افغان امن کانفرنس میں اشرف غنی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی
شیئر کریں
افغان صدر اشرف غنی نے ایک دفعہ پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ملک کے خلاف ’غیر اعلانیہ جنگ‘ مسلط کر رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ ’پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا‘۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ سخت اعلان انہوں نے کابل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کے دوران کیا اور اس موقع پر گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 تک تجاوز کرنے کے حوالے سے خبر بھی دی۔اس کانفرنس میں دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک، نیٹو اور اقوام متحدہ کے نمائندے موجود ہیں۔امن کانفرنس کے موقع پر کابل میں سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے، جس میں کابل کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں جبکہ اس موقع پر فضائی نگرانی بھی کی گئی۔تاہم، افغان خبر رساں ادارے خاما کی ویب سائٹ کے مطابق سخت سیکورٹی کے باوجود کابل میں بھاری سفارت خانے کی حدود میں ایک راکٹ آکر گرا جو دھماکے سے پھٹ گیا لیکن اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں۔افغان میڈیا نے سیکورٹی حکام کے حوالے سے تصدیق کی کہ راکٹ کابل کے مضافات سے فائر کیا گیا تھا جو بھارتی سفارت خانے میں گرا۔امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم امن کے لیے ایک موقع فراہم کررہے ہیں لیکن یہ کھلی پیش کش نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، یہ آخری موقع ہے، اسے حاصل کرلیں یا نتائج کے لیے تیار رہیں‘۔افغانستان کے حوالے سے ہونے والی امن کانفرنس کو ’کابل عمل‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔دوسری جانب اشرف غنی کے اس اعلان پر افغان طالبان کا فوری رد عمل سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے تناظر میں علاقائی سیکورٹی کا جائزہ لینے کے لیے جی ایچ کیو میں خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔کانفرنس میں کابل حملے کے بعد افغانستان کی جانب سے پاکستان پر عاید کیے جانے والے الزامات کو بلاجواز قرار دیا گیا اور افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان پر الزامات عاید کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے اور حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔کانفرنس میں علاقائی امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرنے کا عزم دہرایا گیا جبکہ اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاک فوج مادر وطن کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہے۔ کانفرنس کے شرکانے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں افغانستان کی معاونت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ کانفرنس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا اور افغان عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال میں تیزی سے رونما ہونیوالا بگاڑ صرف افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے میں داعش کے اثرورسوخ میں اضافہ ہورہا ہے ، دہشت گرد گروپ کی جانب سے کابل کے گرین زون میں ایک بڑا حملہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس گروپ کے اندرونی حلقوں میں رابطے موجود ہیں جو بذات خود ایک تشویش کی بات ہے۔ ان حملوں کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جو امن اور مفاہمت کی ازسرنو کی جانیوالی کوششوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس حوالے سے تمام تر ذمہ داری خود افغان حکومت پر عاید ہوتی ہے ،اس لیے افغان حکومت کو پاکستان پر الزام دھرنے کے بجائے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو جیسا کہ پاک فوج کے سربراہ باربار افغان حکمرانوں کو یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ پاکستان اور پاک فوج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغان حکومت کو ہر ممکن مدد دینے کو تیار ہے، تاہم اس کے لیے افغانستان کو اپنے اندرونی مسائل باہر سے منسوب کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ افغان حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ایک مشترکہ دشمن ہے اور اس سے نجات کے لیے اس کیخلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ان حملوں کے لیے وقت کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو امن بات چیت کی نئی کوششوں کا آغاز نہیں ہونے دینا چاہتے۔کابل انتظامیہ کو سب سے پہلے اپنی بدانتظامی پر تشویش ہونی چاہیے اور اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے سدباب کے لیے پاکستان سے معاونت سمیت ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس وقت دہشت گردی کی لہر صرف ہمارے خطہ ہی نہیں‘ مغرب اور یورپ میں بھی پھیل چکی ہے جیسا کہ گزشتہ روز بھی لندن دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھا ہے جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں کی دہشت گرد تنظیم داعش ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔ ان میں گزشتہ ہفتے کا کابل کار بم دھماکہ بھی شامل ہے اس لیے کابل انتظامیہ کو بغیر سوچے سمجھے ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر دھرنے کے بجائے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردوں کو افزائش کا موقع فراہم کرنیوالی اپنی کمزوریوں کوبھی تسلیم کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے لیے پاکستان کے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد جیسے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پاکستان کی جانب سے تو یہ ٹھوس شواہد بھی کابل انتظامیہ کو پیش کیے جاچکے ہیں کہ داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے دہشت گردوں کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کی مذموم کارروائیوں کے لیے پاکستان بھی بھجوایا جاتا ہے۔ انہی شواہد کی بنیاد پر پاکستان نے لاہور خودکش دھماکے اور سیہون شریف دہشت گردی کے بعد آپریشن ردالفساد کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان کے اندر بھی کارروائی کی اور وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر بمباری کرکے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد تو افغان حکومت کو حقائق تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی معاونت حاصل کرکے دہشت گردی کے خاتمہ کی مربوط حکمت عملی طے کرنا چاہیے تھی مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانا اور بھارتی لب و لہجہ میں اسے موردِالزام ٹھہرانا شروع کر دیا جبکہ یہ حقائق بھی اب کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ پاکستان کے اندر بھارتی ”را“ کی دہشت گردی اور اس کے نیٹ ورک میں افغان ایجنسی ”این ڈی ایس“ بھی برابر کی شریک ہے جس کے پاکستان میں چھوڑے گئے متعدد جاسوس بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن کی نشاندہی پر گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ اگر ان حقائق کے باوجود کابل انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں ہونیوالی ہر دہشت گردی کا بلاتحقیق اور فوری طور پر پاکستان پر الزام دھر دیا جاتا ہے، جیسا کہ کابل کار دھماکے کے رونما ہوتے ہی کابل انتظامیہ نے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے، تو اس سے پاکستان کیخلاف افغان بغض کی ہی عکاسی ہوتی ہے جبکہ یہ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف دہلی اور کابل کی ملی بھگت ہے۔ افغانستان کو پاکستان کیخلاف نفرت انگیز مہم بند کردینی چاہیے۔ کابل انتظامیہ تو درحقیقت بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشں میں شریک ہے جس پر اسلام آباد کو بجا طور پر تشویش ہے اور پاکستان اس حوالے سے نہ صرف کابل انتظامیہ سے باضابطہ احتجاج کرچکا ہے بلکہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی اداروں کو بھی بھارت افغان گٹھ جوڑ کے مضمرات سے آگاہ کرچکا ہے۔
پاکستان کی جانب سے ماہ صیام کا احترام کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے باب دوستی کھول دیا گیا جو افغان فورسز کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے تسلسل سے ہونیوالے واقعات کے باعث بند کیا گیا تھا مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کے حوالے سے اپنا خبث باطن ابھی تک ترک نہیں کیا اور کابل کار بم دھماکہ کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر وہ درحقیقت پاکستان کیخلاف بھارتی الزامات کو تقویت پہنچانا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں اب ہمارے دفتر خارجہ کو افغانستان سے محض رسمی احتجاج اور اپنی طرف سے وضاحتیں پیش کرنے پر ہی قناعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ پاک افغان سرحد پر سیکورٹی کے مو¿ثر انتظامات کے ساتھ ساتھ افغانستان کی ہر جارحیت کا اسے فوری اور دوٹوک جواب بھی دینا چاہیے۔ اگر کابل انتظامیہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے تدارک کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرتی ہے تو اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہو سکتی تاہم اگر کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر نبھائے رکھنا چاہتی ہے تو پھر اس کے لیے ”ایسے کو تیسا“ والا جواب ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی سرحدیں محفوظ بنا کر ہی پاکستان کی بقا و سالمیت کے تقاضے نبھانے ہیں۔ اگر کابل انتظامیہ بھارت ہی کی طرح ہماری سالمیت کے درپے ہے جس کے لیے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں تو اسے ہماری جانب سے ہر محاذ پر ایسا ٹھوس جواب ملنا چاہیے کہ اسے آئندہ ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرا¿ت نہ ہو۔