میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہدائے جموں اورقیام پاکستان

شہدائے جموں اورقیام پاکستان

منتظم
هفته, ۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

hafiz-muhammad-saeed-logo

پروفیسر حافظ محمد سعید
برصغیرایک وسیع وعریض خطہ تھا جس کی سرحدیں ایک طرف درہ خیبرسے چٹاگام اور دوسری طرف کوہستان ہمالیہ سے راس کماری تک پھیلی ہوئی تھیں۔جب پاکستان کے قیام کی تحریک شروع ہوئی توبرصغیر کے ہرگوشے اورکونے میں رہنے والے مسلمانوں نے اس میں حصہ لیا اورہرطرح کی جانی ومالی قربانیاں دیں لیکن پاکستان کے قیام کے لیے جوقربانیاں جموں کے مسلمانوں نے دی ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کا المیہ اور سانحہ سب سے الگ تھا۔ ہندوستان میں کانگریس بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے فارمولے اور مقولے پر عمل پیرا رہی لیکن جب جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کی بغل میں بھی چھری تھی اور منہ میں بھی چھری تھی۔ ریاستوں اور مملکتوں میں جب فسادات ہوں تو حکمران اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ ہمدردی کے باوجود ظاہری طور پر ہی سہی کچھ نہ کچھ غیر جانبداری کا بھرم ضرور قائم رکھتے ہیں۔ ہری سنگھ وہ حکمران تھا جس نے تمام رکھ رکھاﺅ اور ظاہری تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کی نہ صرف کھلم کھلا سرپرستی کی بلکہ کوٹ میرا تحصیل اکھنور میں خود اپنے ہاتھوں سے مسلمانوں پر گولی چلا کر قتل عام کا آغاز کیا۔ جب مہاراجہ کا مسلمانوں کے ساتھ اس قدر منتقمانہ رویہ تھا تو اس کے فوجیوں، سپاہیوں، ہندو بلوائیوں اور RSSکے غنڈوں کو بھلا کون روک سکتا تھا۔ جب تقسیم ہند کا حتمی فیصلہ ہو گیا تو ہندوﺅں کی نیم عسکری تنظیمRSSنے جموں میں رضاکاروں کی بھرتی شروع کر دی۔ مہاراجہ نے پنجاب کی سکھ ریاستوں سے تعاون حاصل کیا اور سادہ لباس میں ملبوس سکھ فوجی ریاست میں بلوائے گئے۔ RSS کے مسلح تربیت یافتہ رضاکاروں اور سکھ فوجیوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار کے قریب تھی جبکہ مہاراجہ کی اصل ریاستی طاقت 13بٹالین فوج اور پولیس کی نفری اس پر مستزاد تھی۔ ان سب نے مل کر ریاست کشمیر اور بالخصوص جموں میں مسلمانوں کی آبادیاں لوٹ لیں اور ان کا بے پناہ و بے دریغ قتل عام کیا۔جموں میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا وہ المناک اور خون کے آنسو رلا دینے والا باب ہے۔ اس کی تفصیل جاننے سے پہلے مختصراً یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈوگرے کون تھے؟ وہ 80فیصد مسلمان آبادی والی ریاست کے حکمران کیسے بنے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے حد سے بڑھے ہوئے معاندانہ رویہ کی وجہ کیا تھی….؟ ان حقائق و معاملات کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کا جموںمیں مسلمانوں کے قتل عام سے گہرا تعلق ہے۔
ڈوگرا راج کا بانی گلاب سنگھ دو روپے ماہوار پر رنجیت سنگھ کی فوج میں بھرتی ہوا۔ یہ نہایت ہی دھوکے باز اور انتہا درجے کا خودغرض شخص تھا۔ اس کی بے رحمی کو دیکھتے ہوئے رنجیت سنگھ نے 1819ءمیں جموں جاگیر کا انتظام اس کے سپرد کر دیا۔
جب سکھوں اور انگریزوں کی باہم آویزش شروع ہوئی تو گلاب سنگھ درپردہ انگریزوں سے سازباز کر چکا تھا۔ سکھوں کو انگریزوں کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بطور تاوان اپنے علاقے جن میں جموں کشمیر بھی شامل تھا انگریزوں کو پیش کر دیے۔ انگریزوں نے مارچ 1846ءمیں جموں کشمیر کا 84ہزار مربع میل کا علاقہ 75 لاکھ نانک شاہی (آج کے پچاس لاکھ کے برابر) کی معمولی رقم، چند بھیڑوں اور کمبلوں کے عوض گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس سودے بازی میں ریاست کی سرزمین 14پیسے فی ایکڑ اور باشندے سات روپے پچاس پیسے فی کس کے حساب سے فروخت ہوئے….اس طرح 80 فیصد مسلمان آبادی والی ریاست میں ڈوگرا راج کی بنیاد پڑی۔ گلاب سنگھ کو چونکہ انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ریاست میں توسیع کی غرض سے قرب وجوار کی مسلمان جاگیروں مظفرآباد، راجوری، بھمبر، پونچھ اور دیگر علاقوں پر چڑھائی شروع کر دی۔اس طرح وہ اپنی ریاست میں توسیع کرتا چلاگیا۔
ڈوگروں کا ریاست جموں کشمیر پر قبضے کا دورانیہ ایک سو سال پر محیط ہے اس عرصہ میں انہوں نے مسلمانوں پر جو مظالم روا رکھے زبان انہیں بیان کرنے اور قلم احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہے۔ ڈوگرے مذہباً ہندو تھے، نسلی برتری کا شکار اور ذات پات کی تفریق کے سختی سے قائل تھے یہی وجہ تھی کہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ حاکم اور رعایا والا نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان والا تھا۔ ظلم، جبر، استحصال، بیگار، غربت، جہالت، عزتوں کی پامالی، دین پر پابندی، اسلامی شعائر کی توہین اور ٹیکسوں کے ذریعے معیشت و زراعت کی تباہی یہ ڈوگرا دور کی عام سوغات تھیں۔گلاب سنگھ نے اپنے اقتدار کی بنیاد اس اصول پر رکھی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو اسلام کو دفنا دو، مسلمانوں کو مٹا دو اور ہندو مذہب کو فروغ دو۔ 1885ءمیں پرتاب سنگھ تخت نشین ہوا تو اس کے دور میں سرکاری سطح پر شدھی، سنگھٹن اور ہندو مہا سبھا کی تحریکوں کی سرپرستی کی گئی۔
اسلام اور مسلمان دشمن سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز جموں تھا اس لیے کہ یہ گلاب سنگھ کا جائے پیدائش اور ڈوگرا راج کی سیاسی و انتظامی طاقت کا مرکز تھا۔ لیکن جس طرح فرعون کے گھر موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ایسے ہی ڈوگرا دور میں اسلام کے تحفظ اورآزادی کی پہلی موثر آواز جموں سے ہی اٹھی۔ 29اپریل 1931ءکو جموں میں خطبہ عیدالاضحیٰ کی بندش، جموں پولیس لائنز میں ایک ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہین قرآن کے واقعات نے جموں کے مسلمانوں کے ایمان کو گرما اور تڑپا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد 13جولائی 1931ءکو سری نگر میں اذان مکمل کرتے 22کشمیری مسلمانوں کی مظلومانہ شہادت…. ایک سال میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے یہ تین واقعات تحریک آزادی کشمیر کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے۔ آزادی کی یہ تحریک سری نگر کی جامع مسجد کے مقدس ماحول اور منبر ومحراب میں پلی، بڑھی اور جوان ہوئی۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس تحریک کی بنیاد …….. کلمہ طیبہ پر تھی۔ جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اس کی بنیاد بھی کلمہ طیبہ پر تھی اس لیے دونوں تحریکوں کا یکجا ہونا فطری امر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہندوستان کے طول و عرض میں پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ گونجا تو اہل کشمیر نے بلاتامل اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر لیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ “کا نعرہ نہ لگتا تو جموں کشمیر کے مسلمان اپنا مستقبل کبھی بھی پاکستان سے وابستہ نہ کرتے۔ اسی طرح اگر اہل کشمیر کے مسائل و معاملات اور مطالبات سماجی، انتظامی یا ذاتی نوعیت کے ہوتے توجموں کے مسلمانوں کو خون کے دریا سے نہ گزرنا پڑتا لیکن چونکہ وہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر چکے تھے اس لیے مہاراجہ ہری سنگھ، کانگریس اور انگریز کی طرف سے ان کو بہت ہی بھیانک اور المناک سزا دی گئی۔ بڑے منظم طریقے سے ان کے قتل عام کی منصوبہ بندی کی گئی۔ مہاراجہ کی 13بٹالین فوج میں ایک بٹالین مسلمانوں کی تھی اسے غیر مسلح کر دیا گیا۔ مسلمان پولیس افسروں اور سپاہیوں کو برطرف کر دیا گیا۔ جموں میں جن مسلمانوں کے پاس اسلحہ تھا وہ بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔
