پاک فوج کے جوانوں کو آرمی چیف کی یقین دہانی
شیئر کریں
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک دفعہ پھر یہ واضح کیا ہے کہ پاک فوج وطن کے دفاع کے لیے جانیں قربان کرنے والے شہیدوںاور ان کے اہل خانہ کو کبھی نہیں بھولے گی جب کہ دہشت گردی کے خاتمے اورسرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔
وطن کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے شہیدوں کو یاد رکھنا اور ان کے اہل خانہ کو کوئی بھی زندہ اور غیور قوم فراموش نہیں کرسکتی ، اس طرح پاک فوج کے سربراہ کا یہ بیان پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہے،اس وقت جبکہ پاکستان کا ازلی دشمن ہر قیمت پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی میں تیزی کے پیش نظر اس مسئلے پر ایک دفعہ پھر پاکستان اوربھارت کے درمیان جنگ چھڑنے کی نوبت آنے کاخطرہ روز بروز بڑھتاہی جارہے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کامورال بلند رکھیں ،اور ان کی ضروریات کا اس طرح خیال رکھیں کہ ان کے ذہن میں مایوسی کاشائبہ بھی پیدا نہ ہوسکے، یہاں یہ بتانے کے چنداں ضرورت نہیں ہے کہ بھارت دنیا کی واحد انتہا پسند ریاست ہے۔ جو سیکولرازم اور جمہوریت کے نا م پر بدنما دھبہ ہے وہ قیام کے بنیادی اصولوں کی بھی نفی کرتا ہے۔ ذات پات کے نظام پر سختی سے کاربند ہے۔ خود ساختہ اونچی ذات برہمن اور کھشتری کے علاوہ تمام قوموں اور ذاتوں کو نیچ اور اچھوت سمجھا جاتا جاتا ہے۔ پورے بھارت میں بالعموم اور کشمیر میں خاص طور پر بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت کی تذلیل قابض بھارتی فوج کا وطیرہ ہے۔ حال ہی میں CPRF نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ کے سامنے باندھ کر پورے شہر میں انسانی ڈھال بنا کر گھمایا۔ بزدل ،قابض بھارتی اعلان کر رہے تھے۔ ” پتھر بازوں کا یہی انجام ہوگا ” انسانیت کی اس تذلیل پر بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کے دومرتبہ وزیر اعلی ٰ اور بھارتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر فاروق عبداللہ بھارتیوں کی انسانیت سوز بزدلی اور اس شرمنا ک گھٹیا بزدلانہ حرکت پر بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ باضمیر بھارتیوں کا سرتو شرم سے جھک گیا ہوگا۔ لیکن۔ انتہا پسند مودی کے گروہ کو خوشی ہوئی ہوگی۔ کشمیریوں کی بہادری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگاکہ بھارتی فوجی گاڑی سے بندھا ہوا ، کشمیری نوجوان فاروق ڈار بلا کسی خوف اپنا سر فخر سے بلند کئے ہوئے ہے۔ اسے نہ تشدد کا خوف تھا نہ موت کا۔
قابض بھارتی فوجیوں کی کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق ا ور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم اور کنٹرول لائن پراس کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات کی فہرست بہت طویل ہے۔ انتہا پسند ہندو گائے ذبح کرنے پر نہتے مسلمانوں کو شہید کردیتے ہیں۔بزرگوں عورتوں ،بچوں کو شدید تشدد اور تذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ آر ایس ایس کے غنڈے نام نہاد اسمبلی میں کشمیری ممبران پر گائے ذبح کرنے پر حملہ کردیتے ہیں اور ان سب کے باوجود نریندرا مودی بھارت میں گائے کے حوالے سے ایک علیحدہ وزارت قائم کرنے پر غور کررہی ہے۔ انتہا پسند بزدلوں کے ذہنی گھٹیا پن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے ،زندہ سنگ بازوں اورسربازوں کے خوف سے تو کانپتے ہوئے انسانی ڈھا ل کا استعمال کرتے ہیں ، لیکن شہید ہونے والوں کی لاشوں پر اپنی کمینگی اور گھٹیا پن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے خنجروں کے وار کرکے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھا کر اپنی بربریت کو تسکین دیتے ہیں۔ایسے گھٹیا ذہنیت کے دشمن کامقابلہ کرنے کیلئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ مسلح افواج ہمیشہ چاق وچوبند اور چوکس رہے بلکہ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کافریضہ انجام دینے والے پاکستانی فوجی جوانوں کووطن کادفاع کرتے ہوئے شہید ہوجانے کی صورت میں اس بات کی فکر نہ ہو کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں اوراہل خانہ کاکیا ہوگا، اس اعتبار سے پاک فوج کے سربراہ نے فوجی جوانوں کو بجاطورپر یہ یقین دلایا ہے کہ قوم اپنے شہیدوںاور ان کے ورثا کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
موجودہ صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف یہ کہ پوری قوم پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہے، اس حوالے سے ہماری سیاسی جماعتوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کے دوران پاک فوج کو گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں، اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کی جائے ہماری مسلح افواج میں کوئی بھی اس ملک میں جمہوریت کی مخالف ہے، یہ صحیح ہے کہ اس ملک کی 70سالہ تاریخ کا کم وبیش نصف حصہ اس ملک پر فوجی طالع آزما مسلط رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ فوج کو اقتدار میں آنے کی دعوت سیاستدانوں کی طرف سے ہی دی جاتی رہی ہے اور ہماری سیاسی پارٹی کے رہنما اس حقیقت کی بھی تردید نہیں کرسکتے کہ جمہوری حکومتوں کوگراکر اقتدار سنبھالنے والے فوجی طالع آزمائوں کو اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے سہارا دینے والے یہی سیاستداں تھے یہی نہیں بلکہ فوجی طالع آزمائوں کی جانب سے ایک پارٹی کوگراکر اقتدار سنبھالنے پر دوسری پارٹی کے ارکان مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے ہیں۔ اگر عمیق نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور بانی کسی نہ کسی طور فوجی حکمرانوں کی نرسری سے ہی باہر آئے ہیں، اور ان میں سے بیشترکے پاس اس وقت جو دولت کے انبار موجود ہیں وہ بھی ان فوجیوںکی ہی مرہون منت ہے۔