میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدقسمتی سے عدالتیں جھوٹی گواہی تسلیم کرلیتی ہیں، سپریم کورٹ

بدقسمتی سے عدالتیں جھوٹی گواہی تسلیم کرلیتی ہیں، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۵ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد (بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان کو 15 سال بعد بری کردیا۔ سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان غلام مصطفیٰ اور منصور سکندر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں 15 سال بعد بری کردیا۔غلام مصطفیٰ کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں خاتون سمیت دو افراد کو قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، جبکہ منصور سکندر پر 2002 میں فیصل آباد میں ایک شخص کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ ٹرائل کورٹس نے ملزمان کو عمرقید کی سزا سنائی جسے ہائی کورٹس نے برقرار رکھا، جس پر ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور شک کا فائدہ دے کر ملزمان کو سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مدعی اس طرح کے مقدمات میں جھوٹ کا پلندہ بنالیتے ہیں اور بدقسمتی سے عدالتیں بھی جھوٹی شہادتوں کو تسلیم کرلیتی ہیں۔ملزمان کے خلاف گواہی دینے والے افراد کے بارے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد جعفر نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کے گواہان جائے وقوعہ کے قریب دربار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جنت سچ بولنے سے ملے گی درباروں پر فاتحہ خوانی سے جنت نہیں ملے گی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لوگ جھوٹی کہانیاں بنا کرکہتے ہیں کہ عدالت نے انصاف نہیں کیا، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کیا اس نے خود انصاف کیا ہے، ہمارے معاشرے میں قتل کے بعد لوگ اللہ کوبھول جاتے ہیں، حالانکہ جب لاش سامنے آجائے تو اللہ تعالیٰ زیادہ یاد آنا چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں