں کی عالمی اقتصادیات میں جگہ بنانے کے وسیع امکانات ہیں یہ بھی خوش آئند ہے کہ یورپی یونین کی ا سکیم جی ایس پی پلس سے برطانیہ میں پاکستان کے استفادہ کا عمل جاری ہے اور یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد بھی پاکستان کے لیے برطانیہ جی ایس پی پلس کی مراعات جاری رکھے گا وزیر تجارت کے بقول جی ایس پی پلس کے پاکستان پر مثبت اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو یورپی یونین کی حمایت حاصل ہے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بینظیر بھٹو کے سانحہ قتل کا ذکر کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے دشمنوں کو قرار دیا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے ساتھ ساتھ جی ایس پی پلس کی شرائط انسانی و مزدوروں کے حقوق ‘ ماحول کی بہتری اور گڈ گورننس کے سلسلے میں قابل ذکر پیش رفت کررہا ہے۔
تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو پاکستان اور برطانیہ کے باہمی بالخصوص تجارتی تعلقات تو قیام پاکستان کے وقت سے استوار ہوگئے تھے گزرتے وقت نے جس میں اضافہ کیا دونوں دولت مشترکہ اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہیں البتہ باہمی تعلقات میں 1972 میں تب رخنہ پڑا جب برطانیہ کے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پرپاکستان دولت مشترکہ سے الگ ہوگیا۔ تاہم 1989میں پاکستان دوبارہ دولت مشترکہ میں شامل ہوا اگرچہ دونوں ممالک میں فری ٹریڈ ایگریمنٹ نہیں ہے لیکن یکم جنوری 2014 میں ملنے والے جی پی ایس پلس سے پاکستان برطانیہ میں بھی مستفید ہورہا ہے۔ 2014کے بعد حالات میں بہتری آئی دونوں ملکوں کے تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ایک دوسرے ممالک کے دورے کئے جس سے نئے تجارتی مواقع پیدا ہوئے اور 2.535 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی جو 2013 کے مقابلے میں 14% زیادہ ہے صرف توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون بڑھنے سے 2015میں 2.5 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ پاکستانی برآمدات میںخاطر خواہ اضافہ ہوا بالخصوص خواتین کے کپڑے برطانیہ میں ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوتے ہیں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں مقیم بھارتی خواتین بھی جن کی خریدار ہیں اس وقت برطانیہ کی 100کمپنیاںپاکستان میں کام کررہی ہیں۔
حال ہی میں پیرس میں منعقدہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی نمائش میں پاکستان کی 36 کمپنیوں نے شرکت کی۔ جس میں نشاط ملز ‘ کوہ نور‘ سپیرئیر‘ لبرٹی ٹیکسٹائل‘ کمال لمیٹڈ‘ مسعود ٹیکسٹائل اور لکی ٹیکسٹائل بھی شامل ہیں نمائش میں پاکستان کی مصنوعات بالخصوص کاٹن اور جینز میں خصوصی دلچسپی لی گئی اس نمائش سے یورپی مارکیٹ میںپاکستانی مصنوعات کی کھپت اور تجارت کی نئی راہیں کھلیں گی۔
برطانیہ کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سربراہان مملکت و حکومت سے ملاقاتوں میں عالمی برادری کو پاکستان میںہونیوالی اقتصادی ترقی سے آگاہ کیا۔ پاکستان امریکہ بزنس کونسل‘ ایران کے صدر حسن روحانی‘ ترکی کے صدر طیب اردگان، امریکی نائب صدر اور دیگر سربراہ سے باہمی تجارت کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا ترکی کے صدر طیب اردگان نے دونوں ملکوں کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو جلد حتمی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ان ملاقاتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بذریعہ تجارت ملک کو جلد از جلد معاشی قوت بنانے کی خواہش کا مظہر معلوم ہوتاہے یہ سمجھنے کے لیے کسی بقراط کے ذہن کی ضرورت نہیں کہ کمزور معیشتیں رکھنے والے ممالک کا وجود خطرات کی آندھیوں کی زد میں رہتا ہے ویسے بھی عام کہاوت ہے ’’خالی پیٹ والے کے ہاتھ‘ ہتھیار کا وزن نہیں سنبھال سکتے‘‘۔
اب جبکہ ہمارے وزیر خزانہ خود احتساب کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ ان کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ایسا معلوم نہیں ہوتاکہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے اور کاروباری خسارہ کم کرنے کے لیے کوئی مثبت حکمت عملی کرسکے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں