میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چین تخلیق کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن ہے!

چین تخلیق کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن ہے!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اپنے ملک کوپوری دنیا کے لیے کھول دینا اور اصلاحات میںایک ارب 30 کروڑ عوام کو شریک کرنا عالمی سطح پرسب سے بڑا تخلیقی عمل ہے
چین فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا میں 80 ویں نمبر پر ہے‘اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک سے ابھی بہت پیچھے ہے
چین چاہے جتنی بھی ترقی کرلے ہمیشہ دوسروں سے سیکھنے ،اپنے آپ کو کھلا رکھنے ‘تخلیق کی حوصلہ افزائی کرنے کے عزم پر قائم رہے گا
ذمے دار ملک ہونے کے ناطے چین سب کے فائدے کے لیے تعاون اور اصولوں کوسربلند رکھتے ہوئے پوری دنیا کا ساتھ دینے کوتیار ہے
ڈاکٹر مو ینگ پنگ
چین میں عوام تخلیق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پرجوش ہوتے جارہے ہیں۔میرے غیر ملکی دوست اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ چین کی شرح نمو میں مسلسل اور اس کے استحکام کاراز کیاہے ؟اس کاجواب چین کے عوام کی سخت محنت اور دوراندیشی ہے۔چین کو پوری دنیا کے لیے کھول دینا اور اصلاحات میں ملک کے ایک ارب 30 کروڑ عوام کو شریک کرنا پوری دنیا میں شروع کیا جانے والا سب سے بڑا تخلیقی عمل ہے۔ہمارے بہت سے سسٹم اور عمل جو کامیاب ثابت ہوئے اسی عمل کانتیجہ ہیں۔ لاکھوں عوام کی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت معاشرے کو دولت پیدا کرنے کی مضبوط صلاحیت حاصل ہوئی اور لوگ خوشحال ہوگئے۔ملک کو پوری دنیالیے کھول دینا بھی ایک طرح کی اصلاح ہے اور اس سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں اور دوسرے ملکوں سے مقابلے کی استعداد میں وسیع تر اور اونچی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نے چین کی ترقی میں بنیادی پیداواری قوت کا کردار ادا کیاہے۔اور اصلاحات کے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک وسیع شعبہ وجود میں نہیں لایاجاسکتاتھا۔بنیادی ریسرچ کو مستحکم کرتے ہوئے ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے اور خود اپنی قدروقیمت پیدا کرنے حوصلہ افزائی کی۔اس طرح ہم نے مارکیٹ کمپٹیشن کے ذریعے سائنسی وار ٹیکنالوجیکل کمپنیاں پیدا کیں ان میں اضافہ کیا اور اس طرح مارکیٹ کی قوت اور تخلیق کے عمل کومستحکم بنایا اورتیزتر کیا۔
چین نے ترقی کے حوالے سے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین اب بھی سب سے بڑا ترقی پزیر ملک ہے اور فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا میں یہ اب بھی 80 ویں نمبر پر ہے۔اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ہماری معیشت کے معیار اور کارکردگی میں بہتری کاعمل جاری ہے اور اب بھی ہماری ترقی کی راہ میں بعض سسٹیمیٹک اور ادارہ جاتی رکاوٹیں موجود ہیں۔چین کواس صدی کے وسط تک ایک مناسب ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے تیزی کے ساتھ اور بہتر ترقی کی ضرورت ہے۔اس کے لیے سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ذہن کو مزید آزاد کریں اور اصلاحات اور تخلیق پر توجہ مرکوز رکھیں،لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لائیں تاکہ پورا معاشرہ پوری طاقت اور صلاحیتوں کے ساتھ کام کرسکے اور توانائی کا ایسا ذخیرہ فراہم کرسکیں جو ترقی کامنبع ثابت ہو۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تخلیق کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹیںہٹائی جائیں۔دوسرے یہ کہ ایسی میکانزم تیار کی جائے جس سے تخلیق کی حوصلہ افزائی ہو۔تیسرے ایسا ماحول پیدا کیاجائے جس سے تخلیق کو تحفظ حاصل ہوسکے۔چوتھا یہ کہ معیشت کو تخلیق کی بنیاد پراستوار کیاجائے۔چین جو تخلیق چاہتاہے وہ کھلی ہوئی تخلیق ہے ہم دروازے بند کرکے ممکنہ تخلیق پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے۔اور ہم تمام حکومتوں اداروں اور تاجروں کو سب کے لیے مفید تعاون میں شریک کرنے کوتیار ہیں۔چین خواہ کتنا ہی ترقی کرلے چین کو ہمیشہ دوسرے ممالک سے طاقت حاصل کرنے کی ضرورت رہے گی اور اسے جدید ترین ٹیکنالوجیز ، انتظامی مہارت کے حصول اور دوسروں کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھانے کاعمل جاری رکھنا ہوگا۔چین ہمیشہ دوسروں سے سیکھنے ،اپنے آپ کو کھلا رکھنے والا اور تخلیق کی حوصلہ افزائی کرنے کے عزم پر قائم رہے گا۔
چین کی مستحکم ترقی کا پوری دنیا کی مدد اور تعاون سے گہرا تعلق ہے۔ جبکہ دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں چین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 1949 میں چین کے قیام اور خاص طورپر 30 سال سے زیادہ عرصہ قبل چین میں اصلاحات کاعمل اور چین کو پوری دنیاکے لیے کھولنے کی پالیسی پر عملدرآمد کے بعد سے چین میں وسیع تر تبدیلیاں آئی ہیں، چین کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں بڑے پیمانے پر بہتری کے ساتھ ہی چین اور دوسرے ممالک اور خطوں کے درمیان شرح مبادلہ کی شرح ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ چین نے خود کو پوری طرح بین الاقوامی برادری کے ساتھ ضم کرلیاہے۔
دریں اثنا چین کی ترقی سے نہ صرف یہ کہ پوری دنیا کوفائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے عالمی امن اور ترقی میں بھی نمایاں مدد ملی ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ،دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور دوسرا سب سے بڑا درآمدکنندہ ہونے کے ناتے چین نہ صرف یہ کہ بھاری تعداد میں اچھے معیار کی اشیامناسب قیمت پر پوری دنیا کے صارفین کو فراہم کی ہیں بلکہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع تر مواقع بھی پیدا کئے ہیں۔بڑی تعداد میں چینی طلبہ مختلف ممالک تعلیم کی ترقی کے محرک ثابت ہورہے ہیں۔چین کے بہت سے خریداروں نے مغربی ممالک کی صنعتوں کی کمزور صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔ بڑی تعداد میں چینی سیاح دوسرے ممالک میں بڑی تعداد میں اشیا کی خریداری کرتے ہیں۔ ان تمام حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ چین کی ترقی ملکی معیشت کی قوت کا سبب بنی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی بحران شروع ہونے کے بعد سے چین کی اقتصادی ترقی پوری دنیا کی مجموعی اقتصادی ترقی کے 25 فیصد کے مساوی رہی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ 2020 تک یعنی صرف 5سال کے اندر چین کی مارکیٹ میں قوت خرید 64 کھرب یوآن تک پہنچ جائے گی۔ اور چین کی جانب سے دنیاکے مختلف ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیا کی مالیت اگلے 5سال میں 10کھرب امریکی ڈالر کے مساوی ہوجائے گی اورچین کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی مالیت 500 ارب امریکی ڈالر کے مساوی ہوجائے گی۔اس عرصے میں دیگر ممالک کو جانے والے چینی باشندوں کی تعداد 40 کروڑ تک پہنچ جائے گی اس طرح جب چین تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہاہے تو وہ پوری دنیا کو بھی ترقی کے وسیع مواقع فراہم کررہاہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد سے جنگل کاقانون جو مضبوط ترین ہی کی بقاکے لیے استعمال کیاجاتاہے بین الاقوامی اصول بلکہ قانون بن گیا ہے۔پوری دنیا عالمی معیشت سے مستفیض نہیں ہورہی ہے شدید مقابلے کی صورتحال میں مفادات چند بڑی معیشتوں کے کنٹرول کا اصول اب بھی قائم ہے۔ اس بات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ بین الاقوامی مالیاتی بحران کے مغرب ومشرق ترقی یافتہ اور ترقی پزیر تمام ممالک نے بہت تیزی کے ساتھ ردعمل کااظہار کیا، مشترکہ کوششیں کی گئیں اور جی 20،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیر ہ جیسے اداروں سے عالمی معیشت کی مستحکم ترقی اور میکرو کنٹرولنگ کے لیے بھرپور استفادہ کیا گیا ۔
عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے چین باہمی اعتماد ،ایک دوسرے کو شامل کرنے اور سب کے فائدے کے لیے تعاون کے جذبے اور اصولوں کوسربلند رکھتے ہوئے پوری دنیا کا ساتھ دینے کوتیار ہے ۔مشترکہ مفادات پر پوری طرح عمل ہی میں بنی نوع انسان کی پرامن بقا مضمر ہے۔برابری اورباہمی فائدے کی بنیاد پر ترقی کی از سرنو کچھ مختلف انداز میں تعلقات کا قیام اور عالمی معیشت کی ترقی کے طویل المیعاد استحکام کی ٹھوس بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی امن، استحکام اور ترقی وخوشحالی اور پیش رفت کو برقرار رکھا جاسکے اور اس دنیا کے لوگوں کو ترقی کی کامیابیوں سے استفادے کا بہتر موقع دیا جانا چاہئے۔
غیر معمولی بڑی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد اب موجودہ دنیا ایک نظر نہ آنے والے بہت بڑے جال میں چھپی ہوئی ہے جس میں چین اور دنیا کے دیگر ممالک،بقائے باہم کی اعلیٰ ترین سطح پر ،ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ اور تسلسل کے ساتھ تبادلوں اور مستقبل کی ترقی کے حوالے سے ناقابل تقسیم طریقے سے ایک دوسرے سے بہت قریبی جڑے ہوئے ہیں۔
دنیا کی پیچیدہ صورتحال اور عالمگیریت کو ممکنہ طورپر پیش آنے والے چیلنجز کے پیش نظر ضروری ہے کہ متعلقہ ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ تبدیل کریں ،صرف اپنے مفادات کا کھیل ترک کریں اور دوسرے ممالک کااحترام کریں اور اپنے قومی مفادات کے لیے کوششیں کرنے کے ساتھ ہی دوسروں کا بھی خیال کریں اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ ترقی کی کوشش کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں