میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام بے وقوف نہیں ہیں!

عوام بے وقوف نہیں ہیں!

جرات ڈیسک
پیر, ۲۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

بجلی کے بلوں میں غیرمعمولی اضافے کے خلاف ملک بھر میں عوام کے صبر کاپیمانہ چھلک پڑا ہے جس کا اندازہ شہرشہر نگرنگر بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف عوام کسی پارٹی کے کہنے پر سڑکوں پر نہیں آئے ہیں کیونکہ اس وقت ملک میں عملاً کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ ملک میں عوام کا اعتماد رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی سیا سی جماعت کو عملاً دیوار میں چنوا دیاگیا ہے،اس کے ہر لیڈر پر درجنوں کے حساب سے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور اگر عدالتوں سے انھیں کوئی ریلیف ملتابھی ہے تو انھیں رہاکرتے ہی کسی اور مقدمے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ان حالات میں تنہا جماعت اسلامی ملک میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور جماعت اسلامی کے امیر قریہ قریہ جاکر اس ملک کے عوام پرحکومت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں فغان درویش پر کان دھرنے کو کوئی تیار نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے پسے ہوئے عوام نے بغیر کسی رہبر کے ہی اپنی آواز کاخ امرا تک پہنچانے کی کوششیں شروع کردی ہیں،جس کے بعدکراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے عملے پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔تاجروں سمیت عوام حکومت سے بجلی کے نرخوں میں کمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تاجروں نے بجلی کے بھاری بلز اور ٹیکسوں کی بھرمار کیخلاف شٹر ڈاؤن کا اعلان بھی کیا ہے۔صارفین اپنے زیادہ آنے والے بجلی کے بلوں پر سیخ پا ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث شدید مایوسی کا شکار ہیں، کیونکہ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے نے عوامی غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا ہے۔بجلی کے بل میں حالیہ اضافہ ملک کے اب تک کے سب سے بڑے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز اور ان پر حکومت کی جانب سے وصول کیے جانے والے مختلف ٹیکسوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے بڑھتے ہوئے بلوں کے خلاف ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر نکلتے دیکھنا حیرانی کا باعث نہیں ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے پر مالی بوجھ بڑھا دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشنز نے نیشنل پاور ریگولیٹر سے اضافی فیول اخراجات اور پچھلے مہینوں میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے سہ ماہی پرائس ایڈجسٹمنٹ فیس وصول کرنے کی درخواست کی ہے۔ان دونوں عنوانات کے تحت صارفین پر 200 بلین روپے کی مشترکہ رقم کا ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ یہ چارجز آنے والے مہینوں میں صارفین کے بلوں پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔، ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجز کا نفاذ ہے جو کہ ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی فیسیں ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ملک میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیپسٹی چارجز کو ضروری اقدام قرار دیا ہے۔تاہم، بہت سے لوگوں نے اس پالیسی کی منطق اور انصاف پر سوال اٹھائے ہیں، خاص طور پر جب ملک کو اب بھی مسلسل لوڈشیڈنگ اور بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔بڑے بڑے بلوں نے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مشکلات کھڑی کردی ہیں جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور کرپشن سے نبرد آزما ہیں۔اس پوری صورت حال میں سب سے بری خبر یہ ہے کہ نگراں وزیراعظم کی جانب سے خواہ کتنے ہی اجلاس بلائے جائیں آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے تحت ملک میں بجلی کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں بڑھیں گی۔
اس صورت حال میں عوام کے اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑنے بجلی کے بلوں کے معاملے پرگزشتہ روز ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا،اور ایک بیان میں کہا گیا کہ بجلی کے بھاری بلوں کے معاملے میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی گئی اور صارفین کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لیے مشاورت کی گئی۔اطلاعات کے مطابق بریفنگ میں وفاقی سیکریٹری برائے توانائی نے بتایا کہ صارف کیلئے بجلی کے ٹیرف کا تعین تین طریقوں سے ہوتا ہے اور اس کا تعین نیپرا کرتا ہے، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا تعین نئے پاور پلانٹس کیلئے ہے، کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ KIBOR بڑھنے سے بھی ٹیرف میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بھی بجلی کی قیمتوں میں فرق آتا ہے، اگر ایک صارف مئی میں 300 یونٹ استعمال کرتا ہے تو جولائی کے بل میں اس کا فرق لگ کر آتا ہے، مالی سال 2023میں ہم نے جو 195 روپے ڈالر ریٹ کے مطابق نرخ نوٹیفائی کئے جبکہ ڈالر کی قیمت 284 روپے تک گئی۔ ہم نے آر ایل این جی کی قیمت 3183 ایم ایم بی ٹی یو روپے مقرر کرنے کا پلان بنایا جبکہ آر ایل این جی کی قیمت 3 ہزار سے 3800 کے درمیان رہی، اسی طرح درآمدی کوئلے کی قیمت بھی 51 ہزار سے 61 ہزار روپے فی میٹرک رہی، اگلے سال ہم نے 2 ٹریلین روپے صرف کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادائیگیاں کرنی ہیں، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا فرق 400 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں پر لاگو ہوا۔وفاقی سیکریٹری نے اس کے ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ 63.5 فیصد ڈومیسٹک صارفین کیلئے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، 31.6 فیصد ڈومیسٹک صارفین کیلئے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے سے 6.5 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا، صرف 4.9 فیصد ڈومیسٹک صارفین کیلئے ٹیرف میں 7.5 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا، ڈومیسٹک صارفین کے لئے اوسطاً ٹیرف میں 3.82 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ دیگر کیٹیگریز میں آنے والے صارفین کے لئے 7.5 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا۔انہوں نے بتایا کہ جولائی 2022میں زیادہ سے زیادہ بجلی کا ٹیرف 31.02 روپے فی یونٹ تھا، اگست 2023میں 33.89 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ہے،انھوں نے بتایا کہ ڈیسکوز کے افسران کو فراہم کئے جانے والے بجلی کے مفت یونٹس ختم کر رہے ہیں، واپڈا کے پرانے ملازمین علاوہ کسی محکمے میں بجلی کے بلوں میں رعایت نہیں دی جا رہی، اس وقت یہ رعایت ڈسکوز کے ملازمین کو مل رہی ہے، ایسا نہیں کہ تمام بوجھ بجلی کا بل ادا کرنے والوں پر ڈالا جا رہا ہے۔نگران حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی یا نہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن اب  ایک بڑا طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت سمیت دیگر مراعات کو ختم کرنا ہی اس تمام تر معاملے کا حل ہے۔افسران بالا کو مفت بجلی دینے سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑتاہے اس کا اندازہ شہباز حکومت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین نورعالم نے مارچ کے مہینے میں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کی ایک اجلاس میں پاور ڈویژن کو 16 سے 22 گریڈ کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے سالانہ9 ارب روپے کی بچت ہو گی تاہم غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرنے والے شہباز شریف نے اس تجویز پر عمل نہیں ہو نے دیا کیونکہ غالباًاس سے ان کے بہت سے چہیتے متاثر ہوتے تھے۔ا فسران بالا کو دی جانے والی بیجا مراعات سے قومی خزانہ کو کتنا بوجھ اٹھانا پڑتاہے۔ اس کا اندازہ قوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور فوج کو ملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچ کا باعث بنتی ہیں۔وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں جو بھی باتیں کی گئی ہیں اور وفاقی سیکریٹری توانائی نے قیمتوں کے جن گورکھ دھندوں کا ذکر کیاہے ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے اس طرح کے اعدادوشمار ایک درجن سے زیادہ مرتبہ ملک کے تمام اخبارات اور ٹی چینلز پر پیش کئے جاتے رہے ہیں۔
اس ملک کے غریب عوام اس بات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ ایل این جی کن داموں خریدی گئی اس کی خریداری میں کس نے کتنا کک بیک حاصل کیا اور کس کی نااہلی کی وجہ سے اس کی قیمت ابتدائی تخمینے سے زیادہ رہی،عوام تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان بلوں پر بجلی کی قیمت کے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ سے لے کر جی ایس ٹی تک جو ٹیکس عاید کئے گئے ہیں وہ ختم کیوں نہیں کئے جاسکتے یا ان میں مناسب حد تک کمی کیوں نہیں کی جاتی،نگراں وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بظاہر ایک نمائشی اجلاس طلب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کیا بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافے کی منظوری ان سے نہیں لی گئی تھی یہ منظوری دیتے ہوئے انھوں نے غریب عوام کے بارے میں کیوں نہیں سوچا،کیا نگراں وزیر اعظم اس ملک کے عوام کو بالکل ہی جاہل مطلق اور جنگل کا جانور سمجھتے ہیں جو اس طرح کے نمائشی اجلاس بلاکر عوام کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں،کیا نگراں وزیراعظم یہ نہیں جانتے کہ بجلی کے بلوں میں اس اضافے کا وعدہ شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے کررکھا ہے اور اس سے انحراف کی صورت میں ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف کا امدادی پیکیج لٹک جائے گا اور نگراں وزیراعظم کو اپنی 24 رکنی کابینہ کا پیٹ بھرنے کیلئے ایک دفعہ پھر کشکول ہاتھ میں اٹھاکر نکلنا پڑے گا،نگراں وزیرا عظم کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے نمائشی اجلاسوں کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کے بجائے بجلی کے بلوں میں اس اضافے کو کم کرنے کیلئے ایسی متبادل تجاویز پیش کریں جن پر عمل کرنا آسان ہو اور اس سے آئی ایم ایف کی ناراضگی مول لینے کا خطرہ بھی نہ رہے۔
نگراں وزیراعظم کو یہ سوچنا چاہئے کہ عام انتخابات کے بعدبھی انھیں اسی ملک کے ان ہی غریب عوام کے ساتھ رہنا ہے اور اگر سیاست کرنی ہے تو لامحالہ ووٹ کیلئے کشکول لے کر ان ہی عوام کے پاس حاضری دینا ہوگی۔ اس لئے وہ اپنی مختصر میعاد حکومت کے دوران عوام کو ممکنہ حد تک ریلیف پہنچانے کی کوشش کریں،ان کی یہ کاوش ان کی مستقبل کی سیاست کیلئے ان کی ایک اچھی سرمایہ کاری ہوگی لیکن اگر وہ براہ راست عوام کے ووٹوں کے بجائے کندھوں پر چڑھ کر ہی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو آئندہ سیٹ اپ میں شاید ان کو کوئی جگہ نہ مل سکے۔دیکھنا یہ ہے کہ نگراں وزیراعظم اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیا قدم اٹھاتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں