عوامی عہدے رکھنے والوں کو جواب دہ بنانے کی ضرورت
شیئر کریں
کراچی میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عوامی عہدے رکھنے والوں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پہلے ملک پھر ذات ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے تمام ریاستی اداروں سے تعاون جاری رکھیں گے۔
اپیکس کمیٹی کے اس خصوصی اجلاس میں اطلاعات کے مطابق آرمی چیف نے کراچی میں امن و امان کی صورت حال اور صوبے کی داخلی سلامتی کے معاملات پر غور و خوض کے بعد صورت حال میں بہتری لانے کے لیے پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے تمام اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو اپنی حکمت عملی میں ہم آہنگی اور بہتری بنانے کی ہدایت کی جبکہ اس موقع پر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان رابطوں کو بہتربنانے پر زور دیاگیا۔ آرمی چیف نے بجا طور پر باور کرایا کہ دیرپا امن کا قیام ریاست کی رٹ اور بلاامتیاز فوری انصاف سے ہی ممکن ہے اور آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے باعث دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف قابل ذکر کامیابیوں کے باوجود ابھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے حصول اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو مستحکم کرکے منفی سوچ کو ختم کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔
عوامی عہدہ رکھنے والوں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت نہ صرف یہ کہ مسلمہ ہے بلکہ عوام کی اکثریت کی دلی خواہش بھی یہی ہے کہ عوامی عہدے رکھنے والوں کے کڑے احتساب کا ایسا نظام رائج کیاجانا چاہئے جس کے ہوتے ہوئے عوامی عہدے پر فائز ہونے والا کوئی بھی فرد فرعون بننے سے گریز کرے،یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں چیف کے اس بیان کو سراہا گیا اورلوگوں نے دعا کی کہ کاش ملک میں ایسا کوئی فعال اور غیر جانبدار نظام رائج ہوجائے جس کے تحت تمام ذمہ دار عہدوں پر متمکن افراد اپنی ذمہ داریوں کی بابت جوابدہ ہوں۔
"ڈالر” ایک دم109″ روپے” ہوگیا جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں کے حجم میں اربوں روپے کااضافہ ہو گیا۔وزیر خزانہ نے بینکوں کی جانب سے اچانک ڈالر کی خریداری کے سبب ڈالر کی قیمت میں ایک ہی دن میں اس غیر معمولی اضافے کو سازش قرار دیاہے اور کہاہے کہ اس کے ذمہ دار افراد کا پتہ لگاکر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ کیا اِس کا اہتمام کرنے والوں کو پکڑنے کاواقعی کوئی انتظام ہوسکے گا اورکوئی اس کے ذمہ دار افراد سے جوابدہی کر پائے گا؟
جہاں تک عوامی عہدے رکھنے والوں کی چیرہ دستیوں کی صورت حال کا تعلق ہے تواس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ گزشتہ دنوںوزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ سمیت سبھی لوگ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد جس طرح آئے تھے اْسی طرح رْخصت ہو گئے۔” اسلام آباد” کھلا رہا۔ سب سے بڑے ریاستی عہدے پر فائز شخص کے لیے بھی راستے اگربند کیے گئے تو معمولی سے وقفے کے لیے لیکن جب وزیراعظم کی ٹیلنٹیڈ صاحبزادی جے آئی ٹی میں جوابدہی کے لیے حاضر ہوئیں تو ان کی آمد سے گھنٹوں قبل ہی شہر میں کرفیو کاساسماں پیدا کردیاگیاکیا مریم نواز کی جان اتنی زیادہ قیمتی تھی کہ ان کے لیے نہ معلوم کتنے لوگوں کی جان دائو پر لگادی گئی مریض ایمبونسوں میں پھنسے رہے اور مریم نواز شہزادیوں کی طرح عوام کی ہر تکلیف سے بے خبر جے آئی ٹی میں جوابدہی کے بعد جے آئی ٹی کے ارکان کو برا بھلا کہتی رہیں ،سوال یہ ہے کہ مریم نواز کی اس گرج چمک کا مقصد کیا تھاوہ کِس کو کیا پیغام دینا چاہتی تھیں ؟اتنا دبدبہ، رعب، کروفر، ابھی تو صرف "صاحبزادی "ہے کل اگر ؟؟ کسی عہدے پر بیٹھ گئیں تو کیا عالم ہوگا۔ 3″نسلوں "کے بار بار حساب دینے کا احسان دھرنے والے عوام کا یہ احسان کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ انھوںنے ان کے جھوٹے وعدوں اورمعصوم چہروں پر اعتبار کرکے انھیں اس کرسی تک پہنچایا جس کے ذریعہ وہ مبینہ طورپر اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کے بیٹے ان کواربوں روپے سالانہ بطور تحفہ دینے کے قابل ہوگئے۔جے آئی ٹی میں پیش ہوکر قوم کی رقم کی جوابدہی کس پر احسان ہے ، بے پناہ سرکاری پروٹوکول کے حصار۔ سلیوٹوں کے سائے میں” پیشی” کو اتنا زیادہ مظلومیت کا لبادہ کیوں پہنایا جارہاہے ؟مریم نواز کو سلیوٹ مارنے کا جواز یہ پیش کیاجارہاہے کہ یہ سلیوٹ کسی عہدے کو نہیں بلکہ ایک خاتون کے احترام کے طورپر مارا گیا تھا اگر یہ سچ مان لیا جائے تو کراچی ،لاہور ، اسلام آباد ، فیصل آباد، ملتان اور دیگر شہروں میں عدالتوں میں پیش ہونے والی کتنی خواتین کو پولیس اہلکار سلیوٹ مار چکا ہے،کیا کِسی عدالت یا دفتر میں پیش ہونے والے کسی عام شہری کو کوئی ہمیں سلیوٹ مارے گاجبکہ عام شہری تو ’’ووٹرز”ہیں۔حکمران بنانے کی قوت رکھتے ہیں، کیا ہماری کل آبادی کے 80″ فیصد” عوام کا کوئی احترام نہیں ۔کیا عام لوگ کبھی "عدالت یا تھانے "نہیںجاتے؟ کیا یہ اہلکار اتنی بڑی خیانت پر جوابدہ نہیں؟ اگر ہیں تو سب سے بڑی قوت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امید کی جاتی ہے کہ ہمارے حکمراں ا س صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں گے اور خود کو ماورائے عدالت اور ماورائے احتساب تصور کرنے کے بجائے احتساب کے عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنے میں مکمل تعاون کریں اگر آپ واقعی معصوم اور بے قصور ہیں آپ کا دامن صاف ہے تو پھر آپ کو خوف کھانے کی کیا ضرورت ہے،احتساب کاعمل جلد ہی مکمل ہوجائے گا اور دودھ کا دودھ پانی کاپانی سامنے آجائے گا اورپاکستان کے عوام کو بھی یہ معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیاہے، اور نواز شریف کے صاحبزادگان اربوں روپے کی دولت کے مالک کیسے بنے اور ان کے لیے فلیٹوں اور کمپنیوں کی خریداری کے لیے رقم کس ذریعے سے پاکستان سے بھیجی گئی ،اور پاکستان میں یہ رقم ان کے پاس کہاں سے آئی؟۔