میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انتخابی اصلاحات بل کی منظوری

انتخابی اصلاحات بل کی منظوری

منتظم
هفته, ۲۶ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات بل 2017کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، منظوری کے بعد تحریک انصاف نے بعض ترامیم کو شامل نہ کرنے پر واک آؤٹ کردیا۔بل اب سینیٹ سے منظوری اور صدارتی توثیق کے بعد نافذ ہو جائیگا۔ بل 241شقوں پر مشتمل ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی 101ترامیم میں سے 98کو مسترد کردیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے آئین کے آرٹیکل 62،63میں وزیراعظم کو 5 سال نااہل کرنے کی ترمیمی شق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کس قسم کی کوئی حد نہیں ہونی چائے اس شق کو مزید بحث کیلئے کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انتخابی اصلاحات بل کی منظوری خوش آئند ہے، لیکن اگریہ بل کثرت رائے کے بل پر منظورکرائے جانے کے بجائے اتفاق رائے سے منظور کرایا جاتا تو یہ زیادہ بہتر ہوتا، کیونکہ اگرچہ یہ درست کہ اس وقت تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کے لئے قانون سازی کی ضرورت کااظہار کررہی تھیں لیکن اس بل کو منظور کرانے کیلئے حکومت کی جانب سے کی جانے والی جلد بازی نے اس بل کے حوالے سے حکمرانوں کی نیت ہی مشکوک ہوجاتی ہے اور اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بل محض نواز شریف کو طویل عرصے یاتاعمر نااہلی سے بچانے کیلئے جلد بازی میں منظور کرایاگیاہے اور اس میں سب سے زیادہ زور نااہلی کی مدت پر ہی دیاگیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کیلئے دوسری جماعتوں سے زیادہ سرگرم پی ٹی آئی نے بھی اس بل کی مخالفت کی اور ایوان سے واک آؤٹ کرکے بل سے لاتعلقی کااظہار کردیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی انتخابی اصلاحات کی ضرورت کا اظہار کرنے کے باوجود اس بل کی مخالفت کی اور واضح طورپر یہ اعلان کیا کہ اس بل کی جلد بازی میں منظوری کابنیادی مقصد نواز شریف کو تاعمر نااہلی سے بچانا ہے ۔جہاں تک انتخابی قوانین میں موجود سقم اور اس میں اصلاحات کی ضرورت کاتعلق ہے تو پچھلے انتخابات کے بعد بیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے ’’وسیع الظرفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ، نتائج کو تسلیم تو کر لیا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ انتخابات آر اوز کے انتخابات ہیں ۔ پی ٹی آئی نے اپنی ناکامی کوکچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لیا اور الزام لگایا، کہ کم از کم 35حلقوں میں دھاندلی(جسے وہ 35 پنکچر کہتے تھے) ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی نے پاناما لیکس کے آنے تک دھاندلی کے الزامات کی تکرار جاری رکھی۔ لانگ مارچ کئے، اسلام آباد کے ریڈ ایریا میں کئی ماہ دھرنا دیئے رکھا۔ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی عدم اطمینانی اور بے چینی کے اظہار سے انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت واضح ہوگئی تھی لیکن نواز شریف نے اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی بھی اپوزیشن کے ان اعتراضات کو کوئی وقعت اور اہمیت نہیں دی لیکن جیسے ہی انھیں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیاگیا مسلم لیگ ن کے تمام رہنماؤں کو انتخابی قوانین کے بل میں فوری اور جلد از جلد اصلاحات کی ضرورت نظر آنے لگی اور حکومت نے اس حوالے سے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں سے کسی طرح کے مشورے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی یہی نہیں بلکہ حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پر اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی 101ترامیم میں سے 98کوبلڈوز کرکے اپوزیشن کو واک آؤٹ اور احتجاج پر مجبور کردیا ،اس بل کے حوالے سے حکومت کادعویٰ یہ ہے کہ اس سے انتخابات میں دھاندلی کی راہ بند ہو جائے گی۔جبکہ اپوزیشن کی جماعتوں کاموقف یہ ہے کہ حکومت نے یہ پورا ڈرامہ اس بل کو پرانی تاریخ سے نافذ العمل کرکے نااہل قرار دئے گئے نواز شریف کو دوبارہ سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب یہ تو آئندہ انتخابات ہی میں یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ الیکشن کی شفافیت کے بارے میں اس قانون کے حوالے سے حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما جو دعوے کررہے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس بل کی اس طرح سے مظوری اورحکمراں جماعت کی جانب سے اپوزیشن کی ترامیم کو بلڈوز کرنے کے طریقہ کار سے یہ واضح ہوگیاہے کہ حکمراں جماعت نے اپنی پارٹی کے سربراہ کی نااہلی جیسا بڑا دھچکہ لگنے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا ،جبکہ عام طورپر یہ توقع کی جارہی تھی کہ حکمراں جماعت کے رہنما صورت حال سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اپنے رویئے پر نظر ثانی کرے گی اور ایوان کاتقدس برقرار رکھنے اور ایوان میں منظور کئے جانے والے قوانین کو غیر متنازعہ بنانے کیلئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیار کرے گی تاکہ ملک میں افہام وتفہیم کے ساتھ سیاسی عمل جاری رہ سکے ،لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد،قومی اسمبلی سے انتخابی قوانین کی جلد بازی میں منظوری کے ذریعے حکمراں جماعت نے یہ ثابت کیاہے کہ وہ اس ملک کوجمہوری اندازمیں افہام وتفہیم کے ماحول میں چلانے کے بجائے شاہانہ طرزسے چلانے پر مصر ہیں ، اگرچہ حکمراں جماعت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن ایسا کرکے حکمراں جماعت نے آگے چل کر مختلف مواقع پر اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کیلئے پیش آنے والی متوقع ضروریات کے موقع پر تعاون اوراشتراک کے دروازے بند کرلئے ہیں جس کا نقصان یقینی طورپر حکمراں جماعت کو ہی پہنچے گا،جہاں تک حکمراں جماعت کے اس خیال کا تعلق ہے کہ اس طرح بل کی منظوری کے بعدوہ اپنی پارٹی کے سربراہ کو دوبارہ سیاسی دھارے میں شامل کرنے اورانھیں ایک دفعہ پھر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے میں کامیاب ہوجائے گی تو ہمارے خیال میں حکمراں جماعت کی یہ خواہش پوری ہونا اب بہت مشکل ہے۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ حکمراں جماعت کے سنجیدہ رہنما آگے آئیں اور اپوزیشن جماعتوں کے ناراض رہنماؤں کی برہمی دور کرنے اور جمہوری عمل میں مل جل کر چلنے کی راہ اپنانے کی کوشش کریں کیونکہ ملک میں جمہوریت کاتسلسل قائم رکھنے کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے اور اگر خدانخواستہ جمہوری عمل کسی حادثے سے دوچار ہوتاہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بھی حکمراں جماعت ہی کو اٹھانا پڑے گا۔
ادویات کی ریٹیل قیمتوں کی منظوری
وفاقی کابینہ نے ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمتوں کی منظوری دیدی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی وزارت برائے قومی صحت سروسز ریگولیشن اور کوآرڈی نیشن ڈویڑن کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ جان بچانے والی ادویات کی مناسب قیمت پر فراہمی یقینی بنائیں اور اس کے معیار کا خیال رکھا جائے۔ مریضوں کو جان بچانے والی ادویات کی بلا تعطل اور مناسب قیمتوں پر فراہمی ہر اعتبار سے حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اس اعتبار سے ادویات کی خوردہ قیمتوں کی منظوری دے کروفاقی کابینہ نے اپنی ایک اہم ذمہ داری پوری کی ہے،تاہم دواؤں کے معیار کا خیال رکھنے کی ذمہ داری قومی صحت سروسز ریگولیشن اورکو آرڈی نیشن ڈویژن کے بجائے ایف آئی اے کو سونپی جانی چاہئے تھی تاکہ جعلی اور غیر معیاری دواؤں کی تیاری اور فروخت کے ذمہ دار عناصر کو فوری طورپر گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ، وفاقی کابینہ کے ارکان اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ادویات کے حوالے سے ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ایک تو ادویات میں جعلسازی بہت زیادہ ہے دوسرے ادویات کے نرخوں میں ادویات ساز ادارے جب چاہتے ہیں اضافہ کردیتے ہیں ۔ ادویات سازی ایمانداری سے کی جائے اور اس کی مناسب وصول کی جائے تو اس ملک میں دواؤں کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے علاج کرائے بغیر ہی موت سے ہمکنار ہونے سے بچ جائیں ،کم از کم قیمت پر دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنانا جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہیں یہ انسانیت کی بہترین خدمت بھی ہے۔ ایسے لوگ یقینا معاشرے میں موجود ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر دواساز ی کی صنعت میں ایسے کچھ لوگ موجود بھی ہیں تو عام لوگ ان سے ناواقف ہیں اور ان کی فیاضی دواؤں کی مارکیٹ میں کہیں نظر نہیں آتی،اور عمومی طور پرایسا نظر آتا ہے کہ دواؤں کی پوری صنعت مافیاز کے زیرتسلط ہے۔ حکومت کی جانب سے دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے سخت قوانین بھی ان قوانین پر عملدرآمد کی موثر مشینری اورنظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیکار محض اور کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوتے ہیں اور اس طرح کی کوششوں کا بھی دواسازی کے بھیس میں ان موت کے سوداگروں پرکوئی اثر نہیں ہوتا۔ ناجائز منافع خوری نے اس مافیا کے ضمیر سلا دئیے ہیں ۔ ناجائز منافع خوری اپنی جگہ بدترین فعل ہے جبکہ جعلی ادویات سے جو اموات ہوتی ہیں یہ اس مافیاکی بے حسی اور انسانیت دشمنی کی انتہا ہے۔ وفاقی کابینہ نے دواؤں کی کم از کم قیمتوں کے تعین کے ساتھ ہی اس کی نگرانی کا فیصلہ یقینا درست ہے مگر اس پر عمل نہ ہونے کی صورت میں یہ نقش بر آب ثابت ہوسکتا ہے ارباب حکومت کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ محض فیصلے کردینا ہی کافی نہیں ۔ مافیاز کے خلاف جو قانون سازی کی جاتی ہے اس پر مکمل حکومتی رٹ کے ساتھ عمل کرانے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے، اس کیلئے بھی قوانین موجود ہیں مگر مافیا اپنی دھونس اور دولت سے قوانین کو بے اثر اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ان کے ملازمین کو لالچ یا دباؤمیں لا کر بے بس کردیتا ہے حکومتی مشینری کو اس مافیا کے اثر اور دباؤ سے باہر نکالنا بہت ضروری ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ارباب حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور عوام کو مناسب قیمت پر اصلی دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں