امریکا پاک بھارت اورپاک افغان تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرے
شیئر کریں
امریکامیں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے گزشتہ روز یہ واضح کردیاہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر امریکی نظریہ پاکستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا۔ورلڈ افیئرز کونسل کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا جبکہ انہوں نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ سی پیک منصوبہ میں شامل ہو کر اس سے فائدہ اٹھائے۔تقریب سے خطاب میں انہوں نے یہ واضح کیاکہ پاکستان امریکا کے ساتھ معاشی اعتبار سے بہتر تعلقات چاہتا ہے جبکہ پاکستان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مثبت اشارے موصول ہورہے ہیں اور پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ یہ تعلق دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔اعزاز احمد چوہدری نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان امریکی افواج کی افغانستان میں موجود گی کی امریکی خواہش اور افغان سیکورٹی فورسز کو مضبوط بنانے کی امریکی نیک نیتی کو سمجھتا ہے لیکن افغانستان میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا الزام پاکستان پر لگانا سراسر غلط ہے کیونکہ پاکستان پر الزام لگانے سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی یہ حکمت عملی کارگر ہوگی۔اعزاز چوہدری نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ امریکی بیان پاکستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی ہرگز عکاسی نہیں کرتا جبکہ کوئی بھی نام نہاد جہاد کی حمایت نہیں کرتا یہاں تک کے دائیں بازو کی جماعتیں بھی ان کی حامی نہیں۔پاکستانی سفیر نے بتایا کہ جب سے ان دہشت گردوں نے اسکولوں اور عبادت گاہوں پر حملہ کرکے معصوم لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے، یہ نظریہ تبدیل ہوچکا ہے کیونکہ جب آپ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا شروع کرتے ہیں تو پھر یہ جنگ مقدس نہیں رہتی۔یہ ایک واضح امر ہے کہ پاکستان میں اب شدت پسندوں کے خلاف قومی اتفاق رائے موجود ہے جبکہ یہ اتفاق رائے پاکستان کے حوالے سے امریکی نظریے میں نظر نہیں آتا۔یہ اجلاس پاکستانی سفیر کا ورلڈ افیئرز کونسل کا پہلا اجلاس تھا جو کہ ایک ایسے وقت منعقد ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے نئی افغان پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مصروف عمل ہے۔اس موقع پر اعزاز احمد چوہدری نے عالمی برادری کوبتایا کہ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر امریکا کے ساتھ چار نکاتی ایجنڈے کی تجویز شیئر کی ہے۔پہلا یہ کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، دوسرا یہ کہ ایک ایسی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ملک میں افغان طالبان کے کردار کو وضع کرے، باغیوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور چوتھا یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بہتر بارڈر مینجمنٹ ہونی چاہیے۔
پاکستانی سفیر نے بجاطورپر عالمی برادری کے سامنے یہ واضح کیا کہ ان طویل مدتی اتحادی ممالک کے درمیان سیکورٹی سب سے اہم مسئلہ ہے جبکہ پاکستان امریکا کے ساتھ پچھلے کچھ برسوں میں پیدا ہونے والی تمام غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔اس موقع پر پاکستانی سفیر نے پوری دنیا پر یہ واضح کیا کہ اگرچہ اسامہ بن لادن پاکستان کی پیداوار نہیں بلکہ ہمیں تو خوشی ہے کہ وہ مارا گیا، تاہم جس طریقے سے اسے مارا گیا اس پر ہمیں خوشی نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح اپنے اتحادیوں کےساتھ برتاو¿ کیا جاتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا نے پاکستان کو آگاہ کیا ہوتا تو بھی نتیجہ وہی نکلتا کیوں کہ پاکستان بھی اسامہ بن لادن سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔
پاکستان بار بار یہ واضح کرتا رہاہے کہ افغانستان میں جاری انتہا پسندی میں پاکستان کاکوئی کردارنہیں ہے بلکہ پاکستانی عوام، حکومت اور اس کے تمام اداروں بشمول فوج کے حقیقی مفادات مستحکم افغانستان سے وابستہ ہیں۔جبکہ افغانستان اپنی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتا رہاہے اور پاکستان کی سرزمین پرافغانستان سے ہونے والی کارروائیوںکی ذمہ داری قبول کرکے اس میں ملوث ملزمان پاکستان کے حوالے کرنے سے نہ صرف گریزاں ہے بلکہ پاکستان کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرنے کوبھی تیار نہیں ہے۔اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ بہتر بارڈر مینجمنٹ اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان بہتر تعلقات ہی الزام تراشیوں کے اس کھیل کو ختم کرنے کا واحد حل ہے اوریہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر افغانستان غیر مستحکم ہوگا تو پاکستان میں بھی امن و استحکام نہیں آسکتا۔صورت حال کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ افغانستان میں جاری شورش کی صورتحال نے پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو وسطی ایشیا سے بجلی اور گیس حاصل کرنے سے محروم رکھا ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزازچوہدری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی انتظامیہ کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد دوطرفہ مذاکرات کو منسوخ کرکے دہشت گردوں کا آلہ کار بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے دہشت گرد حملوں کا جواب مزید بات چیت کو آگے بڑھانا ہے نہ کہ کم کرنا۔پوری دنیا یہ جانتی ہے کہ فی الوقت پاکستان کی توجہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے اور معیشت بہتر بنانے کی کوششوں مصروف کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں پر کشیدہ صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے دونوں ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کر رہا ہے۔اس کے علاوہ جنوبی ایشیائی خطے کو مستحکم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس خطے کے دو اہم ایٹمی ممالک پاکستان بھارت کے درمیان کشیدگی کاخاتمہ ہو اور دونوں ملک پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت اپنے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں یہ وہ صورت حال جس کے پیش نظرپاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور نئی دہلی کے ساتھ ہمیشہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے اور پاکستان کی حکومت بار بار پوری دنیاکو یہ باور کراتی رہی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ برابری اور باہمی وقار کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کو کسی بھی قسم کی بالادستی قبول نہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ عالمی برادری بالخصوص امریکا پاکستان کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اورپاک بھارت اور پا ک افغان تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے پر توجہ دیں گے۔