جموں میں قتل عام کے منصوبے کی نگرانی جموں کے گورنر چیت رام چوپڑا اور ہری سنگھ کی بیوی تارا دیوی نے خود کی۔ ریاست کا وزیراعظم مہر چند مہاجن بھی پیش پیش تھا۔ مہاجن نے آنکھوں میں آنسو بھرتے اور چہرے پر بظاہر دوستانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے جموں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنی جان ومال اور عزتوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں۔مہاجن نے یہ بھی کہا کہ آپ سب کے پاکستان جانے کا انتظام سرکاری سطح پر کیا جائے گا۔ چنانچہ جموں کے مسلمانوں کا قافلہ تقریباً 60بسوں میں پاکستان جانے کیلیے تیار ہو گیا۔ جب یہ قافلہ 6 نومبر کوسانبہ سے چند میل کے فاصلے پر مہوا کے قریب پہنچا تو وہاں ڈوگرافوجی پہلے سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے پہلے اہل قافلہ سے نقدی اور قیمتی اشیاءچھینیں، پھر اندھا دھند قتل عام شروع کر دیا اس کے بعد نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا۔ اہل قافلہ میں سے بمشکل چند افراد ہی جانیں بچا کر بھاگ سکے تھے۔ ٹائمز آف لندن کے مطابق چند دنوں میں صرف جموں کے ڈھائی لاکھ مسلمان شہید کر دیئے گئے اور 5 لاکھ سے زائد افراد پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک رات میں 24 مسلمان دیہات کو شعلوں میں جلتے دیکھا۔ 123 دیہات کا باشندوں سمیت نام ونشان مٹا دیا گیا۔ ایسے بھی گاﺅں تھے جن کے تمام مردوں، بچوں، بوڑھوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا اور خواتین کواغوا کرلیاگیا۔
یہ ہے جموں کے مسلمانوں پر گزرنے والی قیامت صغریٰ کا مختصر تذکرہ لیکن آ ج یہ سب کچھ کس کو یاد ہے….؟ کون جانتا ہے کہ جموں کے مسلمانوں کی پاکستان سے محبت…….. کیسی آزمائش بن گئی اور ان کو اس آزمائش و محبت کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑی….؟ مگر آفرین ہے ان اہل وفا پر کہ جان، مال، عزت، آبرو، عزیزواقارب، گھربار، کاروبار …. سب کچھ قربان کر کے بھی وہ پاکستان کے ساتھ محبت و تعلق میں ثابت قدم رہے اور آج بھی ثابت قدم ہیں۔ بھارتی حکمرانوں اور فوج کے مظالم ڈوگرا راج کا تسلسل ہیں۔جموں کشمیر کے مسلمانوں کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑے 170سال ہوچلے ہیں۔اس طویل عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ اہل کشمیر کے دلدوزحالات ہیں۔اگرچہ1947ءمیں جموں کے مسلمانوں نے اپنا فرض پورا کر دیا تھا ،اس کے بعد ضروری تھا کہ ہمارے حکمران اپنا فرض پورا کرتے، بھارت کے ساتھ تعلقات، معاملات، مذاکرات، روابط اور تجارت میں مسئلہ کشمیر سر فہرست رکھتے۔ UNکی قراردادوں پر عملدرآمد کی سنجیدہ کوششیں کرتے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے مسائل و مصائب کو اپنے مسائل سمجھتے۔ کشمیر کی آزادی کیلیے اسی طرح نتیجہ خیزجدوجہد کرتے جس طرح اہل کشمیر نے قیام پاکستان کے لیے کی تھی۔ سچی بات یہ کہ اس وقت کشمیر کی تحریک آزادی”اب یا کبھی نہیں“کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔تحریک کی کامیابی اور مقبوضہ وادی کی آزادی کے ساتھ پاکستان کااستحکام وابستہ ہے۔لہذا ضروری ہے کہ پاکستان بھی فیصلہ کن کرداراداکرے۔
مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور اہل کشمیر آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے اور کیا کررہے ہیں۔۔۔ ؟قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو شہ رگ پاکستان کہہ کر اس کی اہمیت واضح کر دی تھی۔ اس کے بعد بانی پاکستان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ہمارے حکمرانوں نے کشمیر سے وفا کرنا چھوڑ دی۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کی حیثیت کو جانا ہوتا …. اس کی آزادی کو اپنی آزادی سمجھا جاتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔ آج شہدا جموں کی قربانیوں میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ اگر ہم اپنی آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھنا، ملک کے دفاع کو مضبوط و مستحکم کرناچاہتے ہیں تو ہمیں استقامت، اتحاد واتفاق کا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور کشمیر کی آزادی کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں