میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام کو عدلیہ کے خلاف میدان سنبھالنے کی تلقین ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے

عوام کو عدلیہ کے خلاف میدان سنبھالنے کی تلقین ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے

ویب ڈیسک
منگل, ۱۵ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

میاں نوازشریف نے گزشتہ روز لاہور میں داتا دربار پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ بات دُہرائی ہے کہ انکی نااہلی 20 کروڑ عوام کی توہین ہے‘ ہم یہ کھیل ہمیشہ کے لیے ختم کرینگے‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا ایجنڈا آئین اور قانون کی بالادستی ہے اور انکی جدوجہد عوام کے لیے ہے۔ گزشتہ روز ایک بڑے کارواں کے ساتھ راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے مختلف مقامات پر خطاب کے دوران میں بھی وہ یہی بات دہراتے رہے کہ عوام نے انہیں ووٹ دے کر اسلام آباد پہنچایا اور وزیراعظم بنایا مگر پانچ معزز ججوں نے انہیں گھر بھجوا دیا۔ نواز شریف یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ ان کے خلاف کرپشن‘ کمیشن یا کک بیکس کا کوئی کیس نہیں تو پھر انہیں نااہل کیوں قرار دیا گیا،لیکن اُنھوں نے کسی بھی جگہ عوام کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ سپریم کورٹ نے انھیں تاحیات نااہل قرار دینے کے بعد ان کے خلاف جو ریفرنس کھولنے کاحکم دیا ہے۔ کیاوہ ریفرنس ان کی ایمانداری کی علامت ہیں۔ نواز شریف نے یہ کہہ کر بھی عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی کہ وزیراعظم کو نااہل کرنے کا مطلب عوام کو نااہل کرنا ہے اور آج وہ عوام کی نااہلی کا کیس لے کر نکلے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 70 سال سے قوم کی توہین کی جا رہی ہے اوردعویٰ کیا کہ ہم اس روایت کو بدلیں گے ،ہم ملک اور عوام کی تقدیر بدلیں گے اور عوام کے ساتھ مل کر نیا پاکستان بنائیں گے۔تاہم انہوں نے اس موقع پر بھی عوام کو یہ نہیں بتایاکہ وہ خود کتنے وزرائے اعظم کو گھر بھجوانے کے اس( بقول ان کے )غیر قانونی عمل میں شریک تھے ،اور ان کو نکلوانے کے بعد انھوں نے خود اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے فو ائد سمیٹے ۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ وہ یہ کہہ کر کہ عوام ان سے پوچھیں کہ پانچ ججوں نے کس کے کہنے پر اتنا بڑا فیصلہ کیا،اور یہ عوام کے ووٹ کی توہین ہے کہ وہ وزیراعظم کو منتخب کرتے ہیں اور پانچ جج عوام کے وزیراعظم کو بیک جنبش قلم چلتا کرتے ہیں عوام کوکیا پیغام دینا چاہتے ہیں کیا وہ ایک دفعہ پھر عوام کو سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لیے اُکسا تو نہیں رہے ہیں ، یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو شروع کردیں۔نواز شریف کایہ کہناکہ قوم کے ساتھ 70 برس سے مذاق ہورہا ہے‘ آج تک کوئی وزیراعظم اس ملک میں اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ یہ وزیراعظم کی نہیں‘ اسے منتخب کرنیوالے عوام کی توہین ہے کہ وہ اسے ووٹ دیتے ہیں اور کوئی ڈکٹیٹر یا جج آکر انکے ووٹ کی پرچی پھاڑ کر انکے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے ،ان کا یہ کہنا کہ ڈکٹیٹر آئین اور قانون توڑتے ہیں اور ہمارے جج انہیں قانونی جواز فراہم کر دیتے ہیں‘ انہیں قوم اور خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا۔ عوام کو براہ راست عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف اُکسا نے اور انھیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔
نوازشریف کا یہ تجسس اپنی جگہ درست ہے کہ عوام کا مینڈیٹ طالع آزما جرنیلوں کے ماورائے آئین اقدامات کے تحت تاراج کیا جاتا رہا ہے ۔ اس معاملے میں بلاشبہ ہماری عدالتی تاریخ بھی تابناک نہیں ہے اور نظریہ ضرورت کے تحت جرنیلی آمروں کو آئینی تحفظ فراہم کرنا ہماری عدالتی تاریخ کے سیاہ اوراق کا حصہ بن چکا ہے۔ میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی کا آغاز بھی ایسے ہی حالات میں ہوا تھا اور ملک پر بدترین آمریت مسلط کرنے والے آمر کی انگلی پکڑ کر ہی وہ میدان سیاست میں آئے تھے اور فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ہی انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز کیاتھااور انھوں پاکستان کے صف اول کے سیاسی رہنمائوں کی صف میں شامل کرانے میں فوج اوراسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،جہاں تک ان کی عوام سے محبت کاتعلق ہے تو اس ملک کے عوام پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد چند دن بھی جیل کاٹنا ان کے لیے مشکل ہوگیاتھا اور وہ اندرون خانہ جوڑ توڑ کرکے عوام کو بتائے بغیر اپنی تمام دولت سمیٹ کر راتوں رات سعودی عرب چلے گئے تھے،اگر وہ اس طرح معافی نامے لکھ کر سیاست سے توبہ کرکے راتوں رات ملک چھوڑ کر نہ جاتے تو آج بھی عمر قید کی سزا کے تحت جیل کی روٹیاں توڑ رہے ہوتے ۔
آج میاں نوازشریف پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر نااہل ہو کر تیسری بار اقتدار سے باہر آئے ہیں تو وہ اسے بھی عوامی مینڈیٹ کے تحت قائم ہونے والی سول حکمرانی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے ہونیوالی محلاتی سازشوں سے تعبیر کررہے ہیں اور اس کے لیے جرنیلوں اور ججوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں جبکہ موجودہ صورتِ حال ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے پورے منتخب جمہوری نظام کو گھر بھجوانے والی صورتحال سے قطعی مختلف ہے کیونکہ انکی نااہلیت کے باوجود منتخب جمہوری حکومت قائم ہے اور یہ حکومت بھی انکی اپنی ہی پارٹی کی ہے جس کی منتخب ہائوس کے ذریعے تشکیل میں وہ خود معاون بنے ہیں۔
بے شک ہماری عدالتی تاریخ اتنی تابناک نہیں ہے مگر سپریم کورٹ پر حملے کاسہرا بھی نواز شریف کے سر ہی ہے ، اور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے گھر بھجوائے جانے والے چیف جسٹس کو سول سوسائٹی کی عوامی تحریک کے ذریعے بحال کرانے کا کریڈٹ بھی تو خود میاں نوازشریف نے لیا ہوا ہے جس کے بارے میں آج ان کا خیال ہے کہ ڈکٹیٹر کی طرح جج بھی ووٹ کی پرچی پھاڑ کر عوام کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ عدلیہ پر یہ الزام لگاتے ہوئے نوازشریف یہ بھول جاتے ہیں کہ نظریۂ ضرورت کے باوصف اسی عدلیہ نے صوابدیدی آئینی صدارتی اختیار کے تحت گھر بھیجے گئے میاں نوازشریف کو بحال کرکے اقتدار کی مسند پر دوبارہ بٹھایاتھا۔ جبکہ اسی بنیاد پر عدلیہ میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین کے ان الزامات کی زد میں بھی آتی رہی ہے کہ میاں نوازشریف کے خلاف کبھی کوئی عدالتی فیصلہ صادر نہیں ہوا۔
اگر میاں نوازشریف آج بھی ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی وکالت کررہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے پاناما کیس میں اپنے خاندان سمیت سپریم کورٹ اور اسکی بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اور پھر اسکے فیصلہ کو تسلیم کرکے کیا ہوا ہے تو پھر انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے تحت منتخب سول حکمرانیوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں میں عدلیہ کے بھی شامل ہونے کی بدگمانیوں کے اظہار کی کیا ضرورت ہے جبکہ انکے اور انکے خاندان کے لیے انصاف کی عملداری بھی عدلیہ کے ذریعے ہی ہونی ہے۔ ابھی پاناما کیس کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر انکی نااہلیت کی مدت کا فیصلہ بھی اسی عدلیہ کو کرنا ہے اور ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف دائر ہونیوالے نیب کے مقدمات کا فیصلہ بھی اسی عدلیہ میں ہونا ہے مگر وہ لاہور آنیوالے اپنے کارواں کے دوران
تقاریر کرتے ہوئے پاناما کیس کا فیصلہ صادر کرنیوالے پانچ فاضل ججوں کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کررہے ہیں اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے آئینی ادارے سے ٹکرائو پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس ٹکرائوکے نتیجہ میں اگر کسی کو خسارہ ہوگا تو وہ انکی اپنی پارٹی کی منتخب حکومت ہوگی جس کی آئینی میعاد وہ بردباری کا مظاہرہ کرتے پوری کرسکتے ہیں اور پھر فہم و تدبر والی اس سیاست کی بنیاد پر وہ آئندہ انتخابات میں بھی اپنی پارٹی کو سرخرو کرا سکتے ہیں۔ اگر اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے میاں نوازشریف نے اداروں کے ساتھ ٹکرائو مول لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے سادہ الفاظ میں بھی انکی مہم جوئی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کا خدشہ لاحق رہے گا۔ اس خدشہ کی بنیاد پر ہی چیئرمین سینٹ رضاربانی انٹراانسٹی ٹیوشنل ڈائیلاگ پر زور دے رہے ہیں اور اس کیلئے سینیٹ کا پلیٹ فارم بھی پیش کررہے ہیں جن کے بقول آج پارلیمنٹ سب سے کمزور ادارہ ہے جسے بچائے رکھنے کے لیے وزیراعظم‘ چیف جسٹس اور فوجی قیادت کے مابین ڈائیلاگ ہونے چاہئیں۔ ایسے ہی خدشہ کا اظہار رائے عامہ ہموار کرنیوالے پلڈاٹ کی جانب سے بھی کیا گیا ہے جس کے بقول سول‘ عسکری تعلقات میں سب اچھا نہیں ہے اور آئندہ دنوں میں یہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
چیئرمین سینٹ کا تو میاں نوازشریف کی مخالف پیپلزپارٹی سے تعلق ہے اور پلڈاٹ ایک آزاد ادارہ ہے جبکہ آج انکی اپنی پارٹی کی صفوں میں سے چوہدری نثارعلی خاں انہیں اداروں کو اپنے خلاف کرنے کے اس طرز عمل سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ میاں نوازشریف کو ان کے اقتدار کے دوران بھی یہی مشورہ دیتے رہے ہیں جسے بدقسمتی سے انکی پارٹی کی صفوں میں پارٹی قیادت کے ساتھ ٹکرائو سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے جبکہ ماضی جیسی محلاتی سازشوں سے سسٹم کو بچانے کے لیے فہم و تدبر والا وہی راستا اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کا چوہدری نثارعلی خاں مشورہ دے رے ہیں۔
جمہوریت کو چلنے نہ دینے کے بارے میں انکی تشویش اور تجسس اپنی جگہ درست اور قومی جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہے تاہم موجودہ صورتحال میں جبکہ انکی پارٹی کی حکومت کے ماتحت جمہوریت کی عملداری قائم ہے‘ وہ عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانا بنائیں گے تو اس سے سسٹم کی بساط لپیٹنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے فضا سازگار ہو جائے گی۔ اس لیے میاں نوازشریف کو اپنے مخالفین کے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
توقع کی جاتی ہے کہ نواز شریف جوش میں ہوش کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے،اور اس مرحلے پر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کامشورہ دینے والے اپنے دوست نمادشمنوں کے چڑھاوے اور بہکاوے میں آنے کے بجائے اپنے مخلص دوستوں اور قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ان کی اور ان کے پورے خاندان کی سیاست کادارومدار اسی پر ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج سے بلاوجہ ٹکرائو سے گریز کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں