میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں؟

تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں؟

جرات ڈیسک
هفته, ۲۳ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان میں انتخابی بگل بجنے کے بعد یکلخت سیاسی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہو چکی ہیں،اس بار الیکشن عجیب ماحول میں ہو رہے ہیں۔ شیڈول آنے کے باوجود جوش و جذبے کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہی ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ نوازشریف مینارِ پاکستان کا جلسہ فلاپ ہونے کے بعد اس قدر مایوس اور دلبرداشتہ ہیں کہ یہ جلسہ کرنے کے بعد باہر نہیں نکلتے۔ تحریک انصاف کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں مل رہی،یہاں تک کہ اب یہ شکایات بھی سامنے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ممکنہ امیدوارو ں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکنے کیلئے کاغذات ان سے چھینے جارہے ہیں،پولیس نے جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس میں پی ٹی آئی کے  زرتاج گل وزیر، عمر ایوب، میاں فرخ حبیب، حماد اظہر، زلفی بخاری، زین قریشی، عثمان ڈار، کرنل اجمل صابر راجہ، عثمان سعید بسراء، اشرف خان سونا، سکندرزیب، راجہ راشد حفیظ، عارف عباسی، ملک تیمور مسعود، واثق قیوم، چوہدری جاوید کوثر، چوہدری ساجد، اعجاز خان جازی، سیموئیل یاقون سمیت63 رہنماؤں کے وارنٹ حاصل کرلیے ہیں۔ پولیس نے تمام ریٹرننگ افسران کو ان ملزمان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرانے اور گرفتاری کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ان تمام رہنماؤں کو نہ صرف کاغذات نامزدگی داخل کرنے بلکہ الیکشن لڑنے کا بھی پورا حق ہے۔ پیپلزپارٹی جوڑ توڑ کے عمل سے گزر رہی ہے، کسی سیاسی جماعت کا منشور ابھی تک سامنے نہیں آیا، حالانکہ ایک زمانہ تھا الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت اپنا منشور پیش کرتی تھی، منشور کے بغیر عوام کے پاس ووٹ مانگنے کیلئے جانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی کے پاس بغیر ایجنڈے کے جا رہے ہوں۔ بس خالی خولی دعوے ہیں، جن کی بنیاد پر عوام کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ابھی تک الیکشن کمیشن کو اس بات پر بھی آمادہ نہیں کر سکیں کہ وہ سب جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ مہیا کرے۔ الیکشن کمیشن بھی اتنا بے نیاز ہے کہ اس نے ایسے الزامات کو رد کرنے کیلئے کبھی عملی اقدامات نہیں کیے، بس ایک رسمی سا بیان جاری کر کے کام چلایا ہے۔ آج ہر طرف ایک ہی سوال ہے کیا فروری میں ہونے والے انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں گے۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے دعوؤں کو بنیاد بنائیں تو یوں لگتا ہے، اس سے زیادہ آزاد اور شفاف انتخابات تو کبھی ہوئے نہیں ہوں گے لیکن دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مسلسل لیول پلئینگ فیلڈ نہ ہونے کی شکایت کر رہی ہیں۔سپریم جوڈیشری نے اپنا وعدہ پورا کر دیا کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات وقت پر ہوں گے لیکن اس سوال کا جواب دینا کہ کیا وہ شفاف ہوں گے تھوڑا مشکل ہے۔ اس وقت ملک بھر میں انتخابی ماحول بنانے کیلئے کاغذات نامزدگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،لیکن عوامی جلسے جلسوں کا ماحول تاحال گرم نہیں۔ تاہم خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے ہی ورکرز کنونشن منعقد کر کے سیاسی ماحول تیار کر کے الیکشن کی تیاری شروع کر دی تھی اور انہیں اپنے کارکنوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل بھی ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی ایم کیو ایم پاکستان کے لیے بھی ماحول موجود ہے، جو سدا بہار جماعتیں ہیں جو انتخابی ماحول کے بغیر سیاسی ماحول بناتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی”اے این پی فور امن“ کے سلوگن کے ساتھ سرگرم ہوچکی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا کیا بنے گا؟
بد قسمتی سے مملکت کا ہر الیکشن کسی نہ کسی پارٹی کے ہاتھ پیروں کو باندھنے سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ صحیح یا غلط، سب کی نظریں اس پر ہیں کہ عمران خان کس کا سامنا کریں گے، اداروں کا یا پھر سیاسی جماعتو ں کا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے 9 نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق نظام عدل میں اصلاحات کے علاوہ بجلی اور گیس سستی فراہم کرنے کا انتخابی وعدہ کیا گیا ہے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت ختم نہ کی جاتی تو خوشحالی کا سفر جاری رہتا۔ عوام کو مہنگائی اور غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے دن رات ایک کردیں گے۔ یہاں سوچنے والی بات ہے کہ شہباز شریف کے دور حکومت یعنی مسلم لیگ نون کے وزیر اعظم کے زیر سایہ مہنگائی کی سونامی نے پاکستانی عوام سے بچوں کی تعلیم اور ضروریات زندگی خریدنے کی استطاعت بھی چھین لی لیکن چونکہ ”بڑے میاں صاحب“ ایک بار پھر بضد ہیں کہ انہیں چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم بنایا جائے تاکہ و ہ عوام کو خوشحال کرنے کی ایک اور کوشش کر دیکھیں، سو ہمارے پاس اُن کی بات کو رد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔لیکن اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات نہ صرف کسی سیاسی جماعت کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے بلکہ پاکستان کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے۔ بیورو کریسی کی غیر جانبداری کو ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ انہیں عوام کو جواب دینے کی ضرورت نہیں پڑتی، اس لیے وہ اس بات کا دباؤ محسوس نہیں کرتے کہ آگے کیا ہوسکتا ہے یعنی ان کے ساتھ ٹرانسفر کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ بیوروکریٹس کی تقرری بھی کسی نہ کسی سیاسی رجحان کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کی اصل باگ ڈور ان کے ہی ہاتھ میں تھی اور ہے۔ سپریم جوڈیشری کے لیے پولنگ ا سٹیشن کی سطح تک نگرانی کرنا ممکن نہیں لیکن الیکشن کمیشن جو سیاسی پنڈتوں کے مطابق شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے سے پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے، اسے ہر چیز کا صاف و شفاف انتظام کرنا مشکل ہو گا۔ ووٹرز کو بہت اچھے انتخابی منشور دیکھنے کو ملیں گے اور ایک بار پھر سنہرے خواب دکھائے جائیں گے۔ مخالفین پر تیر و نیزے برسائے جائیں گے، جذبات و احساسات سے کھیلا جائے گا، لیکن جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی حکومت چھڑی گھما کر فوراََ ملکی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اشارے تشویش کا باعث ہیں۔ جو بھی برسراقتدار آئے گا وہ اپنے انتخابی وعدوں کے برعکس بجلی اور گیس سمیت اشیا پر یقینی طور پر ٹیکس لگاتا رہے گا، گھات لگائی جائیں گی اور ملک دشمن اپنی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی کر کے دہشت گردی جاری رکھے گا۔ سیکورٹی چیلنج اپنے آپ میں ایک اہم چیلنج ہے۔ انتخابی نتائج آنے سے پہلے ہی عام طورپر برملا یہ کہاجارہا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت پرامن طریقے سے نہیں چل سکے گی۔ دو تہائی اکثریت توکجا سادہ اکثریت حاصل کر لینا بھی شاید کسی سیاسی جماعت کے لیے ممکن نہ ہو۔ عام طورپر غالب امکان یہی ظاہر کیا جارہاہے کہ سیاسی عدم استحکام کا یہ سلسلہ انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر حالات جوں کے توں رہے تو کیا عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد کسی اور کی حکومت بنانا جمہوری اقدام ہو گا؟ کیا یہ آئینی ہوگا کہ جس جماعت کے پاس اکثریت نہ ہو وہ بار بار چھوٹی جماعتوں کو ضم کرکے حکومت بناتا رہے اور پھر یہ سب آئینی بھی ہو اور جمہوری بھی اور ایسا اخلاقی جواز پیش کرنے کے لیے بدترین سیاسی مخالفین اقتدار کے نام پر ملک بچانے کے لیے اتحادی بن جائیں اور پھر یہی اتحاد ملک کو لوٹنے کے بعد کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ بندھ جائیں۔ اقتدار کی لذتوں کی سیاست مہینوں کریں۔ آج کی طرح جس طرح چند مہینوں سے الزامات کی بو چھاڑ کر رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں، لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کل جو ہم ساتھ تھے وہ اچھا نہیں تھا، لیکن اب جو ہوں گے وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ ملک کو درست سمت پر ڈالیں گے لیکن عوام کا کیا ہوگا؟ ان کے لیے جو کل زندہ تھا آج بھی زندہ رہے گا اور کل بھی زندہ رہے گا۔ جس نے کل کہا تھا کہ مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کریں گے، دو دہائیوں تک حکومت کرنے کے بعد بھی وہ کہہ رہے ہیں جو پہلے نہیں کر سکے تھے۔ عوام مان لیں کہ وہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن چکے ہیں جنہیں جب چاہیں لاٹھی سے ہانکا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی دیکھیں، سیاست کا یہی چلن ہے بھوک، ننگ اور غربت ہی سیاست کا موضوع ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں۔ آج ملک جس جگہ کھڑا ہے، یہاں تک لانے میں سبھی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک دو برس کی کہانی تو ہے نہیں، پون صدی کا قصہ ہے۔ کوئی بتائے کہ اس ملک کی سیاست سے اگر بدحالی اور غربت کا موضوع نکال دیا جائے تو پیچھے کیا بچتا ہے۔ کبھی کسی جماعت نے اس بات کو اپنی سیاست کا محور بنایا کہ استحصالی نظام کا خاتمہ کریں گے جن طاقتور مافیاؤں کے سرپہ یہ نظام کھڑا ہے، اسے کوئی جماعت کیسے نظر انداز کر سکتی ہے۔ یہاں اکثر قانون شکنوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، ان تک قانون کے ہاتھ پہنچتے ہی نہیں یا پہنچنے ہی نہیں دیے جاتے۔ کیونکہ انہی کے ذریعے عوام کو کنٹرول کیا جاتا ہے پہلے کہتے تھے بات دیہی علاقوں تک محدود ہے، اب شہروں میں بھی عوام کو دبانے کیلئے یہی مافیائی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ گلیاں نالیاں پکی کرانے کی حد تک حقوق دیے جاتے ہیں۔ باقی سوچ، فکر اور آزادی پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ آج کل صورت حال کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر سیاسی جماعتیں بھی چپ کی بکل مارے بیٹھی ہیں۔ عدالتوں کے حکم بے اثر ہو رہے ہیں اور قانون اپنی رہی سہی توقیر بھی کھو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اور تو کچھ تو کیا دینا تھا وہ عوام کو جمہوریت کا احساس بھی نہیں دے سکیں۔ عوام کو یوں لگ رہا ہے کہ وہ ایک حالت جبر میں ہیں جہاں آئین میں دی گئی آزادیاں بھی ان سے چھن چکی ہیں۔ دائرے کا یہ سفر اتنی بڑی حقیقت ہے جسے سیاسی جماعتیں بھی نہیں جھٹلا سکتیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس سے نکلنا نہیں چاہتیں۔ کیونکہ اس سے نکل کر انہیں 25 کروڑ عوام کے پاس جانا پڑتا ہے جن کا وہ حقیقی معنوں میں سامنا نہیں کر سکتیں اگر پاکستانی سیاست کے اصل مرض کی تشخیص کی جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی اس میں اخلاص اور سچائی کی کمی ہے جہاں مفاد پرستی اور اقتدار کی ہوس غلبہ حاصل کرلے وہاں جھوٹ اور منافقت ڈیرہ جما لیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سیاسی جماعت پون صدی سے اس ملک میں مافیاؤں کی جانب سے چلائے جانے والے اس چکر کو روکنے کی کوشش کرسکتی ہے اس کا واضح جواب نفی میں ملے گا کیونکہ ان مافیاؤں کے خلاف طبل جنگ بجانا خود اپنی تباہی کو دعوت دینا تصور کیاجاتاہے،اس کی وجہ واضح ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک عوام کی طاقت کو اصل طاقت تسلیم نہیں کیا،ذوالفقار علی بھٹو بھی جس نے عوام کی حکومت عوام کیلئے کا نعرہ لگا یا اور جسے ملک کے عوام کی زبردست پزیرائی حاصل تھی ملک کے ہر خطے کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ آمر وقت جنرل ضیا کو اسے پھانسی پر چڑھانے کا موقع مل گیا اگر بھٹو نے ملک کے ہر خطے کے عوام کے ساتھ انصاف کیاہوتاتو شاید جنرل ضیاء انھیں پھانسی گھاٹ تک پہنچانے کی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو اقتدار میں شریک کرنے کیلئے جوڑ توڑ کے بجائے اس ملک کے 98 فیصد غریب عوام کو اقتدار میں شریک کرنے کا تجربہ کرکے دیکھنا چاہئے انھیں معلوم ہوجائے گا کہ اصل طاقت کسی نادیدہ قوت کے پاس نہیں بلکہ طاقت کامرکز اور محور عوام ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں